احمد حاطب صدیقی (ابونثر)
دُنیا ٹی وی کے دینی نشریے ’پیامِ صبح‘ کو جہاں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے ذریعے سے ناظرین تک درست دینی معلومات پہنچائی جاتی ہیں، وہیں اس پروگرام کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس نشریے میں درست اور معیاری زبان سننے کو ملتی ہے۔ اس محفل کے نظامت کار جناب انیق احمد نہایت عمدہ اور نفیس ادبی و لسانی ذوق رکھتے ہیں۔ وہ خود بھی شُستہ اور شائستہ زبان بولنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اُن کے مہمان بھی زبان و بیان کے اعتبار سے منتخب اور چنیدہ افراد ہوتے ہیں۔ غالباً کسی بھی نشریاتی ادارے سے نشر ہونے والا یہ واحد نشریہ ہے جس سے آپ اچھی باتیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ اچھی اُردو بھی سیکھ سکتے ہیں۔
ایسے معیاری نشریے میں اگرکوئی معمولی لغزش بھی ہوجائے تو سخت گراں گزرتی ہے۔ پچھلے ہفتے کے دن ایک مفتی صاحب ایک ناظر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے، قبرستان میں قرآن کی تلاوت کرکے مُردوں کو ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی تلقین کرتے رہے، ایک بار دو بار نہیں، بار بار۔ ممکن ہے مفتی صاحب کے دل میں دُبدھا ہو کہ محض ’ایصالِ ثواب‘ سے مُردوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا، لہٰذا زیارتِ قبور کرنے والوں کو ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی بھی کوشش کرنا چاہیے۔ ’ایصالِ ثواب‘ پر اکتفا کر بیٹھنے والے لواحقین تو سُن کر پریشان ہوگئے ہوں گے۔
مگر آپ ہلکان نہ ہوں۔ ’ایصال‘ کا مطلب ہی ’ملانا یا پہنچانا‘ ہے۔ ’ایصالِ ثواب‘ کا مطلب ہے ’ثواب پہنچانا‘۔ ہمارے ہاں قرآن خوانی کرنے، گٹھلیوں پرکلمے کا وِرد کرنے، حلوے پر فاتحہ پڑھنے یا کوئی اور نیک کام کرنے کے بعد اس نیکی کا ثواب مرحومین کو پہنچانے کا رواج ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرحوم خود نیک نہیں تھے ’’کارِ ثواب چھوڑ کر کارِ گناہ میں رہے‘‘۔ لہٰذا اب کمک کے طور پر انھیں ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھئی جو نیکیاں اُنھیں کرنی تھیں وہ کر گئے۔ یہ تو لواحقین کی نکوکاری ہے کہ اُن کا کہا سُنا معاف کرکے انھیں ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی کوشش کررہے ہیں۔ شکر کیجیے کہ کسی مکتبِ فکر کے نزدیک ’ایصالِ گناہ‘ یا ’ایصالِ عذاب‘کی گنجائش نہیں، ورنہ آپ کی وفات پر یہ کام بھی شدّ ومد سے ہورہا ہوتا۔ مسرورؔ کو بھی مجبور ہوکر ’ایصالِ ثواب‘ ہی کی اصطلاح سے کام چلانا پڑا:
مدفنِ عُشّاق کو روندا کِیا
اُس نے ایصالِ ثواب اچھا کیا
’ایصال‘ کے لفظ کی اصل تو ’وصل‘ ہے۔ ’وصل‘ سے کون واقف نہیں؟ اس کا مطلب ہے ایک شے کا دوسری شے سے ملنا۔ یہ ’فصل‘ کی ضد ہے۔ فصل کا مطلب ہے دُوری یا فاصلہ۔ اس وجہ سے وصل ’ملاقات‘ کے معنوں میں استعمال ہوا۔ شاعری کی دنیا میں آیا تو محبوب سے مخصوص ملاقات کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا۔ اُردو شاعری کا محبوب وصل کے لیے اکثر ’قیامت‘ کا انتظار کرنے کو کہتا ہے۔ یعنی قیامت کی ‘Date’ دیتا ہے۔ مگر محبت کا فریب خوردہ شاعر ہر فریب کھا لیتا ہے، محبوب کے اس فریب میں نہیں آتا۔ سُن کر مُسکراتا ہے اور فرماتا ہے:
حشر کہتے ہیں جسے، وصل کا وہ دن ہی نہیں
کیوں کہ اس بھیڑ بَھڑکّے میں یہ ممکن ہی نہیں
’وصال‘ کے معنی ملاقات ہونے یا ملنے کے ہیں۔ خواہ ملاقات محبوبِ مجازی سے ہو یا محبوبِ حقیقی سے۔ اسی وجہ سے جب کوئی بندہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتا ہے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ’’حضرت کا وصال ہوگیا‘‘۔خوشی کی شدت کی تاب نہ لا کر فوت ہوجانے کو ’شادی مرگ‘ کہتے ہیں یعنی’خوشی کے مارے موت‘۔دیکھیے امیرؔمینائی مرحوم نے ’وصال‘ کے دونوں معانی خوشی خوشی ایک ہی شعر میں کیسے سمودیے:
بہت ہوئے ہیں زمانے میں لوگ شادی مرگ
شبِ وصال ہے، اپنا کہیں وصال نہ ہو
وصال پر امیرؔ مینائی ہی کا ایک اور شعر یاد آگیا، جس میں جاگنے اور سونے کے متضاد الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
رہا خواب میں اُن سے شب بھر وصال
مِرے بخت جاگے، میں سویا کیا
’وصال‘ کے قبیلے کا ایک لفظ ’وصول‘ بھی ہے۔ وصول کا مطلب ملنا یا پہنچ جانا ہے۔ ہم اکثر اپنے خوش گمان قارئین سے داد وصول کرکے چاروں کھونٹ گھوم گھوم کر ’آداب، آداب‘ کہتے رہتے ہیں۔ یہ نہ کریں تو اور کیا کریں؟ بقول پروفیسر اقبالؔ عظیم:
ہم اہلِ سخن کی قیمت ہے اقبالؔ زبانی داد و دہش
کل محفل میں جو ہم کو ملی وہ داد نہ تھی مزدوری تھی
ہمارے لیے تو دوسرا مصرع یوں حسبِ حال ہوگا:’’کل ’فے بے پر‘ جو ہم کو ملی وہ داد نہ تھی مزدوری تھی‘‘۔ یہ ’ف ب‘کیا ہے؟ کسی نوجوان کو پکڑ کرپوچھ لیجے۔ قارئین اگر داد کے علاوہ کسی اور صورت میں بھی ہماری مزدوری ہمیں بھیجنا چاہیں تو ہم اسے بھی ’وصول‘ کرلیں گے، کیوں کہ رقم بے باق ہو جانے یا کسی کی بھیجی ہوئی کوئی چیز مل جانے کو بھی ’وصول ہو جانا‘ ہی کہتے ہیں۔ ہاں!جو مل گیا وہ ’موصول‘ ہوا۔
اگر کوئی چیز کسی دوسری چیز سے یا کوئی عمارت کسی دوسری عمارت سے ملی ہوئی ہو تو اسے ’مُتَّصِل‘ کہتے ہیں۔مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ
’’مزارِ اقبالؒ لاہور میں ہے اور بادشاہی مسجد سے متصل ہے‘‘۔
’اِتِّصال‘ کا مطلب ہے ملانا، پہنچانا، ملا ہوا ہونا یاکسی کام کا لگاتار ہوتے رہنا۔یہ ’انفصال‘ کی ضد ہے۔ ’انفصال‘ کا مطلب ہے فاصلہ کرنا۔ اُفق پر زمین و آسمان کا اتصال نظر آتا ہے۔ رشکؔ پر رشک آتا ہے کہ وہ گھر میں لیٹے لیٹے ہی مشاہدۂ اتصال کر لیا کرتے تھے:
کہنے کے واسطے ہے شبِ وصل اے فلک
دیکھا ہے اتصال یہیں صبح و شام کا
اسی خاندان کا ایک لفظ ’صلہ‘ بھی ہم عام بول چال یا تحریر و تقریر میں اکثر استعمال کرتے ہیں۔ ’صلہ‘ کے لفظی معنی ’باہم مل جانا‘ ہیں۔ صرف ’ملنے‘ یا پانے کے معنوں میں بھی ’صلہ‘ کا استعمال عام ہے۔ جو عطا، انعام، بخشش، بدلہ یا عوض ہمیں کسی سے ملتا ہے اُسے ہم ’صلہ‘ کہتے ہیں۔ رحمِ مادر کے تعلق سے جتنے رشتے بنتے ہیں اُن سب رشتوں کو ملا کر اور جوڑ کر رکھنا ’صلہ رحمی‘ کہلاتا ہے۔ اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔
جو دھات برقی رَو کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جانے، ملانے اور پہنچانے میں معاون ثابت ہوتی ہو ایسی دھات کو ہم مُوصِّل‘ کہتے ہیں۔ برقی رَو کا سب سے اچھا موصل سونا (Gold) ہے، اُس کے بعد تانبا۔ معیاری برقی آلات میں تانبے ہی کے تار استعمال کیے جاتے ہیں۔ موصل کو انگریزی میں ‘Conductor’کہا جاتا ہے۔ عراق کو ترکی و شام سے ملانے والا شہر بھی موصل کہلاتا ہے۔
کسی شہر کے ایک مقام کو دوسرے مقام سے ملانے کے لیے، یا ایک شہر کو دوسرے شہر سے ملانے کے لیے، یا ایک ملک کو دوسرے ملک سے ملانے کے لیے جتنے بھی ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں، نقل و حمل کے ان سب ذرائع کو ’مواصلات‘ کہا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں ہمارے ہاں ایک ’وزیرِ مواصلات‘ بھی ہوا کرتا تھا۔ اب نہیں ہوتا، کیوں کہ اسے معزول کرکے ہم نے ’کمیونیکیشن منسٹر‘ بھرتی کرلیا ہے۔
بات ’ایصال‘ سے چلی تھی، پہنچی ’مواصلات‘ تک۔ کہنا صرف اتنا تھا کہ ’ایصال‘ کا مطلب ہی پہنچانا ہے۔ محض ’ایصالِ ثواب‘ ہی سے ثواب پہنچ جاتا ہے۔ بزور ’پہنچانے‘ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ہمیں امید ہے، اب اگلی بار جب مفتی صاحب قبرستان پہنچیں گے تو قبرستان میں لیٹے ہوئے مُردوں کو ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی کوشش میں حیران و پریشان اور رطب اللسان نہیں ہوں گے۔
تبصرہ کریں