فینانہ-فرنام-،-بچپن-میں-اپنے-والد-جون-ایلیا-اور-زاہدہ-حنا-کے-ساتھ

جون ایلیا: ابو سے میرا رشتہ کیوں اور کیسے ٹوٹا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آج ابو کی انیسویں برسی ہے۔ دنیا اور ان  کے مداحوں نے انھیں آج کے دن کھویا تھا مگر میں نے ابو کو سالہا سال پہلے کھو دیا تھا۔ یہ وہ موضوع ہے جس پہ میں بات نہیں کرتی یا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں برسوں خاموش رہی۔ بہت سے لوگوں نے چاہا کہ میں ان سے اس موضوع پر بات کروں مگر میں نے ہمیشہ ٹال دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں یہ سمجھتی ہوں، یہ بہت ذاتی نوعیت کی بات ہے اور اپنے گھر کی بات میں دنیا سے کیوں کروں۔

سحینا اور میں نے کئی دفعہ چاہا کہ ہم اس لیے ابو کے بارے میں بات کریں کیونکہ ہماری خاموشی کی وجہ سے لوگوں نے ایسی باتیں کیں جو بڑی تکلیف دہ تھیں اور سچ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔

 میری، سحینا اور زریون کی مشکل یہ ہے کہ ہمارے دونوں والدین  مشہور ہیں اور مشہور لوگوں کی زندگی پر بات کرنا ان کے مداح اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بات اتنی سادہ ہوتی تو کوئی مشکل نہ تھی مگر سچائی کا علم ہوئے بغیر یا ایک طرف کی بات سن کر رائے قائم کرنا اور اس پر یقین کرلینا زیادتی ہے۔ ہماری خاموشی نے لوگوں کی مزید حوصلہ افزائی کی۔ جس کا جو دل چاہا وہ اس نے کہا اور لکھا۔

آج سے زیادہ کوئی دن موضوع نہیں جب میں وہ سب یہاں لکھوں جو لکھنا آسان نہیں اور جسے لکھنے سے میں ہمیشہ بھاگتی رہی۔

بارہ برس کی عمر تک یہ تصویر ہی میری زندگی کا سچ تھی۔ میں زندگی کو ایسا ہی سمجھتی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ یہ تصویر میری زندگی کا اصل سچ نہیں ہے. مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت جب یہ تصویر کھینچی گئی تب اس میں امی ابو سچ میں ایسے ہی تھے ایک دوسرے کے لیے یا وہ میری سالگرہ پہ مجھے خوش کرنے کے لیے اس تصویر میں وہ رنگ بھر رہے تھے جن کا وجود ہی نہیں تھا۔

 جب ایک دن آدھی رات کو میں نے ابو کو امی سے لڑتے ہوئے سنا تو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کیفیت کو میں آج بھی بیان نہیں کرسکتی۔ میں صبح کے انتظار میں جا گتی رہی۔ مجھے امی سے بات کرنا تھی۔ مجھے جاننا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ مجھے اس وقت رونا چاہیے تھا۔ میں اگر کسی فلم میں بھی کوئی جذباتی منظر دیکھ لوں تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ سینما میں میرے بچے خوب ہنستے ہیں مجھے اس طرح جذباتی ہوتا ہوا دیکھ کر، مگر اس رات میری آنکھ سے  ایک آنسو بھی نہیں گرا تھا۔

زاہدہ حنا

صبح میں نے جب امی سے پوچھا  کہ  کیا کل رات ابو آپ سے لڑ رہے تھے؟ تو وہ ایک سوال تھا اپنے کانوں سے سب سن کر بھی مجھے یقین نہیں آرہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے ماں باپ کو دنیا کا آئیڈیل جوڑا سمجھتی تھی اور ابو میرے آئیڈیل تھے۔ میں ان سے بے پناہ محبت کرتی تھی، امی سے بھی زیادہ۔ اور اس لہجے کی توقع میں ان سے  نہیں کرتی تھی۔

امی نے مجھے بہلا لیا تھا۔ وہ شاید مجھے میری اس  خیالی دنیا سے اصلی دنیا میں نہیں لانا چاہتی تھیں۔ انھیں معلوم تھا کہ حقیقت مجھے بہت زیادہ  تکلیف دے گی مگر کب تک۔ میں نے امی کی بات پر یقین کر لیا شاید اس لیے کہ میں کچھ اور جاننا اور سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امی ابو کے اختلافات کمرے میں ہی حل ہوجاتے تھے مگر چند برس بعد یہ اختلافات کمرے کی چاردیواری سے نکل کر لوگوں کی گفتگو  کا موضوع بن گئے۔  

وہ بہت مشکل وقت تھا۔ امی اور ہم تینوں بھائی بہنوں نے لوگوں  سے  وہ کچھ سنا اور برداشت کیا جو بہت تکلیف دہ تھا اور یہ اس لیے ہوا کہ ابو ہر جگہ بیٹھ کر ہمارے لیے جو دل چاہتا وہ کہتے اور لوگ ان کی بات کا یقین کر لیتے۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکی کہ لوگوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ جون ایلیا ان کے لیے ان کے پسندیدہ شاعر ہیں مگر میرے تو وہ باپ ہیں۔ میں زندگی کو ان کے مصرعے میں تلاش نہیں کر سکتی تھی۔ میری تو زندگی تھے وہ۔ میرے، سحینا اور زریون کے تو باپ تھے وہ ہمیں شاعر جون ایلیا نہیں ہمارا باپ جون ایلیا چاہیے تھا جو کہیں کھو گیا تھا۔

سحینا ایلیا

وہ یہ بھول جاتے تھے کہ ہم کس جماعت میں پڑھ رہے ہیں یا ہماری عمر کتنی ہے۔ انھیں ہماری سالگرہ یاد نہیں رہتی تھی۔ وہ جب مجھے یا سحینا کو پکارتے تو ہمارے بجائے اپنی بھتیجیوں کے نام لیتے۔ ابو نہ تو خود امی کو قبول کر سکے اور نہ ان کے خاندان نے امی کو کبھی قبول کیا۔ اس لیے کہ امی امروہہ کی نہیں تھیں اور نہ ہی وہ شیعہ تھیں۔ ان باتوں کی وجہ سے امی ابو میں وہ فاصلے پیدا ہوگئے جو وقت کے ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ ابو سے یہ بات ہضم کرنا بھی مشکل ہوتا چلا گیا کہ وقت کے ساتھ امی کی شہرت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ ایک بہت پڑھے لکھے انسان تھے اور ان سے ایسی سوچ کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔

میں نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا کیونکہ جب لوگوں کو  معلوم ہوتا کہ میں کس کی بیٹی ہوں تو سرگوشیاں شروع ہو جاتیں اور جو کچھ سننا پڑتا اس سے تکلیف ہوتی۔

جب نویں کلاس میں امتحانی فارم آئے تو میں نے گھر جا کر کہا کہ میں اپنا نام تبدیل کرناچاہتی ہوں۔ تب میرا نام فینانہ جون تھا۔ امی بہت حیران ہوئی تھیں کہ میں کیوں اپنا نام تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا تھا کہ مجھے ابو کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگانا۔ میں اس وقت سولہ سال کی تھی اور یہ فیصلہ کرنا میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ مگر میں جانتی تھی کہ وہ رشتہ جو دنیا میں مجھے سب سے پیارا تھا وہ میرے اور ابو کے زندہ ہوتے ہوئے بھی ختم ہوگیا ہے۔ ابو میرے لیے اس دن مر گئے تھے، میرے لیے زندگی کے معنی تبدیل ہو گئے تھے۔ میرا نام جون سے فرنام ابو نے ہی رکھا تھا۔ میں جب پیدا ہوئی تو ابو نے میرا نام فینانہ جون رکھا تھا۔ ابو سے جب میرا رشتہ ٹوٹ گیا تو میرے لیے سب کچھ بدل گیا، میری پہچان بدل گئی اور ایسا ابو کی وجہ سے ہوا اس لیے میری ضد تھی کہ اب جو نام رکھا جائے گا وہ ابو ہی رکھیں گے۔

