تعلیم کو اسلام میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ مذہب مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے علم کے حصول پر زور دیتا ہے جب کہ مقدس کتاب قرآن مجید سیکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور دونوں صنفوں کی مساوی روحانی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔
افغانستان میں صحت کے حکام نے حال ہی میں دارالحکومت کابل میں تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر تعلیمی اداروں کے ناظمین کو مطلع کیا گیا کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے حکم پر جلد ہی افغان خواتین کو ہیلتھ اسٹڈیز یا صحت سے متعلق تعلیم و تربیت حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
طالبان کا افغانستان : خواتین آزادانہ گھوم پھر رہی ہیں، موسیقی چل رہی ہے ( پہلا حصہ )
طالبان کا افغانستان : خواتین آزادانہ گھوم پھر رہی ہیں، موسیقی چل رہی ہے ( دوسرا حصہ )
افغان لڑکیاں مشرقی افریقہ کے ملک روانڈا کیوں جارہی ہیں؟
یہ اطلاع صحت عامہ کی وزارت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی تک پہنچاتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں کوئی باضابطہ سرکاری مکتوب جاری نہیں کیا گیا ہے، تاہم تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز کو ایک میٹنگ کے دوران بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں اب ان کے اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔
اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ خواتین کے لیے اس شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا آخری دستیاب موقع بھی ختم ہو گیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ اب افغانستان میں نرسنگ اور مڈوائفری کورسز پیش کرنے والے اداروں نے طالبان کے سپریم لیڈر کی طرف سے اس حکم کے بعد خواتین کو کلاسز لینے سے روک دیا ہے جبکہ میڈیکل کے تمام اداروں کو فائنل امتحانات لینے کے لیے دس دن کا وقت دیا گیا ہے۔
وزارت صحت کے ذرائع کے مطابق افغانستان میں لگ بھگ 10سرکاری اور 150 سے زیادہ نجی میڈیکل ادارے ہیں جو 18 مضامین میں دو سالہ ڈپلومے پیش کرتے ہیں۔ ان میں مڈوائفری سے لے کر اینستھیزیا، فارمیسی اور دندان سازی شامل ہیں، جہاں مجموعی طور پر 35 ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں۔
حالیہ طالبان دور سے پہلے افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کی وزارت میں کام کرنے والے حامد عبیدی کا کہنا ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان کی ایک سو سڑسٹھ(167) سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ طالبات تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ اس وقت تعلیمی اداروں میں طالبات کا تناسب تینتیس فیصد جبکہ اساتذہ میں خواتین کا تناسب چودہ فیصد ہوتا تھا۔ تاہم افغانستان کا دوبارہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے سخت گیر طالبان نے خواتین کی یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی عائد کی۔ اب وہاں چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبات نے اس کے بعد صحت کے اداروں کا رخ کیا جو ان چند تعلیمی میدانوں میں سے ہیں جو ان کے لیے اب بھی کھلے تھے۔ اسی طرح ہیلتھ کیئر، امیگریشن اور پولیس جیسے بعض شعبوں کے سوا تمام شعبوں میں افغان خواتین کے کام کرنے پر بھی پابندی ہے۔
کابل کے ایک انسٹی ٹیوٹ کی خاتون مڈوائفری ٹیچر نے کہا کہ انہیں انتظامیہ کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہیں بہت کم وضاحت کے ساتھ کہا گیا تھا کہ وہ اگلے نوٹس تک کام پر نہ آئیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا، نفسیاتی طور پر ہم ہل کر رہ گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان لڑکیوں اور خواتین کے لیے امید کا واحد ذریعہ تھا جن پر یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
انسانی حقوق کے حامیوں اور غیر ملکی سفارت کاروں نے اس طبی اداروں میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کی عائد کردہ پابندی کی وجہ سے پہلے ہی مرد ڈاکٹر خواتین کا علاج نہیں کر سکتے۔ اب اس نئے حکم نامے کے بعد لاکھوں خواتین صحت کی دیکھ بھال کی ضروری خدمات کے ساتھ ساتھ دائیوں، نرسوں اور ہیلتھ ورکرز سے محروم ہوجائیں گی۔
کابل میں برطانیہ کے سفارتی مشن کے ناظم الامور رابرٹ ڈکسن نے اپنے پیغام میں لکھا کہ انہیں ان نئی رپورٹس پر گہری تشویش ہے کہ طالبان افغانستان میں خواتین کو طبی تعلیم سے روک رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یہ خواتین کے تعلیم کے حق کی ایک اور توہین ہے۔ اس سے افغان خواتین اور بچوں کے لیے صحت کی سہولتوں تک رسائی مزید محدود ہوجائے گی۔
افغانستان کی ڈی فیکٹو طالبان حکومت اپنی پالسییوں کا دفاع کرتی ہے اور ان کا موقف ہے کہ یہ پالیسیاں اسلامی شرعی قوانین کی طالبان کی تشریح کے مطابق ہیں۔
انسانی حقوق کی حامی تنظیم افغانستان ویمن اینڈ چلڈرن اسٹرینتھن ویلفیئر آرگنائزیشن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ بے شمار خواتین کو طب کے شعبے میں کیریئر بنانے کا موقع فراہم کرنے سے روکتا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں خواتین نے تاریخی کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں۔ یہ پابندی افغانستان کے پہلے سے تباہ حال صحت کے نظام کو مزید کمزور کرے گی جو آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خواتین میڈیکل پروفیشنلز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
اس وقت افغانستان میں خواتین ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی شدید قلت ہے۔ ایک ہزار مریضوں کے لیے دستیاب ڈاکٹرز کی شرح صفر اعشاریہ تینتیس ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر ایک ہزار افراد کے لیے دستیاب ڈاکٹرز کی شرح کم از کم ڈھائی فیصد ہونی چاہیے۔ ڈاکٹرز کی کمی کی وجہ سے چونکہ خواتین بیماری کے وقت زیادہ مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، اس لیے خواتین کو میڈیکل کی تعلیم کی اجارت دی جانی چاہیے۔
افغانستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، ملک کو ہر شعبے اور خصوصی طور پر طبی شعبے میں پیشہ ور افراد کی اشد ضرورت ہے۔ خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی شدید کمی تشویش ناک ہے، کیونکہ یہ خواتین کی صحت کی دیکھ بھال اور وقار کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔
خواتین کی میڈیکل کی تعلیم پر پابندی پر پورے افغانستان میں گہری تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ طالبان کے اس فیصلے سے افغان معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور سماج پیچھے چلا جائے گا۔ افغان حکام کو لڑکیوں کی طبی تعلیم پر پابندی کے فیصلے کو واپس لینا چاہیے، کیوں کہ سب کو تعلیم فراہم کرنا صرف معاشرتی ذمہ داری نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ اور یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں خواتین نہیں ہوں گی تو خواتین کا علاج کون کرے گا؟ کیا مرد کریں گے؟؟؟ طالبان کے قوانین میں مردوں پر بھی پابندی عائد ہے کہ وہ خواتین کا علاج نہیں کر سکتے۔ پھر کیا طالبان عورتوں کو بے بسی کے ساتھ مرنے کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں؟
ایک تبصرہ برائے “افغانستان: خواتین کی میڈیکل تعلیم پر پابندی، آخر طالبان کیا چاہتے ہیں؟”
معلوماتی تحریر ۔۔۔افسوس ناک خبر۔۔