زہرہ-قدیر

ڈسکہ کی زہرہ کا قتل، معاملہ اتنا سادہ نہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سنا تو یہی تھا کہ ماسی ماں جیسی ہوتی ہے۔اور یہ بھی سنا ہے کہ (ماسی بنی سَس تے اوہنوں وی ڈین والا چَس ) یعنی  خالہ یا پھوپھی بھی اگر ساس بن جائیں  تو ان کے منہ کو بھی ڈائن کی طرح خون کا ذائقہ لگ جاتا ہے۔

 ڈسکہ میں ہونے والے واقعے نے یہ بات سچ  ثابت کر دی۔ پھر بھی  سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک عورت کیسے اتنی ظالم ہو سکتی ہے  اور وہ بھی سگی خالہ کیسے اس نہج تک جا سکتی ہے کہ اتنا بیہیمانہ قتل کر گزرے۔

 یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں لگتا کہ مان لیا جائے کہ محض حسد یا احساس ملکیت اور جلن نے یہ سب کرایا ہے۔

ماں تو بیٹے کیے لیے چاند جیسی بہو لانے کے خواب دیکھا کرتی ہے وہ  بہو کے گلے پر چھری کیسے چلا سکتی ہے۔ دادی تو پیار سے پوتے پوتیوں کے منہ میں نوالے بنا کر کھلایا کرتی ہے، دادی  اپنے بیٹے  کی اولاد کو  پیٹ سے نکال کر ٹکڑے کردے، یہ کیسی انہونی بات ہے۔ خالہ تو ماں کا روپ ہوتی ہے، بھانجی کا سر کاٹ کر جلا کیسے سکتی ہے۔ کس حوصلے سے  اس کے جسم کو ٹکڑے کرکے شاپروں میں ڈال کے نالوں میں بہا دئیے۔ حیرت ہے چوہا چھپکلی مارنے سے ڈرنے والی لڑکی نند بن کر بھابھی کی جان لے سکتی ہے۔ یہ عورت کا کون سا روپ ہے ؟

یہ سب تو کسی ڈراؤنی فلم سے بھی زیادہ ڈراؤنا ہے۔ انسان ایسا خواب بھی دیکھ لے تو چیختے ہوئے اٹھ بیٹھے اور یہ کیسے ظالم تھے جن کے ہاتھ بھی نہ کانپے۔

کوئی بھی وجہ اتنی بڑی نہیں ہوسکتی کہ ایسا شیطانی کھیل کھیلا جائے۔

کچھ عرصے سے جو بھی ناقابل یقین انسانیت کو شرما دینے والے واقعات ہوئے جو پہلے سننے میں نہ آئے ہوں اور یقین کرنا مشکل ہو ان کے پیچھے ڈارک ویب کارفرما نکلی۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں اس کے پیچھے بھی کوئی ایسا محرک ہی نہ ہو۔ یا پھر کوئی ایسا جرم جس کے چشم دید گواہ کو رستے سے ہٹانے کے لیے ایسا کیا جائے۔ محض غصہ یا حسد اور نفرت یہ سب نہیں کرا سکتے۔ اس قاتلہ کی یہ بات کسی صورت نہ مانی جائے کہ بہو اس لیے مار دی کہ اس کا بیٹا بیوی سے محبت کرتا تھا اور خرچہ بیوی کے اکاؤنٹ میں بھیجتا تھا۔ یہ محرکات کافی نہیں ہیں۔

ایسا نہیں کہ اس سے پہلے بہوؤں کو مارا نہیں گیا۔ بہوؤں کوجلانے کے واقعات ہوئے ہیں، فلمیں بھی بنی ہیں اس موصوع پر۔ لیکن یہ کچھ اپنی نوعیت کا انوکھا ہی کیس ہے۔۔  جس میں بہو صرف بہو نہیں بھانجی بھی ہے۔ اپنے ہاتھوں پلی، اپنی گود میں کھیلی بھانجی بیٹی نہ سہی بیٹی جیسی تو ہوتی ہی ہے۔ اس واقعے کے ییچھے کسی کی ہلا شیری بھی ہوسکتی ہے۔

مقتولہ-زہرہ-قدیر
مقتولہ-زہرہ-قدیر

اور اس سارے کیس میں ایک بات جو ابھی تک نظر انداز کی جارہی ہے اور وہ ہے خاوند کی خاموشی۔ زیادہ تر عوام تو اس کی ہمدردی میں مبتلا دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ یہ خاموشی اب مجرمانہ محسوس ہورہی ہے۔ اس آدمی جس کا نام قدیر بتایا جا رہا ہے اب تک غم کی تصویر بنا دکھایا جارہا ہے جبکہ اس پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ایک بات جو نئی سننے میں  آئی ہے وہ یہ ہے کہ  مقتولہ زہرہ کی مجرمہ ساس  پہلے بھی اپنی بیٹی کی جان لے چکی ہے، تب اسی قدیر سمیت سب گھر والوں نے اس پر پردہ ڈال کر ماں کو بچالیا۔ ماں جو شاید کسی شدید ذہنی بیماری کا شکار ہو اور اس حد تک انتہا پسند ہو کہ ایک جان لے چکی ہو اس کے پاس بیوی کو اپنی غیر موجودگی میں کیونکر چھوڑ گیا۔ جب گھر والوں کی ذہنیت کا، ان کی نفسیات کا معلوم تھا تو کیوں رسک لیا  گیا جبکہ بیوی کے ساتھ گھر والوں کے اختلاف بھی تھے۔

دوسرا سوال یہ کہ لوگ تو اپنی فیملی کو باہر ایڈجسٹ کرتے ہیں اور خاص طور پر ڈیلیوری  والا معاملہ ہو توپھر تو زیادہ بہتر ہوتا ہے کہ باہر ہی ڈیلوری ہو۔ تاہم اس بندے نے بیوی  کو اس مقصد کے لیے پاکستان بھیج دیا او ر وہ بھی اس کے ماں باپ کے گھر ریسٹ کرانے کے بجائے اپنے گھر والوں کے پاس جو اس سے نفرت کرتے تھے۔ اور پھر یہ کہ اس وقت میں تو سب سے ضروری ہوتا ہے کہ خاوند بیوی کے ساتھ ہو۔ بیوی کو یہاں بھیج دینا یہ بات کسی بھی صورت سمجھ نہیں آتی۔ اس نکتہ پر بھی تفتیش ہونی چاہیے کہ بھئی تم کیسے اتنے غافل تھے اپنی بیوی بچوں سے کہ تمھیں تب ہوش آیا جب باپ نے بیٹی کو تلاش کرنا شروع کیا۔ یہ بندہ اتنا بے قصور نہیں لگتا۔ اس نے اب تک جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی بیوی اور اس کی ماں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ ماں کو ہر ماہ پیسے بھیجتا تھا۔ نہ ماں کو پیسے کی کمی تھی نہ بہن کو۔ اب قدیر کی اس بات کا کیا مطلب لیا جائے، کیا مقتولہ پر کوئی الزام لگانے کی تیاری کرلی گئی ہے۔

اب اگر اس  سارے معاملے کا معاشرتی پہلو دیکھاجائے تو اس سے سسرال کا رشتہ خاص طور پر ساس اور نند کا رشتہ باکل ہی بدنام  ہو کے رہ گیا ہے۔

  بہو کا ساس اور سسرال کا رشتہ یوں بھی ہمیشہ کھٹا میٹھا سا ہی ہوتا ہے۔ چھوٹے موٹے اختلاف چلتے ہی رہتے ہیں۔ سمجھ دار ہو تو ایک توازن قائم کر ہی لیتا ہے اور اگر وہ کسی ایک طرف لڑکھڑا جائے تو سمجھو پھر کھٹا میٹھا رشتہ کڑواہٹ کا شکار ہونے سے نہیں بچ سکتا۔ اس پر مشترکہ خاندان میں رہائش رنجشوں کو ختم ہونے بھی نہیں دیتی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر جو بہو ساس کے ساتھ رہتی ہے وہ اکثر یہی شکایت کرتی پائی جاتی ہے کہ ساس کو الگ رہنے والی بہو زیادہ اچھی لگتی ہے، اسی کی تعریف کرتی رہتی ہے۔ ایسے ہی نندوں اور بھابھی میں بھی وقت کے ساتھ دوستی ہو جاتی ہے مگر تھوڑے بہت گلے شکوئے بھی ساتھ چلتے رہتے ہیں۔

کم ہی سہی لیکن ایسا بھی ہوتاہے کہ  کچھ گھرانوں میں سسرالی رنجشیں طلاق  کی نوبت تک پہنچ جائیں یا پھر خدانخواستہ کسی تشدد تک۔ عام طور پر ایسی صورت میں تو اکثر سسرال والے سازشوں یا کردار کشی کا سہارا لیتے ہیں۔جھگڑے یا طلاق کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قتل ہی کردینا وہ بھی اس طرح، سفاکی کی انتہا ہے۔

ساس اگر بہو کو گھر کی بیٹی نہیں سمجھ سکتی تو کم ازکم ایک انسان اور عورت تو سمجھ سکتی ہے نا جسے زندگی میں قدم جمانے کے لیے تھوڑی رعایت دیدی جائے۔ مگر وہ  کہتے ہیں نا عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ عورت ہی ہوتی ہے جو عورت سے کبھی رعایت نہیں کرتی۔ اور پھر بات ہوتی ہے ہمارے ہاں  وویمن ایمپاورمنٹ کی۔ جہاں عورت ہی عورت کی طاقت بننے کی بجائے دشمن ہو  وہاں کیا عورت ترقی کرے گی۔ سب سے بڑی وویمن ایمپاورمنٹ تو عورت سے نکاح کرنا ہے اسے گھر میں تحفظ اور عزت دینا ہے۔ جہاں عورت نکاح کے رشتے میں بندھ کر بھی مرد کے گھر میں گھر کی عورتوں اور مردوں  کے ہاتھوں محفوظ نہ ہو وہاں کیا ترقی کرے گی عورت! جہاں عورت اپنے بیٹے کو یہ سکھائے کہ اپنی بیوی کواوقات میں رکھ۔  نند بھاوج  ایک دوسرے کو نہ کچھ سمجھیں، جس معاشرے میں بیوی خاوند سے کہتی ہو کسی سے حرام تو کرلینا حلال نہ کر کے لے آنا وہاں ویمن امپاورمنٹ کیا ہوگی۔

جب عورت ہی عورت کو برداشت نہیں کرسکتی تو مرد سے کیا امید۔ جیسے ابھی حالیہ واقعہ میں کراچی کے سرجانی ٹاؤن میں خاوند نے بیوی کو جھگڑے کے دوران جھری سے ذیح کردیا۔ یہ گھریلو تشدد کی بدترین مثالین بن چکی ہیں۔ تو کیا پھر یہ مان نہ لیا جائے کہ سب سے پہلے عورت کو عورت کی طاقت بننا پڑے گا ورنہ عورتیں ذبح ہوتی رہیں گی۔ کبھی مرد کے ہاتھوں کبھی خود عورت کے ہاتھوں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے