بشریٰ بی بی

بشریٰ بی بی، باحجاب خاتون کیوں اور کیسے بے حجاب ہوئیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

’چاند پر تھوکا، منہ پر آتا ہے‘ کا محاورہ بہت بار سنا تھا لیکن اس سارے عمل کو ہوتے ہوئے پہلی بار دیکھا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ایک حالیہ بیان کے سبب تحریک انصاف سخت مشکل میں گرفتار ہوچکی ہے۔ سابق خاتون اوّل نے اپنے ویڈیو خطاب میں سعودی عرب کا نام لیے بغیر مسلم برادر ملک پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے۔  محترمہ نے فرمایا’ جب عمران خان عمرہ پر ننگے پاؤں گئے، ان کی واپسی پر باجوہ کو کال آئی کہ آپ کس کو اٹھا کر لائے ہیں، ہم تو پاکستان سے شریعت ختم کرنا چاہتے تھے اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو۔‘

اس بیان کے بعد تحریک انصاف کے باقی رہنماؤں اور کارکنوں کو  کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیسے اس بیان کا دفاع کریں۔  جنرل باجوہ نے سختی سے اس کی تردید کی ہے کہ انھیں ایسا کوئی پیغام نہیں ملا تھا۔ بشریٰ بی بی نے سراسر جھوٹ بولا ہے۔ جنرل باجوہ کی اس تردید سے قطع نظر یہ بیان بذات خود اس قدر احمقانہ ہے کہ ایک طفل مکتب بھی اسے جھوٹا قرار دینے میں لمحہ بھر کا تامل اختیار نہیں کرے گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بشریٰ بی بی کی ان باتوں نے پی ٹی آئی کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہر موسم میں پاکستان کا بہترین ساتھ دینے والے سعودی عرب کے خلاف یہ بیان چاند پر تھوکنے کے مترادف تھا جو خود بیان باز کے چہرے پر آ گرا۔ سب ماہرین اور تجزیہ کار متفق ہیں کہ بشریٰ بی بی کی اس سوچی سمجھی حماقت نے پی ٹی آئی کو ایسا شدید نقصان پہنچایا ہے جس کا ازالہ کبھی نہیں ہوسکے گا۔ یہ بیان ایک ناسور ثابت ہوا جو اب اس پارٹی کی جان کے لاگو رہے گا۔ اس حماقت سے بڑی حماقت یہ کہ خود عمران خان بھی اس بیان پر بشریٰ بی بی کی گوشمالی کرنے کو تیار نہیں۔

میں بشریٰ بی بی کو تب سے جانتا ہوں جب ان کی عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ سولہ سترہ برس ہوتے ہیں کہ ایک روز ایک دوست نے میرے سامنے ’ پنکی پیرنی‘ کا ذکر کیا۔ وہ دو روز پہلے ہی پاکپتن سے لوٹے تھے۔ انہوں نے تمتماتے چہرے کے ساتھ اس ’روحانی شخصیت‘ سے اپنی ملاقات کی داستان سنائی اور مجھے بھی ’ پنکی پیرنی‘ کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔

مجھے اچھا نہ لگا کہ دوست ایک ’روحانی شخصیت‘ کا نام عجیب و غریب انداز میں لے رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اِس وقت بھی ’پنکی پیرنی‘ لکھنا اچھا نہیں لگ رہا۔ میں نے دوست سے پوچھا کہ یہ ’پنکی پیرنی‘ کیا نام ہوا بھلا، خاتون کا کوئی اصل نام بھی ہوگا۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کیا۔

بہرحال میں نے اسے کہا کہ بھائی! اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، اللہ تعالیٰ سے جو بھی مانگا، اس نے مجھے عطا فرمایا۔ میں کیوں کسی  اور کے پاس جاؤں جبکہ مجھے کوئی مسئلہ بھی درپیش نہیں۔ مجھے کوئی حاجت ہوئی تو میں براہ راست اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے درخواست پیش کروں گا۔

خیر! دوست نے اس ’روحانی ملاقات‘ کے بعد دوسری شادی کرلی۔ شاید وہ دوسری شادی کا اذن لینے کے لیے ہی پنکی پیرنی کے پاس گئے تھے۔ اور انہوں نے اذن دیدیا۔ خیر و برکت کی دعا بھی کی اور کوئی وظیفہ بھی عنایت فرمایا۔۔۔۔۔۔ تاہم دوست کو یہ دوسری شادی راس نہ آئی۔ اس کے بعد وہ کافی اذیت ناک زندگی میں مبتلا ہوا۔

یہ دوست اپنے شہر کے ایک پرتعیش علاقے میں، اپنے ہی گھر میں مزے کی زندگی بسر کر رہا تھا لیکن پھر اس گھر سے بے گھر ہوا۔ پہلی بیوی زیتون کے تیل میں کھانے پکا کر، شاندار لنچ باکس میں بھر کر شوہر کو دیا کرتی تھی لیکن اب حال یہ تھا کہ وہ اخبار کے ایک ٹکڑے میں لپٹی ہوئی دو سوکھی روٹیاں کھاتا تھا جس کے اندر ہی دال یا کوئی دوسرا سالن دھرا ہوتا تھا۔ اس دوسری شادی نے دوست کو شٹل کاک بنایا، پہلی بیوی کی زندگی بھی خراب ہوئی، بچے بھی دربدر ہوئے، ان کی زندگیاں بھی تباہ ہوئیں۔

یہ تھا ’پنکی پیرنی‘ سے روحانی ملاقات کا حاصل۔

کئی برس بعد پتہ چلا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان بھی ’ پنکی پیرنی‘ سے اپنے مسائل حل کروانے جاتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ اس ’روحانی شخصیت‘ کا نام ’بشریٰ بی بی‘ ہے۔

اس کے بعد جناب عمران خان کو بابا فرید گنج شکر رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار کی دہلیز پر ماتھا ٹیکتے بھی دیکھا گیا۔ انہیں عام لوگوں کے درمیان میں عام آدمی کی طرح بیٹھے دیکھا گیا، گویا ایک فقیر تسبیح کے دانوں پر بشریٰ بی بی کا بتایا ہوا کوئی وظیفہ پڑھ رہا ہے۔

عمران خان اپنی زندگی میں بہت سی روحانی شخصیات سے ملتے جلتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے میاں بشیر تھے اور اب تک کی آخری شخصیت بشریٰ بی بی ہیں۔ وہ سب سے زیادہ متاثر بشریٰ بی بی ہی سے ہوئے ہیں۔

مشہور ہے کہ یہ بشریٰ بی بی ہی ہیں جن کے مشوروں پر چلتے ہوئے عمران خان ایوان اقتدار تک پہنچے۔ اسی دوران بشریٰ بی بی اور عمران خان ازدواجی بندھن میں بھی بندھے۔ بعض مشٹنڈے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی کو ’کشف‘ ہوگیا تھا، چنانچہ انھوں نے شوہر سے طلاق لی اور عمران خان کی کشتی میں جا بیٹھیں۔

عام تاثر ہے کہ عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد بھی اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بہت زیادہ زیر اثر رہے۔ وہ انہیں بیگم کے بجائے ’مرشد‘ کا درجہ دیتے تھے۔ اور ’مرشد‘ ہی کی اجازت سے سرکاری امور نمٹاتے تھے۔ مثلاً کس فرد کی کہاں اور کب تعیناتی کرنی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ جناب عمران خان نے صوبہ پنجاب پورے کا پورا محترمہ بشریٰ بی بی کے حوالے کردیا تھا۔ وہی پوسٹنگ اور ٹرانسفرز کے آرڈرز لکھوایا کرتی تھیں۔ صوبے کا وزیراعلیٰ بھی انہی کی پسند تھا۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے وزیراعظم سے بار بار کہا گیا کہ وزیراعلیٰ تبدیل کرو لیکن ان کے پَر جلتے تھے وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف نگاہ اٹھاتے ہوئے بھی۔

سن دو ہزار اٹھارہ سے اپریل دو ہزار بائیس تک قومی سطح کے معاملات میں بھی’ مرشد‘ کی اجازت اہم ترین ہوتی تھی۔ ایک حساس ملکی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ بہت مشہور ہوا جب اس کا فیصلہ بھی ’مرشد‘ کے اذن ہی سے کرنے کی کوشش کی گئی۔

اگرچہ ’مرشد‘ نے ’مرید اعظم‘ کو یقین دلایا تھا کہ ان کے بتائے ہوئے وظائف پڑھو گے، عملیات کرو گے تو اگلے بیس برس تک ایوان اقتدار میں رہو گے لیکن حساس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے معاملے پر مرشد کے احکامات  الٹے پڑ گئے، یوں اگلے چند ماہ بعد ہی خان صاحب کا دھڑن تختہ ہوگیا۔

ایوان اقتدار سے نکال باہر کیے جانے کے بعد بھی جناب عمران خان ’مرشد‘ ہی کے بتائے ہوئے وظائف پڑھتے رہے، عملیات کرتے رہے۔ اس دوران میں ’مرشد‘ صرف پردے ہی میں نہ تھیں بلکہ پردے کے پیچھے بھی تھیں۔ تاہم گزشتہ روز جب وہ پردہ سکرین پر آئیں، انھوں نے قوم سے خطاب فرمایا تو سارے حجاب اٹھ گئے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ایک قول منسوب ہے، جس کا اردو ترجمہ ہے ’ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے‘۔

یعنی’انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہو جاتا ہے۔ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنی و اخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب تک وہ خاموش ہے اس کا عیب و ہنر پوشیدہ ہے اور جب اس کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمایاں ہو جاتا ہے۔’

گزشتہ شب پاکستان تحریک انصاف کی قائمقام سربراہ محترمہ بشریٰ بی بی نے قوم سے خطاب میں جو کچھ پاکستان کے برادر ملک سعودی عرب کے بارے میں، اس کا نام لیے بغیر کہا، وہ دراصل ان کی اصل فکر کا عکاس تھا۔ اب ساری دنیا جان گئی ہے کہ وہ سعودی عرب کے بارے میں اصلاً کیا رائے رکھتی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اسے ’ زہرآلود خیالات‘ قرار دیتے ہیں۔

یہ نہیں کہا جاسکتا کہ محترمہ بشریٰ بی بی نے جو کچھ کہا، وہ ہوش مندی کے ساتھ نہیں کہا۔ یقیناً انہوں نے یہ سب کچھ عمران خان سے مکمل مشاورت کے بعد ہی کہا ہوگا۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جو باتیں منسوب کیں، وہ جناب عمران خان ہی نے بشریٰ بی بی کو بتائی ہوں گی۔

اب دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں، تیسری بات ہو نہیں سکتی:

اوّلاً: عمران خان نے بشریٰ بی بی کے سامنے فسانہ گھڑا۔

ثانیاً : بشریٰ بی بی نے اپنےطور پر یہ جھوٹ گھڑا۔

ہمیں پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ بشریٰ بی بی کی اس گفتگو پر جناب عمران خان کا ردعمل کیا ہوگا؟

ظاہر ہے کہ عمران خان کبھی یہ  نہیں کہہ سکتے کہ بشریٰ بی بی نے من گھڑت واقعہ بیان کیا۔ کوئی مرید خاص مرشد کے بارے میں ایسی بات کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

چنانچہ آج اڈیالہ جیل سے جو بیان باہر آیا، اس کے مطابق عمران خان نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

عمران خان کا ردعمل ’عذر گناہ بدتر از گناہ‘ کے مصداق ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ بشریٰ بی بی کے ایک واضح بیان سے لاتعلقی اختیار کرتے، انہوں نے مرشد کے بیان کا دفاع کیا۔ البتہ یہ نہیں بتایا کہ پھر جنرل باجوہ کو وہ پیغامات کس کی طرف سے ملے تھے جن کا بشریٰ بی بی نے ذکر کیا تھا۔

یقیناً جب بشریٰ بی بی اگلی بار اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملنے جائیں گی تو مرشد کے سامنے مرید کی آنکھیں نہیں اٹھ سکیں گی۔ ایسے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ مرشد کے فرمان پر کوئی اعتراض اٹھا سکیں۔

یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی کے باقی رہنما بشریٰ بی بی کے بیان سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں، اس بیان کو ’ذاتی بیان‘ قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ بیان اس قدر بڑا بوجھ ہے کہ پی ٹی آئی اس کا وزن اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔ سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات اس قدر مثالی ہیں کہ دنیا میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ایسے میں اگر کوئی سعودی عرب پر بہتان باندھے گا، وہ عمران خان کو چاہے جتنا بھی عزیز ہو، پاکستانی قوم کو عزیز نہیں ہوسکتا۔

 سچ تو یہ ہے کہ بشریٰ بی بی عمران خان کی ’بُری قائمقام‘  ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی بجائے علیمہ خان زیادہ ذمہ دارانہ گفتگو کرتی ہیں۔ دوسری طرف بشریٰ بی بی کا کردار سامنے کا ہو یا پس پردہ، اس کے ہوتے ہوئے پارٹی زیادہ عرصہ پارٹی نہیں رہ سکے گی۔ تحریک انصاف کے اندر کی بے چینی یہی ظاہر کر رہی ہے۔ بشریٰ بی بی اس وقت اپنے آپ کو حسب معمول’ پیرنی‘ اور پارٹی کے باقی سب لوگوں کو جاہل مرید سمجھ رہی ہیں۔ انھیں ڈانٹ رہی ہیں، رسوا کر رہی ہیں۔

بعض رہنماؤں کا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی کو واقعتاً پارٹی معاملات بلکہ سیاست سے بھی دور رہنا چاہیے۔ انھیں حقیقی معنوں میں گھریلو خاتون ہی رہنا چاہیے۔ تاہم ایسا نہیں ہوگا۔ سیاست کی چاٹ ہی ایسی ہے، لگ جائے تو جاتی نہیں۔

اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے