قائد-اعظم-محمد-علی-جناح-بانی-اسلامی-جمہوریہ-پاکستان

قائد اعظم محمد علی جناح نے تاریخ کا دھارا کیسے موڑا؟

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اللہ نے تاریخ میں مختلف ایسے لوگ وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر پیدا کیے ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا موڑنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایسے لوگ گویا تاریخ کی ضرورت قرار پاتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی بصیرت، جرآت، خلوص، اصول پسندی اور نظریات پر قوموں کو یقین ہوتا ہے، ان کے کردار، اخلاق اور شفافیت پر لوگ آنکھیں بند کر کے اعتماد کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ بظاہر تو عام لوگوں جیسی زندگی بسر کر کے راہی عالم بقاء ہوتے ہیں لیکن اپنی کامیابیوں، اثرات اور نتائج کے اعتبار سے ان کی زندگیاں لاکھوں کروڑوں زندگیوں پر بھاری ہوتی ہیں۔

ایسے لوگ ایک نظریہ دیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری قوم اس کو قبول کرتی ہے۔ یہ منزل دکھاتے ہیں اور لوگ جوق در جوق خوشی خوشی اس کے مسافر بن جاتے ہیں خواہ وہ کتنی ہی دور واقع کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ ایک مقصد کے تحت تحریک برپا کر دیتے ہیں اور دوسرے لوگ مال، جان اور وقت کا اثاثہ لگا کر اس کو کامیابی سے ہم کنار کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔

مسلمانان برصغیر کو انگریز کی ڈیڑھ سو سالہ غلامی اور ہندوؤں کی ہزار سالہ نفرت سے نجات دلانے کے لیے خدا کی نظر جس شخصیت پر پڑی وہ قائد اعظم محمد علی جناح ہی تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک بااصول، باوقار، منظم اور منضبط، باصلاحیت، دانا و بینا، وقت کے احوال اور حقائق پر گہری نظر رکھنے والے، شفاف، سنجیدہ، محنتی، کھرے اور صاف گو، قانون پسند، حریت پسند، آزاد فکر، اور وسیع الظرف انسان تھے۔ سیاسی جد و جہد کے آغاز میں برصغیر کی آزادی کے پیش نظر ہندوؤں کی طرف مشترکہ جدوجہد کے لیے دست تعاون بڑھایا لیکن وہاں چونکہ ٹنوں کے حساب سے رنگ برنگ تعصبات اور ذات پات کی گہری تقسیم موجود تھی اس لیے اس بڑھے ہاتھ کو پکڑنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ یوں وہاں سے مایوسی کے بعد مسلمانان برصغیر کے محفوظ مستقبل کے خاطر قیام پاکستان کو منزل بنایا اور صرف دس سال کی شبانہ روز مخلصانہ محنت اور لگن سے قیام پاکستان کے خواب کو تعبیر سے ہم کنار کیا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ کارنامہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں انجام دیا کہ جس میں مسلمان آزادی کے لیے مطلوبہ شعور، اتحاد اور نظم و ضبط سے محروم تھے۔

قائد اعظم محمد علی جناح ایک حد درجہ بصیرت کے حامل رہنما اور غیر معمولی ذہانت و فطانت والے انسان تھے۔ ان کا نظریہ، شخصیت، کردار اور افکار پاکستان کی تخلیق و تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن ماہ و سال میں پاکستان معرض وجود میں آیا پوری دنیا بشمول برصغیر جنگوں اور تشدد کے لپیٹ میں چلی گئی تھی لیکن قائد اعظم کا کمال دیکھیے کہ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک بغیر کسی جنگ اور تشدد کے آزاد ہوا۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور کی بصیرت، قانون پسندی اور پُرامن جد و جہد ہی تھی جس نے آزادی کی تحریک کو ہر طرح کے تشدد اور لاقانونیت سے محفوظ رکھا (اگر چہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کے دوران بعض مقامات پر ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر نہتے مسلمانوں کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا تھا لیکن بہر صورت یہ ایک عارضی مسئلہ تھا)۔ پاکستانی قوم قیامت کی صبح تک قائد اعظم کے ممنون احسان رہے گی۔

 قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریے کی جڑیں دراصل جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے تصور میں پیوست تھیں۔ ان کا ماننا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان ہر اعتبار سے ایک الگ قوم ہے جس کی الگ سیاسی، سماجی، روحانی، اخلاقی اور تہذیبی شناخت ہے اور مسلمانوں کو اپنے حقوق اور مفادات کی تحفظ کے لیے ایک الگ ریاست کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے بارے میں محمد علی جناح کا وژن ایک جدید اسلامی، جمہوری اور ترقی پسند ملک کا تھا جہاں تمام لوگوں کے ساتھ ان کے رنگ و نسل، قوم قبیلے یا عقیدہ و مسلک سے قطع نظر انصاف اور احترام پر مبنی یکساں سلوک کیا جائے گا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت غیر متزلزل عزم، دیانتداری، خلوص اور اپنے اصولوں سے گہری وابستگی کی خصوصیات رکھتی تھی۔ وہ اپنے باوقار، پُرسکون اور منضبط برتاؤ، اپنی تیز فہم، دوسروں کو متاثر کرنے کی غیر معمولی خوبی اور ان کی بہترین رہنمائی کی صلاحیت کے لیے جانا جاتا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک کرشماتی رہنما تھے جو آزادی کے حصول کے مشترکہ مقصد کے لیے مختلف پس منظر، حالات اور نظریات رکھنے والے لوگوں کو متحد کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ ایک بصیرت رکھنے والے رہنما تھے جن کے پاس آزادی کے بعد پاکستان کو درپیش رنگ برنگ چیلنجز کا اندازہ لگانے کا ادراک بھی تھا اور ان سے نمٹنے کے لیے انتھک محنت کا جذبہ بھی۔

 قائد اعظم محمد علی جناح کے کردار کی قدر و قیمت کا اندازہ ان کی ایمانداری، انصاف پسندی اور قیام پاکستان کے مقصد کے لیے بے انتہا لگن سے ہوتا ہے۔ وہ ایک عظیم اخلاقی ساکھ کے حامل آدمی تھے، وہ بیک وقت اپنے حامیوں اور مخالفین دونوں کے لیے عزت اور تعریف کے حامل ٹھیرے تھے۔ قائد محمد علی جناح کی اپنے اصولوں سے وابستگی ہر اعتبار سے غیر متزلزل تھی، اور وہ اپنے ملک کی عظیم تر بھلائی کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ وہ اصولوں کے حد درجہ پابند آدمی تھے جنہوں نے اپنے عقائد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہو۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات ان کے دین، تاریخ، سیاسی سوچ اور قانون کے حوالے سے گہری بصیرت سے اٹھے تھے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے فرد تھے جو کہ سیاست، تاریخ، قانون اور سماجیات سمیت مختلف موضوعات پر عبور رکھتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک ماہر مذاکرات کار اور سفارت کار بھی تھے جو کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مفادات کو مؤثر طریقے سے بیان کرنے اور ان کا دفاع کرنے کے قابل تھے۔ وہ ایک عملی رہنما تھے جو ہندوستان کے پیچیدہ سیاسی منظر نامے کا گہرا ادراک رکھتے تھے اور برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے اندر رہتے ہوئے بھی مسلمانوں کے لیے مختلف مراعات حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔

 قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا میں ایک قابل ذکر سیاسی رہنما تھے۔ انہوں نے بلاامتیاز دنیا بھر کی مظلوم قوموں کے لیے پوری جرآت سے آواز اُٹھاتے رہے۔ وہ کشمیر اور فلسطین سمیت تمام مقہور اقوام کے گرم جوش وکیل تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ، شخصیت، کردار اور افکار پاکستانی قوم کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک جدید اسلامی، جمہوری اور ترقی پسند ملک کے طور پر پاکستان میں وہ تمام لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کے خواہش مند تھے۔ محمد علی جناح کا خلوص، عزم، دیانتداری اور اپنے اصولوں سے گہری وابستگی حال اور مستقبل کے لیڈر شپ کے لیے ایک بہترین نمونہ جبکہ تمام پاکستانیوں کے لیے خیر، تعمیر اور امید کی ایک طاقتور تحریک کا ذریعہ ہے۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچ کر حیران ہوتا ہوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسے اصول پسند، انصاف پسند، قانون پسند، انسان دوست، شفاف اور کھرے انسان کی قیادت میں آزاد ہونے والے ملک میں آج انصاف ہے نہ استحقاق، میرٹ کی پاسداری ہے نہ ٹیلنٹ کی قدر دانی، شفافیت ہے نہ دیانت داری، اصول پسندی ہے نہ اخلاق پروری۔ ہر طرف بے اصولی، ناانصافی اور بدکرداری کا دور دورہ ہے اور قوم کے رویوں کو ایسے امراض لاحق ہو چکے ہیں جن کے ہوتے ہوئے ترقی، خوشحالی، انصاف اور وقار کی منزل پر پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان عیوب سے نجات عطا فرمائے جن میں آزادی کے فوراً بعد ہم مبتلا ہو گئے ہیں ان خوبیوں سے آراستہ فرمائے جو قائد اعظم محمد علی جناح ایک باوقار قوم کے طور پر ہم میں دیکھنے کے آرزو مند تھے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے