اسلامی جمعیت طلبہ سے میرا تعلق تب سے قائم ہے جب میں نے ابھی شعوری دائرہ زندگی میں قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ مہینے کے پہلے ایام میں باقاعدگی سے دو طرح کے نوجوان گھر آتے، والد محترم سے ملتے، خیر خیریت پوچھتے، احترام اور شفقت کا تبادلہ ہوتا، کچھ نہ کچھ تعلیمی، سیاسی یا سماجی موضوعات بھی زیر بحث آتے۔ کبھی چائے پانی کا دور بھی چلتا اور کبھی اس کے بغیر بھی یہ مختصر نشست مکمل ہوتی۔ کچھ دیر کے بعد والد صاحب جیب سے چند نوٹ نکالتے اور ان نوجوانوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے۔ وہ ادب سے جو کچھ ہوتا وصول کرتے۔ والد صاحب کو سلام کرتے اور رخصت ہوتے۔ یوں یہ ماہانہ معمول کبھی صرف دیکھنا اور کھبی باضابطہ ملاحظہ کرنا میری زندگی میں بالکل ابتدائی برسوں سے شامل ہو گیا تھا۔
اب آتے ہے ایک خاص نکتے کی طرف اور وہ یہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے تخلیقی خزانوں سے دو چیزیں وافر مقدار میں ملی ہیں۔ ایک سوال اور دوم نرم مزاجی۔ میں مختلف موقع و محل کے اعتبار سے سراپا سوال بن جاتا ہوں۔ جب تک اطمینان نہ پاؤں سوال ہی رہتا ہوں جبکہ اطمینان کا سب سے بڑا ذریعہ اس وقت خاکسار کے لیے معقول جواب ہوتا ہے۔ دوم میں نے سفر حیات میں، بے شمار سختیوں اور ناگواریوں کو اپنی نرم مزاجی کے دریا میں پھینک دیا ہیں۔ میں نے ارادی کوشش کی ہے کہ میرا رویہ مخاطب کے ساتھ کسی ناگواری کی وجہ سے ہرگز متاثر نہ ہو۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ زیادہ تر ناگواریاں کسی نہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہیں جو سمجھنے، سمجھانے سے دور کی جا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ دونوں چیزیں مجھے کافی سے بھی زیادہ مطمئن رکھتی ہیں۔
اب پھر مڑتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ میں اپنے والد صاحب سے پوچھتا، بابا! یہ کون لوگ ہیں؟ میرے والد صاحب کہتے یہ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن ہیں، پھر پوچھتا آپ انہیں پیسے کیوں دیتے ہیں؟ مسکرا کر جواب دیتے کہ عنایت بیٹے! ہم بھی رضائے الٰہی کے خاطر کام کر رہے ہیں اور یہ جمعیت کے نوجوان بھی اسی مقصد کے لیے تعلیمی اداروں میں کوشاں ہیں لہذا ہم ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں۔ یہ نوجوان اعانت لینے کے لیے میرے پاس آتے ہیں۔
میں ان جوابات سے مطمئن ہوتا کہ اگر مقصد ایک ہے تو اس کے حصول کے لیے باہمی تعاون بھی بنتا ہے۔ میں اس وقت سے جمعیت اور اعانت ایسے الفاظ سے آشنا ہوگیا ہوں۔ بعد کے حال احوال نے جمعیت کو میرے لیے مانوس ترین عنوان بنایا۔
میں نے آغاز میں بتایا کہ دو طرح کے نوجوان آتے۔ ایک روایتی قسم کے اور دوم ذرہ ماڈرن قسم کے لیکن حیرت انگیز طور پر اخلاق و اطوار میں یکساں قسم کے۔ برسوں بعد پتہ چلا کہ روایتی قسم کے نوجوان دراصل جمعیت طلبہ عربیہ کے کارکن ہوتے تھے اور ماڈرن قسم کے نوجوان اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھتے۔ 2000ء میں میٹرک کے بعد میں پشاور کے ایک معروف دینی مدرسے ’مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد‘ میں اپنے ایک قریبی دوست سمیت داخل ہوا۔ یوں پڑھائی اور جمعیت طلبہ عربیہ سے وابستگی کا سفر ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
زندگی مختلف تبدیلیوں کا مجموعہ ہے۔ انسان کبھی چاہتے ہوئے اور کبھی نہ چاہتے ہوئے تبدیلیوں کے عمل سے گزرتا ہے۔ ایسی ہی ایک تبدیلی سے ہم 2004ء میں گزرے جب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے دینی مدارس کے طلبہ کو سکالرشپ دینے کا اعلان کیا۔ ہم دو دوستوں نے اس موقعے کو غنیمت جانا، اپلائی کیا۔ شفیق اور مہربان پروفیسر ڈاکٹر احمد جان صاحب کی زیر نگرانی تیاری کی۔ ٹیسٹ انٹرویو ہونے کے بعد اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے داخلہ ملا۔ یوں یہ موقع میرے لیے تعلیمی حوالے سے گویا ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور وہ یہ کہ داخلہ تو اصول دین ڈیپارٹمنٹ میں ہوا تھا لیکن جمعیت کے چند دوستوں (بالخصوص اویس چیمہ، حال مقیم برطانیہ) نے پر زور مشورہ دیا کہ عنایت بھائی! اصول دین بہت سارے لوگ پڑھتے ہیں، آپ ماس کمیونیکیشن کی طرف آجائیں۔ یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ تحریک کو اس فیلڈ میں افراد کار کی زیادہ ضرورت ہے‘۔
دلائل چونکہ کافی وزنی تھے لہذا ہم نے خوشی خوشی اپنا تعلیمی شعبہ تبدیل کیا۔ جمعیت طلبہ عربیہ کے ایک سینئر رکن محمد یاسین نے میرے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور بالکل واضح کہا کہ اصول دین سے ماس کمیونیکیشن میں جانا کسی طرح بھی درست نہیں، اپنا فیصلہ واپس لیں‘ لیکن ہم نے فیصلہ واپس لینے کے بجائے مخالفت کا دریا عبور کرتے ہوئے داخلہ لے لیا۔
اسلامک یونیورسٹی میں دونوں جمعیتیں ایک چھت تلے کام کرنے لگیں۔ میں تنظیمی طور پر تو جمعیت طلبہ عربیہ کے ساتھ وابستہ رہا لیکن جذباتی طور پر ہمیشہ اسلامی جمعیت طلبہ کے زیادہ قریب رہا۔ جمعیت کے دوست جب پروگرامات میں شرکت کے حوالے سے پوچھتے کہ ہاں بھائی! کہاں پہنچے؟ تو عموماً اس انداز سے جواب دیتا ’بھائی! پانچ رکنی قافلہ یا دس رکنی قافلہ کے ساتھ فلاں مقام یا متعلقہ مقام کے عین دہانے پر پہنچ گیا ہوں‘۔
زندگی اور زندگی کے احوال اور حقائق خود ہی بندے کو اپنے مفاہیم سمجھا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے محض اپنے بصارت و بصیرت کے دروازے کھلے رکھنا پڑتے ہیں۔ طویل انسانی تاریخ کے نتیجے میں آج انسان کے سامنے جو کچھ بھی ہے وہ سارے کا سارا خود انسان کے ارادے اور کوششوں کی بدولت معرضِ وجود میں آیا ہے۔
کائنات میں انسان کو جس مقام پر آباد کیا گیا ہے۔ وہ دراصل ’ففٹی ففٹی‘ کا مقام ہے۔ ہر بندہ یا بندوں کے گروہ کچھ تو کر، دیکھ اور پا سکتا ہے لیکن بہت کچھ ایسے بھی سامنے نظر آتے ہیں جو اس کے دائرہ استطاعت سے باہر واقع ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی شریعت میں ’انسان استطاعت کے مطابق مکلف‘ ٹھہرایا گیا ہے۔
نیک مقاصد اور اہداف میں بندہ یا بندوں کے گروہ اگر اپنی حد تک جائیں مزید برآں ہم آہنگ دائروں سے ربط و ضبط بھی ممکنہ حد تک بڑھائیں لیکن بسا اوقات ہدف پھر بھی ہدف قابو میں نہیں آتا۔ ایسے ہی مواقع پر اللہ تعالیٰ اپنی خاص قدرت کے مظاہر کو قریب کر دیتا ہے اور یوں بازی پلٹ جاتی ہے۔ انبیاء، صلحاء، مجاہدین اور صدیقین کے حال احوال میں یہیں حقائق بار بار حضرت انسان کو اپنا نظارہ کراتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو خیر و شر کی ایک پیچیدہ کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔ انسان کو بہ واسطہ نبوت یہ بتایا گیا ہے کہ ایک اللہ کی منشاء ہے اور دوسری طرف شیطان کی منشاء۔ خدا کو انسان سے اپنی منشاء کی قبولیت اور پاسداری جبکہ شیطانی منشاء (ایجنڈا) سے اجتناب مطلوب ہے۔
73 برس پہلے، آج ہی کے دن (23 دسمبر 1947ء کو) لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نام سے ایک ایسی تنظیم وجود میں آئی کہ جس نے لاکھوں نوجوانوں کے زندگیوں کو بہتر انداز میں تبدیل کیا۔ اس تنظیم نے بے شمار نونہالان ملت کو زندگی کے معنوی حقائق سے جوڑنے میں قابل رشک کامیابی حاصل کی یعنی خدا و رسول، اخلاق و اقدار، علم و فضل، خدمت و معاونت، اور فکر آخرت وغیرہ۔
جوانی میں جب نوجوان اعلیٰ تعلیم کے خاطر، اپنا گھر بار اور علاقہ چھوڑ کر بڑے شہروں اور تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تو انہیں گھر اور علاقے کی نسبت کہیں زیادہ آزادی اور خودمختاری میسر آتی ہیں۔ جوانی، آزادی اور آسودگی ایسی چیزیں ہیں کہ اگر ان کے ساتھ موثر تربیت اور صالح اجتماعیت جمع نہ ہو تو بگاڑ کے ہزاروں خطرات جنم لیتے ہیں۔ جمعیت نے نوجوانوں کی اس بنیادی ضرورت کو کہ وہ آزادی اور خودمختاری پا کر بھی کسی بگاڑ کا شکار نہ ہو اور یہ کہ اپنے دین و تعلیم کے ساتھ سنجیدگی سے جڑے رہے بہتر انداز میں پوری کیا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کی بدولت لاتعداد لوگ مقصد حیات کی نعمت سے سرفراز ہوئیں۔ اس کے ذریعے سے ہی معاشرے کا ایک بڑا تعلیم یافتہ عنصر خیر کے ساتھ جڑ گیا۔ اس تنظیم سے وابستگی کے نتیجے میں اگر ایک طرف انسانی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو رہا ہے یعنی بہتر طور پر سوچنا، بہتر طور پر کرنا، بہتر طور پر پڑھنا، بہتر طور پر بولنا اور بہتر طور پر لکھنا وغیرہ تو دوسری طرف ربانی اخلاقیات سے بھی اچھی طرح بندہ مزین ہوتا ہے یعنی اچھے اخلاق، سچے جذبات اونچے خیالات، گہرے نظریات اور حقیقت پر مبنی تصورات وغیرہ۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے ایک طرف تعلیمی اداروں میں لادینیت، بد اخلاقی اور غیر ذمہ دارانہ عمومی روش کے سامنے بندھ باندھی تو دوسری طرف اعلیٰ تعلیمی نتائج، بہترین انسانی کردار اور اطمینان بخش اسلامی تربیت سمیت قال اللہ اور قال رسول کی صداؤں کو بھی رواج دیا۔ ایک طرف اگر داخلوں کے اوقات میں ہزاروں طلبہ کو مفید رہنمائی، آگاہی اور سہولت فراہم کرتی ہے تو دوسری طرف انہیں طلبہ کو مستقل تعلیمی معاونت بھی بغیر کسی وقفے اور توقف کے جاری رکھتی ہے۔
مختلف قومی اور بین الاقوامی سکالرشپس کیلیے طلبہ کو رہنمائی اور معاونت کی فراہمی بھی جمعیت کی مستقل سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔ میں نے اپنے زمانہ طالب علمی (2005ء سے 2011ء تک) میں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بلا مبالغہ ہزاروں طلبہ کو جمعیت کی جانب سے رہنمائی، معاونت، رفاقت، سہولت، تربیت، صحت مند تفریح سمیت ایک اچھی کمپنی، صحت مندانہ اور برادرانہ تعلقات کی نعمتیں فراوانی سے میسر آتے دیکھا ہے۔ عین یہی مشاہدہ مجھے پشاور یونیورسٹی کے زمانہ قیام (1999ء سے 2004ء تک) میں بھی مسلسل ہوتا رہا۔
اسلامی جمعیت طلبہ کا وجود اپنے سنجیدہ کردار، پاکیزہ اخلاق، اسلامی فکر، تربیتی ماحول، صحت مند سرگرمیوں، تعلیم دوست اقدامات اور انسان دوست اثرات کی بدولت بالخصوص طلبہ کے لیے اور بالعموم پورے معاشرے کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ کوئی بھی معقول اور انصاف پسند فرد اگر جمعیت کے کنٹربیوشن اور اثرات کا بے لاگ جائزہ لے تو مجھے یقین ہے وہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ جمعیت کا یہ مطلوبہ کردار اس لئے بھی زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ ایک اسلامی ملک میں، جو خالصتاً اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے کے اندر تعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کو اجنبی بنانے اور نوجوانوں کے اخلاق کو تباہ کرنے کے لیے ناپاک کوششیں مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں تواتر سے ہوتی رہی ہیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے طلبہ کو یہ سوچ، رجحان، حوصلہ اور شعور فراہم کیا ہے کہ کس طرح ایک فرد دین و دنیا کو ساتھ ساتھ لے کر شاہراہِ حیات پر کامیاب اور اطمینان بخش سفر جاری رکھ سکے۔ بلاشبہ یہ تنظیم پوری قوم، نوجوانوں، سماج، امت مسلمہ اور وطن عزیز سمیت مستقبل کیلیے ایک شجر سایہ دار کی مانند ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس تعلیم دوست، اسلام دوست، انسان دوست اور سماج دوست تنظیم کو تا قیامت تر و تازہ، موثر و توانا، سرگرم و فعال اور مامون و محفوظ رکھے۔
تبصرہ کریں