ہم تو یقین کیے بیٹھے تھے کہ پاکستان بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے اور موجودہ ’ایک صفحہٗ سلامت رہا تو اگلے پانچ برسوں میں ہم اس بحران سے نکل جائیں گے۔ لیکن محترمہ مریم نواز شریف کی حکومت نے پنجاب کے ارکان صوبائی اسمبلی، وزرا، مشیران، پارلیمانی سیکریٹریز وغیرہ کی تنخواہوں میں جس قدر زیادہ اضافہ کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان معاشی گرداب سے نکل چکا ہے۔ اب ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہوچکا ہے۔
پنجاب میں پہلے جس رکن اسمبلی کو ماہانہ معاوضہ چھہتر ہزار روپے ملتا تھا، اب اسے چار لاکھ روپے ملا کریں گے۔ پہلے جس صوبائی وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے تھی، اب اسے نو لاکھ ساٹھ ہزار روپے ملا کریں گے۔ پہلے اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25 ہزار روپے تھی، اب نو لاکھ 50 ہزار روپے جب کہ ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھ کر سات لاکھ 75 ہزار روپے ہوگی۔
اِسی طرح پارلیمانی سیکرٹریز کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھا کر چار لاکھ 51 ہزار روپے کر دی گئی ہے، اسپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر چھ لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ آخر یہ اسپیشل اسسٹنٹس اس پورے نظام کے اہم ترین کل پرزے ہیں، انہی کے دم قدم سے وزرا اور ارکان اسمبلی دادِ عیش دیتے ہیں۔ اسی طرح صوبائی حکومت کے مشیروں کی تنخواہ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ جو ملک میں بالخصوص پنجاب میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں، انہی مشیروں کے مشوروں کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے ان کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر چھ لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
پنجاب میں خوشحالی کی بابت ہمارا خیال مزید مضبوط تب ہوا، جب دیکھا کہ مسلم لیگ ن کی سب سے بڑی ناقد پاکستان تحریک انصاف بھی اس خوشحالی پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے تنخواہوں کے اضافے سے رائی برابر اختلاف نہ کیا، صرف یہ ایک معصومانہ سوال کیا کہ کیا یہ بل پارلیمانی قوانین سے متعلقہ ایکٹ کے مطابق ہے؟
اسپیکر نے جواب دیا ’ہاں‘۔
چنانچہ بھچر صاحب نے اطمینان بھری سانس لی اور اپنی نشست پر جلوہ افروز ہوگئے۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود ان کی جماعت کے رہنما بالخصوص جناب عمران خان راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر پاکستان کو ایک تباہ کن معاشی بحران سے دوچار دیکھ رہے ہیں، معلوم نہیں کہ یہ کھلا تضاد کیوں ہے؟ حالانکہ جب پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت تھی، جناب عثمان بزدار وزیراعلیٰ تھے، اور پی ٹی آئی کے مرکزی صدر جناب چوہدری پرویز الٰہی اسپیکر پنجاب اسمبلی تھے، تب بھی پی ٹی آئی حکومت نے وزرا اور ارکان اسمبلی اور مشیروں کی تنخواہوں میں دل کھول کر اضافہ کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس وقت خوشحالی کا ایسا دوردورہ تھا کہ اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ویسے اس اضافے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔
بزدار حکومت نے اسمبلی سے تنخواہوں اور مراعات کا بل منظور کروایا۔ لیکن پھر اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ وزیراعظم عمران خان نے گورنر پنجاب کو بل پر دستخط نہ کرنے اور واپس بھیج دینے کی ہدایت کی۔ کیونکہ جناب عمران خان کا خیال تھا کہ پاکستان شدید معاشی بحران سے دوچار ہے۔ اس لیے یہ ملک وزرا اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ خبر ٹی وی چینلز پر بھی شاں شاں کی آواز کے ساتھ بریکنگ نیوز کے طور پر بار بار نشر ہوتی رہی۔ لوگ اس بات پر خوب اش اش کر اٹھے کہ عمران خان نے ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بڑھانے سے صاف انکار کردیا ہے لیکن اسی اثنا میں ایک روز خاموشی سے اس بل پر گورنر نے دستخط کردیے۔ چنانچہ وزرا، ارکان اسمبلی و دیگر کل پرزے مارے خوشی کے کدکڑے بھرنے لگے۔
خوشحالی کا دور دورہ صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں ارکان اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافے مسلسل ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ نومبر کے اوائل میں صوبائی وزرا کی مراعات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اب اگر کسی بے چارے وزیر کو سرکاری گھر نہ ملے تو اسے ماہانہ دو لاکھ روپے دیے جائیں گے تاکہ وہ کرائے پر گھر لے سکے۔ اور اگر کسی وزیر کے پاس اپنا گھر ہو، اسے بھی دو لاکھ روپے ماہانہ ملیں گے۔ انھیں سال میں دس لاکھ روپے گھر کی تزئین و آرائش کی مد میں بھی ملیں گے۔ ان بے چارے وزیروں کو دی جانے والی مراعات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ کہاں تک سنیں گے، کہاں تک سناؤں۔
ایک طرف وزرا کے لیے مراعات کی یہ خبریں دوسری طرف خبریں ہیں کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ بڑی مشکل سے انتظام کیا جا رہا ہے۔ حکومت مسلسل غور و فکر کر رہی ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو اضافہ کیا جاتا رہا، وہ واپس لے لیا جائے۔ صوبے میں بعض یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن کے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بغیر اس اضافے کے دی جارہی ہیں جس کا اعلان گزشتہ برس ہوا تھا۔ ایک خبر کے مطابق مالی بحران اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ صوبے کی بیس سے زائد یونیورسٹیوں کے بند ہونے کا خدشہ ہے۔
اسی طرح سندھ اور بلوچستان سے بھی معاشی بحران کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وزرا، ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ ابھی گزشتہ برس ہی ایک سو آٹھ گنا اضافہ ہوا۔ ایسے میں کوئی ان خبروں پر کیسے یقین کرسکتا ہے کہ ملک معاشی مسائل سے دوچار ہے۔
علازہ ازیں ملک میں سیاسی جماعتیں شیر و شکر بھی ہورہی ہیں۔ کم از کم ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے معاملہ پر۔ اس وقت مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی تینوں بڑی جماعتیں حکمرانی کے مزے لے رہی ہیں۔ تینوں کی حکومتیں ارکان اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی سو گنا اضافہ کر رہی ہیں، اور دلچسپ امر یہ ہے کہ تینوں کے باہم ہر نکتے پر شدید اختلافات ہوتے ہیں لیکن ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ ایسا معاملہ ہے، جہاں ان پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سب ارکان اسمبلی وفور مسرت سے ایک دوسرے کے گال چوم رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے منہ میں رس گلے اور گلاب جامن ٹھونس رہے ہوتے ہیں۔
آپ ذرا یاد کیجیے، گوگل پر سرچ کیجیے کہ کب کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا جب پاکستان میں ایک حکمران پارٹی نے ایم پی ایز کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہو اور حزب مخالف نے اس پر اعتراض کیا ہو کہ نہیں، قوم شدید معاشی مشکلات کی شکار ہے، اس لیے ہم آپ کو یہ عیاشی نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی خود کریں گے۔ ایسا واقعہ کبھی رونما ہی نہیں ہوا۔ یہ تینوں جماعتیں اس معاملے پر ایک دوسرے سے مکمل مخلصانہ تعاون کرتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ملک میں کوئی معاشی بحران نہیں ہے، یہ سب خبریں دشمنوں نے پھیلائی ہوں گی ، اس کے بجائے پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔
جب ملک میں ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے، خزانے بھرے ہوئے ہیں بلکہ ابل رہے ہیں، پھر معلوم نہیں کہ ان تینوں پارٹیوں کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہوئے موت کیوں پڑتی ہے، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو پینشن دیتے ہوئے ان حکمران پارٹیوں کی جان کیوں نکلتی ہے!! سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پینشن میں اسی قدر خطیر اضافہ کیوں نہیں کیا جاتا، جتنا وزرا اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں کیا جاتا ہے؟ سرکاری ملازمین کو بھی ویسی ہی مراعات کیوں نہیں ملتیں؟
جب ملکی خزانے بھرے ہوئے ہیں تو پھر تینوں حکمران نئے سرکاری ملازمین اس انداز میں کیوں بھرتی کر رہی ہیں کہ انھیں پینشن نہ دینی پڑے۔ ایسا کیوں ہے کہ یہ حکمران پارٹیاں آئے روز سر جوڑ کے بیٹھ جاتی ہیں کہ کس طرح سرکاری ملازمین اور قوم کے دیگر طبقات کی گردن کے گرد شکنجہ مزید تنگ کیا جائے!!!
ہاں! جب معاملہ وزرا اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات کا ہو تو پھر سر جوڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ حکمران پارٹی خوب اضافہ کرتی ہے اور اپوزیشن جماعتیں اس اضافے کو ہنستے مسکراتے قبول کرتی ہیں۔ پھر جپھیاں ڈالی جاتی ہیں، رس گلے اور گلاب جامن ایک دوسرے کے منہ میں ٹھونسے جاتے ہیں۔
عبید اللہ عابد، بادبان
تبصرہ کریں