گردش، سید عنایت اللہ جان

عورت کے نفسیاتی تشخص کا تاثراتی تجزیہ

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اس دنیا میں دو ہی جنس ہیں، ایک مرد، دوم عورت۔ ان دونوں جنسوں کی زمانوں پر محیط محبتوں اور چاہتوں بھری رفاقت ہی اس دنیا کے نہایت شاندار حال کی پشت پر کار فرما ہے۔ اس دنیا میں جتنی بھی خیر ہے، خوشی ہے، اطمینان ہے، اعتماد ہے، علم ہے، سائنس ہے، تلاش ہے، جستجو ہے، احساس ہے، ادراک ہے، اہتمام ہے، اشتراک ہے، ارتباط ہے، وحدت ہے، مودت ہے، خلوص ہے، مہربانی ہے، ترقی ہے، خوشحالی ہے، تہذیب ہے، تمدن ہے، معتبر ذات ہے، محکم صفات ہیں، خاندان ہے، معاشرت ہے، قومیت ہے، ریاست ہے۔ یہ طویل سفر اور یہ کامیاب تجربہ، مرد و عورت نے ایک دوسرے کو دیکھ کر اور پا کر کیا ہے۔

مرد و عورت اس سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ نہ ہوتے، پاس نہ رہتے، پل پل ساتھ نہ دیتے تو بخدا موجودہ منزل تک پہنچنا تو درکنار انسان دو قدم بھی آگے نہ بڑھتا اور آگے بڑھنا بھی تو دور کی بات وہ زندہ بھی نہ بچتا۔ وہ کسی نہ کسی وقت، کسی نہ کسی مقام پر تنہا رہ کر کسی شدت، کسی آفت، کسی حملے اور کسی باؤلے کا شکار بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معدومیت کے گڑھے میں گم ہو جاتا۔

مرد و عورت میں بہت سارے حوالوں سے یکسانیت ہے اور بہت سارے دائروں میں فرق بھی۔ اس وقت ہمارے پیش نظر فرق کی اہم ترین سطح یعنی نفسیات ہے اور وہ بھی عورت کے تناظر میں۔ مرد و عورت دونوں چونکہ مختلف کرداروں کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں اس لیے دونوں کی نفسیاتی ہیئت ایک دوسرے سے یکسر مختلف رکھی گئی ہے۔ آئیے عورت کی نفسیاتی تشخص پر ذرا روشنی ڈالتے ہیں۔

عورت کی نفسیات دراصل عورت کے سوچنے، سمجھنے پرکھنے، برتنے اور کام کرنے کی جملہ صلاحیتوں کا نام ہے۔ میرے نزدیک عورت کی سب سے بڑی نفسیاتی خوبی اس کی ناقابلِ تصور حد تک قدرتی تیزی (گو اس میں کچھ نہ کچھ خوف بھی شامل ہے) ہے۔ مرد جو چیزیں حال میں سوچتا ہے وہ عورت نے ماضی بعید میں سوچی ہوتی ہے۔ مرد اپنے ممکنہ کردار اور ذمہ داریوں کی خاطر کافی کچھ طاقتور (اور بہت کچھ بے خوف) پیدا کیا گیا ہے لیکن عورت کی ذات و صفات میں عین برابر سطح کی تیزی بھر دی گئی ہے۔ یہ خدا کے تخلیقی منصوبے کا ایک نمایاں امتیاز ہے۔

صحت مند دماغ رکھنے والی عورتیں ہنر مند بھی ہوتی ہیں اور پر اعتماد بھی، ذمہ دار بھی ہوتی ہیں اور حساس بھی، سمجھدار بھی ہوتی ہیں اور مہربان بھی۔ میں نے اپنی بیس بائیس سالہ شعوری زندگی میں، خاندان، ادارے، اڑوس پڑوس اور جماعتی سطح پر، بے شمار مرتبہ عورتوں کے دماغ میں خیالات، ہاتھوں میں کام اور دل میں جذبات کو بجلی کی سی تیزی سے چلتے دیکھا ہے۔

میں اپنے مزاج اور احوال کے تناظر میں انسان اور سماج کا ایک خاموش اور پُرسکون مبصر ہوں۔ میں نے ذاتی زندگی میں کچھ پایا یا نہیں لیکن بہت کچھ سمجھا اور سوچا ضرور ہے۔ شاید یہ میرا قدرتی کردار ہے۔ میرے مشاہدے، مطالعے اور تجربے کی روشنی میں عورت تیز ہے، عورت حساس ہے، عورت سراپا محبت ہے، عورت مہربان ہے، عورت رحم دل ہے، عورت وفا شعار ہے، عورت مہذب ہے، عورت قربانی کے جذبے سے سر تا سر مالا مال ہے، عورت لچکدار ہے، عورت بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت اور مہارت سے قدرتی طور پر آراستہ و پیراستہ ہے۔ مرد کو اس کے راستے میں حائل ہونے کے بجائے مددگار بن کر ساتھ دینا چاہیے۔ عورت نفسیاتی طور پر زندگی کو بامقصد اور ثمر بار تصور کرتی ہیں۔ وہ مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جو عورتیں خود کو کمزور اور خوف زدہ سمجھتی ہیں یا وہ نظر آتی ہیں یقیناً وہ مرد اور حالات کی جبر کا شکار ہوئی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ عورت تیز ہے، باہمت ہے، نوع بہ نوع صلاحیتوں سے قدرتی طور پر آراستہ ہے لیکن کسی حکمت یا مصلحت کے تحت اس کی تیزی کے ساتھ کچھ نہ کچھ خوف بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس خوف کے حجم کو بڑھنے سے روکنا عورت کا کام ہے۔ خوف کچھ نہ کچھ تو ضروری ہے کہ جو عورت کو خطر ناک راستوں کی جانب بڑھنے سے روکے رکھے لیکن اس کا زیادہ بڑھ کر مسلط ہونا نقصان دہ ہے کہ جس سے عورت کی زندگی میں جمود اور زوال آ جائے جس کے نتیجے میں عورت حالات سے مقابلہ نہ کر پائے۔ کئی عورتیں یا تو حالات سے سمجھوتہ کر کے کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہیں، گھریلو بدسلوکی یا جنسی تشدد اور ہراسانی جھیلتی ہیں یا دماغی تناؤ کے سبب مختلف سنگین حالات سے گزرتی تو ہیں لیکن کوئی فعال اور متوقع کردار ادا نہیں کر پاتی۔

عورت کی نفسیاتی تشخص میں کچھ چیزیں قدرتی، کچھ سماجی اور کچھ ارادی ہوتی ہیں اس لیے یہ ایک کثیر جہتی امر ہے۔ نفسیاتی نقطہ نظر سے، خواتین کو اکثر مختلف چیلنجوں اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کی خود شناسی، جذبے، صلاحیت اور کردار کی تشکیل میں اہم ہیں۔ عورت کی نفسیاتی تشخص کا ایک اہم پہلو ان کے اپنے بارے میں اندرونی عقائد اور بیرونی رویے ہیں۔ عورت کے اپنے بارے میں یہی سے اٹھنے والے خیالات سماجی توقعات، صنفی کردار اور میڈیا کی منظر کشی سے متاثر ہوتے ہیں۔ عورت اپنے بارے میں مختلف چیزوں، توقعات اور ذمہ داریوں کو دل ہی دل میں جگہ اور شکل دیتی ہے اور یوں اپنی عملی کامیابیوں سے معاشرے میں اپنی قابلیت، صلاحیتوں اور کردار کے بارے میں یقین پیدا کرتی ہے۔

عورتوں کو اپنی جسمانی ساخت، خود اعتمادی اور منفرد شخصیت کی نشوونما سے متعلق مختلف سماجی اور ثقافتی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خوبصورتی اور نسوانیت سے متعلق بعض احمقانہ رویوں اور دقیانوسی تصورات کی وجہ سے اسے دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن یاد رکھیں خوف کا شکار ہو کر دبنا مکمل تباہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا حکومتی ڈھانچہ جس طرح دوسرے معاملات میں ناقص ثابت ہوا ہے عورتوں کو سماجی اور قانونی حقوق کی فراہمی میں بھی حد درجہ ناکارہ ثابت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو ہر سطح اور مقام پر مکمل قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ عورتوں کا نفسیاتی تشخص، ان کے خلاف امتیازی سلوک، پرتشدد رویوں اور جابرانہ عزائم سے تباہ ہوتا ہے۔ عورتوں کو اکثر انصاف کی راہ میں انتظامی اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے جس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں اپنی بے بسی اور ناکامی کے گہرے احساسات جنم لے رہے ہیں۔

عورت کی نفسیاتی تشخص اگر چہ بہت زیادہ تیزی اور جذباتی فراوانی پر مشتمل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ خوف کی بھی آمیزش کر دی گئی ہے۔ آئیے! اسی تناظر میں عورت کی نفسیاتی تشخص کے کچھ مظاہر کا جائزہ لیتے ہیں۔

عورت کا سب سے عام نفسیاتی مظہر اس کی جذباتی حساسیت ہے، جس سے مراد مردوں کے مقابلے میں زیادہ شدت سے جذبات کا مظاہرہ ہے۔ عورت کو فطری طور پر ہمدرد اور حساس بنایا گیا ہے، جو مختلف سماجی سیاق و سباق میں جذباتی رویوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اپنے بچوں، والدین، خاندان اور رشتہ داروں کے لیے ایک عورت اپنے دل میں جذبات کا جتنا بڑا ذخیرہ رکھتی ہے بلاشبہ مرد کا سینہ اس سے خالی ہے۔

عورت کی نفسیات کا دوسرا بڑا مظہر لچک ہے، جس سے مراد مشکلات، ناکامیوں اور چیلنجوں سے نمٹنے کی ان کی قدرتی صلاحیت ہے۔ سماجی، ثقافتی اور انتظامی سطح پر امتیازی سلوک سے پڑنے والے دباؤ کا سامنا کرنے کے باوجود، عورتیں قابل ذکر برداشت اور استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ مختلف تحقیقی نتائج سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ عورتوں میں رکاوٹوں پر قابو پانے اور مشکل حالات میں بھی ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے جذبہ اور اہتمام بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔

عورت کی نفسیات کا تیسرا مظہر اپنے رشتہ داروں اور متعلقین کے لیے غیر معمولی ہمدردی ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو لیکن عورت کے دل اور نفسیات سے ہمدردی کا جذبہ مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ عورت ازلی و ابدی طور پر ہمدرد ہے، نیک دل ہے اور حد درجہ خیر خواہ ہے۔ عورت دوسروں کے ساتھ ہمیشہ اپنی بات چیت میں سماجی روابط، جذباتی قربت اور رشتہ داریوں کے تقاضوں کو ترجیح دیتی ہے۔ عورت کا یہ ہمدردانہ رجحان روابط کی استواری، تعلقات کی آبیاری اور نوع بہ نوع تنازعات کے حل میں بڑا مددگار ثابت ہو رہا ہے۔

عورت کی نفسیات کا چوتھا مظہر خوف ہے۔ یہ خوف عورت کے بارے میں اکثر اوقات جبر سہنے، پسماندگی میں رہنے اور امتیازی سلوک زمانوں سے برداشت کرنے میں سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔ خوف اتنا تو اچھا ہے کہ آپ کو خطرناک راستوں سے روکے رکھے لیکن اتنا بالکل اچھا نہیں کہ آپ کی شخصیت اور کردار کو تباہ کر کے رکھ دے۔ عورت کا نفسیاتی تشخص اکثر اوقات سماجی رویوں، صنفی امتیازات اور طاقت و اختیار کے عناصر و مراکز سے متاثر ہوتی چلا آ رہا ہے۔ یہ چیز ان کی عزت نفس اور خود مختاریت کے احساس کو متاثر کر رہی ہے۔

بطورِ ایک مرد، تمام مردوں سے عرض گزار ہوں کہ عورت کو حریف نہیں حلیف سمجھیں، دشمن نہیں دوست سمجھیں، بوجھ نہیں سہارا سمجھیں، رکاوٹ نہیں موقع سمجھیں، مزاحم نہیں بلکہ مددگار سمجھیں۔ اسی میں ہم سب کی خیر و خوشی اور فلاح و بہبود کا راز پوشیدہ ہے۔ تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا ’جو عورت سے اچھا سلوک روا رکھے وہ شریف ہے اور جو برا سلوک جاری رکھے وہ رذیل ہے‘۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مرد عورتوں کے بارے میں اختیار کردہ اپنے عمومی رویوں اور طرزِ عمل کو درست رکھیں اور کبھی بھی، کوئی بھی ایسی حرکت نہ کریں جو کہ عورت کے حوالے سے ظلم اور تذلیل کی عکاسی کر رہی ہو۔ جہاں جہاں ان کے حقوق دبے ہوئے ہیں وہ ادا کریں اور جہاں جہاں ان کا راستہ روک رکھا ہے، وہاں سے ہٹ جائیں تاکہ معاشرہ انصاف، خوشحالی اور توازن کی جانب اپنی پیش رفت جاری رکھ سکے۔اللہ تعالیٰ ہم سب پر مہربان رہے اور ہمیں وہ توفیق عطا فرمائے کہ جس سے کام لے کر ہم سب، ایک دوسرے کا خلوص اور مہربانی سے ساتھ دیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ایک تبصرہ برائے “عورت کے نفسیاتی تشخص کا تاثراتی تجزیہ”

  1. حافظ نور اللہ Avatar
    حافظ نور اللہ

    بہت خوب ۔۔۔۔ اسلامی معاشرے میں عورت کے صحیح اور حقیقی مقام کا تعین ۔۔۔۔۔بہترین انداز میں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے