میرا محکم یقین ہے کہ انسان کے لیے مذہب سے بہتر کوئی رہنما اور ریاست سے بڑھ کر کوئی خادم نہیں۔ انسانیت کے ذہن اور فطرت میں ان دونوں کی طلب بالکل آغاز سے ہی موجود ہے۔ ایک یعنی مذہب کا وظیفہ ہدایت و اصلاح ہے اور دوم یعنی ریاست کا وظیفہ خدمت و حفاظت ہے۔ مذہب راستے جیسا ہے یہ اگر سیدھا اور درست ہو تو انسان منزل (مقصد زندگی) تک کامیابی سے پہنچ سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں تو ذہن، روح اور کردار میں بہت گہرا اندھیرا اور بہت بڑا خلا پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ریاست کی مثال ایک فرد کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک فرد صحت مند یا بیمار ہو سکتا ہے، جس طرح ایک فرد عقل مند یا دیوانہ ہو سکتا ہے، جس طرح ایک فرد ذمہ دار یا لاپرواہ ہو سکتا ہے، جس طرح ایک فرد فعال یا غیر فعال ہو سکتا ہے عین اسی طرح ایک ریاست بھی ہوتی ہے اور یوں اسی تناظر میں اس کی کاکردگی بھی۔ آج ہم دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں کہ کچھ ریاستیں فلاحی اور فعال ہوتی ہیں اور کچھ بالکل الٹ خصوصیات والی اور پھر اسی حساب سے قوموں کی حالت بھی بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اچھی قومیں، اچھی ریاستوں کو تشکیل دیتی ہیں اور پھر اچھی ریاستیں اپنے وسائل، اختیار، مواقع اور امکانات سے کام لے کر نہ صرف اپنے شہریوں کی خدمت اور حفاظت ہر دم یقینی بنا دیتی ہیں بلکہ مجموعی طور پر قوموں کے احوال اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے پورے خلوص اور تندہی سے کام کر رہی ہیں۔
پاکستان میں ایک اچھی اور موثر ریاست بننے کے لیے وہ تمام عناصر ترکیبی وافر مقدار میں موجود ہیں جو کہ اس سلسلے میں مطلوب ہیں مثلاً ایک سچا اور طاقتور قومی نظریہ، پچیس کروڑ کے آس پاس ابادی، کروڑوں کی تعداد میں جذبے اور صلاحیت سے مالامال نوجوانوں کی موجودگی، عالمی اور علاقائی تجارت کے لیے درکار بہترین جغرافیہ اور راہداریوں کی دستیابی، قدرتی وسائل کے خزانے، ایٹمی صلاحیت، دو بڑی طاقتوں کا پڑوس میسر آنا، پانی کے وسیع ترین ذخائر تک رسائی، بھرپور نسلی اور علاقائی تنوع، پاکستانی لوگوں کا دنیا بھر میں بسلسلہ روزگار پھیل کر زرمبادلہ کے ذخائر بھیجنا وغیرہ وغیرہ لیکن معلوم نہیں کہ پاکستان کے مزاج اور نظام میں آخر کیا "فالٹ” موجود ہے کہ جس کے سبب یہ پچھتر برس میں ایک اچھی اور موثر فلاحی ریاست نہ بن سکا اور یہ عملاً ایک ایسی ریاست بن کر رہ گئی ہے کہ جو اپنے آپ اور اڑوس پڑوس سے مسلسل الجھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس نامطلوب پالیسی کی وجوہات نہیں ہوں گی، یقیناً ہوں گی لیکن اچھی اور موثر ریاستوں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ایسی وجوہات کا راستہ کامیابی سے روکتی ہیں اور کوشش کرتی رہتی ہیں کہ قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر حالات ان کے لیے سازگار رہے۔
گزشتہ چند عشروں سے پاکستان کی سرزمین جس بری طرح اضطراب کا شکار رہی ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ اس ملک کی فضائیں مسلسل تڑپ رہی ہیں، سلگ رہی ہیں، آنسوؤں، خون، نفرت اور بارود سے تواتر کے ساتھ آلودہ ہو رہی ہیں۔ امن نہیں ہے، استحکام نہیں ہے، تحفظ نہیں ہے، روزگار نہیں ہے، خوشحالی نہیں ہے، تعلیم اور صحت کی سہولیات آسانی سے دستیاب نہیں ہیں، انصاف کے نام پر ایک بڑا "نظام” چل رہا ہے لیکن جس میں انصاف نہ ہونے کے برابر ہے، معاشی و سماجی آسودگی اور اطمینان نہیں ہیں، ہر طرف خوف ہے، تشویش ہے، تشدد ہے، چیخ و پکار ہے اور انسانی بے توقیری کی ہزاروں لاکھوں شکلیں ہیں جو ہر جانب پھیلی ہیں۔ ہر سطح کی لیڈر شپ سنجیدگی، خلوص اور بصیرت سے تہی دامن ہے، عام لوگ عقل مندی، نظم و ضبط، ایمانداری اور دیانتداری نیز سیاسی و اجتماعی شعور سے یکسر محروم ہیں۔ کسی کو بھی یہ فکر لاحق نہیں کہ ہم نے کرنا کیا ہے اور یہ کہ ہم نے جانا کدھر ہیں؟ پوری قوم کا حال ایک بھٹکے ہوئے صحرائی مسافر جیسا ہو گیا ہے۔
آخر جدید دور میں ریاست ایسی تو نہیں چل سکتی کہ قومی، علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض پہ قرض لے کر اپنی معیشت اٹھائے، گریٹ گیمز کا حصہ بن کر اس کا سارا نزلہ اپنے جغرافیے پر گرایا جائے، خدمت اور حفاظت کی بجائے ریاستی رٹ قائم رکھنے کے لیے اول و آخر انحصار ڈنڈے اور بندوق پر کیا جائے، 75 سال کے طویل عرصے میں ایک باوقار اور یک جہتی سے سرشار قوم بننے کے بجائے مختلف متصادم طبقات معرضِ وجود میں آ جائیں، افراد، افراد سے الجھ رہے ہیں، ادارے، اداروں سے برسرِ پیکار ہیں، سیاسی تناؤ اور تفریق ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہری ہوتی چلی جا رہی ہیں، حد درجہ ابہام میں کسی کے استحقاق کا پتہ نہیں چلتا، کسی کے صوابدید کا پتہ نہیں چلتا، کسی کے اختیار کا پتہ نہیں چلتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی کے حقوق اور ذمہ داریوں کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ باہمی معاملات، تعلقات کار اور اختیارات سمیت تمام چیزیں بری طرح خلط ملط ہو کر رہ گئی ہیں جن کے درمیان ذہانتیں، وسائل، زندگیاں اور مواقع بری طرح ضائع ہو رہے ہیں۔ پالیسیاں اور اصول واضح نہیں، طریق کار واضح نہیں، رجحانات اور ترجیحات واضح نہیں۔ نظام اور انتظام میں شفافیت نہیں، انصاف نہیں، استحقاق نہیں، میرٹ اور ٹیلنٹ کی قدر دانی تو بالکل نہیں۔
قوم اور ریاست کے درمیان ہم آہنگی نہیں، یکسانیت نہیں، احترام اور اعتماد کا رشتہ برقرار نہیں، ترجیحات اور رجحانات میں زمین و آسمان کا فرق در آیا ہے، مزاج اور ضروریات میں ناقابلِ عبور فاصلے حائل ہو چکے ہیں، باہم جذبات اور احساسات کے طنابیں کب کے کٹ چکے ہیں، قوم اور ریاست بے شمار اعتبارات سے ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن کر رہ گئی ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے اپنی ہی سرزمین پر فوجی آپریشنوں کا جو نامبارک سلسلہ چل پڑا تھا وہ آج بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔ ریاست کے نمائندے مصر ہیں کہ یہ امن اور استحکام کے لیے ضروری ہیں جبکہ قوم چیخ و پکار کر رہی ہے کہ یہ انتشار اور تباہی کا باعث ہے۔ ریاست اگر چاہتی ہے کہ وہ مضبوط ہو، محفوظ ہو، محترم اور مقدس ہو تو اسے قوم کے لئے ماں جیسی بننا ہوگی بصورت دیگر وہ مذکورہ بالا اعزازات سے محروم ہی رہے گی۔ ریاست کے ٹیکسز اگر بوجھ ہے، یوٹیلیٹی بلز اگر بوجھ ہے، اقدامات اگر بوجھ ہے، روزانہ کے اخراجات اگر بوجھ ہے اور لوگوں کا اپنے بچوں کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہمی اگر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ ہے تو پھر ریاست کو اصلاح احوال کے لیے دل بڑا کر کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور یاد رکھیں اس سلسلے میں سب سے بڑے اقدامات انصاف اور شفافیت ہیں۔
ریاست اور عوام کے درمیان خوشگوار اور ہم آہنگ تعلقات کار کا قیام معاشرے کی مجموعی بھلائی اور خوشحالی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ حکومت اور اس کے شہریوں کے درمیان ایک مضبوط اور مثبت رشتہ اعتماد، تعاون اور باہمی احترام کا باعث بنتا ہے جو کہ آگے چل کر ایک مستحکم اور پرامن معاشرے کو فروغ دیتا ہے جہاں موجود تمام افراد اور قومیتوں کی ضروریات اور حقوق کا برابر احترام اور تحفظ کیا جاتا ہے۔
ریاست اور عوام کے درمیان پر اعتماد تعلقات کار قائم کرنے کا ایک اہم عنصر موثر رابطہ ہے۔ ریاست کا چہرہ اور ہاتھ پاوں حکومت ہی ہوتی ہے یوں حکومت کو اپنے فیصلہ سازی کے عمل اور پالیسیوں میں شفاف اور کھلا ہونا چاہیے۔ حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ باقاعدگی اور ایمانداری سے رابطہ رکھے، مسلسل اپنے اعمال اور فیصلوں کے بارے میں درست معلومات فراہم کرے۔ اس سے قوم کے ساتھ اعتماد اور اعتبار پیدا ہونے میں مدد ملتی ہے، ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ شہریوں کو بعض پالیسیوں یا اقدامات کی پشت پر موجود وجوہات کے بارے میں بھی اچھی طرح سے آگاہی حاصل ہو۔ اس کے علاوہ حکومت کو عوام کے تحفظات اور آراء کو بھی سننا چاہیے۔ شہریوں کے پاس اپنی رائے کا اظہار کرنے کے مواقع ہونے چاہئیں، چاہے وہ عوامی فورمز ہو، سروسز ہو یا پھر مواصلات کے دیگر ذرائع ہو۔ لوگوں کی ضروریات اور ترجیحات کو سن کر، حکومت بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی خدمت اور حفاظت کس طرح جاری رکھے۔ پالیسیوں کی تشکیل اور اقدامات کی تجویز میں عوام کی شمولیت، عوام میں اعتماد کا احساس پروان چڑھاتی ہے، اس اہتمام سے شہری بجا طور محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے اور ان کا احترام کیا جا رہا ہے۔
حکومت کو اپنے شہریوں کے فلاح و بہبود کو بنیادی ترجیح دینی چاہیے مثلاً اس عمل میں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم کے فروغ، مناسب رہائش کی فراہمی اور قومی ضرورت کے عین مطابق روزگار کے مواقع جیسی معیاری خدمات فراہم کرنا شامل ہیں۔ حکومت کو موثر انداز میں قانون نافذ کرنے اور حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے شہریوں کے لیے ایک محفوظ اور پُرسکون ماحول پیدا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اگر لوگوں کی ضروریات کو ترجیح دے کر حکومت ان کی فلاح و بہبود اور خوشی و راحت کے لیے اپنی گہری وابستگی کا مظاہرہ کرے گی تو اس کے نتیجے میں ریاست اور عوام کے درمیان ایک مضبوط اور مثبت تعلق قائم ہوگا۔
ریاست اور عوام کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنے کا ایک اہم پہلو بنیادی مساوات اور سماجی انصاف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس بات کو بہر صورت یقینی بنائے کہ تمام شہریوں کو برابری کی سطح پر مواقع، وسائل اور حقوق تک رسائی حاصل ہو۔ اس طرزِ عمل میں علاقائی، نسلی اور اقتصادی مساوات کو فروغ دینا شامل ہے۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے کر جہاں تمام افراد کے ساتھ منصفانہ اور مشفقانہ سلوک روا رکھا جائے، حکومت اپنے شہریوں کے درمیان اعتماد اور یکجہتی پیدا کر سکتی ہے۔ برابری اور سماجی انصاف کا یہ احساس ایک مربوط اور باہم ہم آہنگ معاشرے کو فروغ دینے کے لیے حد درجہ ضروری ہے جہاں تمام افراد اپنی قدر و قیمت اور بھرپور احترام کو محسوس کریں۔ حکومت جمہوری اقدار اور اصولوں کو فروغ دے۔ اس حکمت عملی میں یہ بات یقینی بنانا شامل ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہو، انسانی حقوق کا تحفظ بہر صورت کیا جائے، اور یہ کہ طرز حکمرانی ہر طرح سے شفاف اور جوابدہ ہو۔ جمہوری اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے، حکومت اپنے شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کو قائم رکھنے کے لیے اپنے خلوص اور وابستگی کا واضح مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اس سے لوگوں میں اپنی راۓ پر اعتماد بڑھے گا اور انہیں اپنے ملک میں جاری نظام کے اندر اپنی شراکت کا احساس ملے گا اور انہیں لگے گا کہ وہ اپنے ملک کے فیصلہ سازی کے عمل میں فعال طور پر شامل ہونے کے قابل ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے ایک مستحکم، خوشحال اور پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ریاست اور عوام کے درمیان خوشگوار تعلقات کار کا قیام ازحد ضروری ہے۔ آج خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طول و عرض سے دکھ بھری آوازیں اٹھ رہی ہیں، بخدا یہ دشمنوں کی آوازیں نہیں، یہ غداروں کی آوازیں نہیں، یہ بدمعاشوں کی آوازیں نہیں بلکہ پریشان حال عوام کی آوازیں ہیں، مظلوموں کی آوازیں ہیں اور طرح طرح سے متاثرین کی آوازیں ہیں، ریاست ماں جیسی ہے اور واقعی ہے تو یہ آوازیں بالکل ماں کی طرح سنیں اور اصلاح احوال کے لیے بالکل اپنی ماں جیسا جذبہ بیدار کر کے کام شروع کیا جائے ان شاءاللہ سب بہتر ہوگا اس سے ایک طرف پاکستان مضبوط اور محفوظ بنے گا اور نتیجتاً پوری قوم خوشحال اور مطمئن۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موثر رابطے کو رواج دے کر، لوگوں کے تحفظات کو سن کر، شہریوں کی بھلائی اور بہبود کو ترجیح بنا کر، مساوات اور سماجی انصاف کو فروغ دے کر اور جمہوری اقدار کو برقرار رکھ کر، حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ مضبوط اور مثبت تعلقات استوار کریں۔ ایسی حکومتی پالیسی ایک ایسے معاشرے کے قیام کی طرف لے جائی گی جہاں اعتماد، تعاون اور باہمی احترام کو فروغ ملتا ہے، اور جہاں تمام افراد اور گروہوں کی ضروریات اور حقوق کا احترام اور تحفظ کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیں ریاست اور عوام کے درمیان مضبوط اور خوش گوار رشتہ ایک خوشحال، محفوظ، صحت مند اور متحرک معاشرے کی بنیاد ہے۔
تبصرہ کریں