فینانہ فرنام

میرے لیے بہت مشکل تھا لوگوں کا سامنا کرنا، ان کے چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب دینا مگر پھر مجھے سمجھ میں آگیا کہ میں ابو کے کیے کی ذمہ دار نہیں ہوں. وہ اپنے کیے کے ذمہ دار خود ہیں۔ ابو اکثر امی سے لڑائی کے بعد کہتے کہ انھیں یاد نہیں کہ پچھلی رات کیا ہوا تھا اس لیے کہ وہ شراب کے نشے میں تھے مگر ہم سب جانتے تھے کہ وہ مکمل ہوش و حواس میں یہ سب کہہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شاعر کے یہ مسائل نہیں کہ وہ گھر کے کرائے یا سودا سلف کے بکھیڑوں میں پڑے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنا چاہتے تھے۔ میں نے اپنے دادا دادی کو نہیں دیکھا۔ ان کا انتقال امی ابو کی شادی سے پہلے ہو گیا تھا۔ وہ دونوں سادہ مزاج تھے اور ابو کے طرز زندگی سے دکھی رہتے  تھے۔ ابو کا یہ خیال کہ شاعر اور ادیب کو زندگی کے ان جھمیلوں سے آزاد ہونا چاہیے دراصل زندگی اور اس سے وابستہ ذمہ داریوں سے فرار تھا۔

جب میں چار برس کی تھی تو ابو مجھے اپنے ساتھ علیم ماموں (مشہور شاعر) کے ہاں لے کر گئے۔ امی مجھے نہیں بھیجنا چاہتی تھیں، مگر ابو ضد کرکے لے گئے۔ جب ابو رات دو بجے واپس آئے اور امی نے ان سے دروازے پر پوچھا  کہ فینی کہاں ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا ’مجھے کیا معلوم اندر ہو گی‘۔ میں سوچتی ہوں کہ امی پہ اس وقت کیا گزری ہو گی۔ امی مجھے جاکر لائی تھیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ چاہے شاعر ہو یا ادیب، مصور ہو یا موسیقار ہم فنون لطیفہ سے منسلک لوگوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ عام آدمی کی طرح کیسے زندگی گزار سکتا ہے۔ وہ تو شاعر ہے، مصور ہے تو اس سے ذمہ داری کا تقاضا کیسے کیا جائے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر والے بھی ہیں اور گھر والوں کے لیے ان کا زندگی کے ہر قدم پہ موجود رہنا اور ساتھ دینا ضروری ہے۔

میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ابو کے مداح ابو کے بچوں سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم ابو کو سرکار، مرشد جون ایلیا سمجھیں ہم ان کے چاہنے والوں کو کیسے سمجھائیں کہ ہمارے لیے وہ فقط باپ تھے۔ ہمیں ان سے صرف محبت اور شفقت چاہیے تھی۔  اولاد اپنے باپ سے اتنا تو چاہ ہی سکتی ہے۔ باپ شاہ ہو یا گدا، اولاد کے لیے صرف باپ ہوتا ہے۔ ہم تینوں بھی صرف اپنے باپ سے ان کی محبت چاہتے تھے۔ 

ابو سے زیادہ خوش قسمت انسان میں نے نہیں دیکھا۔ قدرت نے انہیں سب دیا عزت، شہرت، مگر وہ خوش نہیں رہ سکے کیونکہ انھوں نے اپنے رشتوں کی قدر نہیں کی۔ جو انسان محبت کرنے والے ماں باپ کا اور اولاد  کا نہ ہو وہ اپنا بھی نہیں ہو پاتا۔

ابو کے انتقال کی خبر مجھے فون پر امی نے دی تھی۔ مجھے یقین نہیں آیا تھا کہ ابو نہیں رہے۔ وہ میری زندگی سے بہت پہلے رخصت ہو گئے تھے اور اس دن وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہمارے لیے باپ کا خانہ خالی رہا جس کی وجہ سے زندگی وہ نہیں رہی جیسا اسے ہونا چاہیے تھا مگر امی، نانی اماں، خالہ، ماموں، بوا، انکل اور رحمت ماموں ان سب نے ہمیں بہت پیار دیا۔ ابو کے ہوتے ہوئے ان کے بغیر زندگی کا قرینہ ان سب سے سیکھا۔ زندگی کو ہم نے سر اٹھا کر جیا اور ہر لمحے زندگی نے جو خوشیاں اور نعمتیں ہمیں دیں ہم اس پر شکرگزار رہے۔

ابو اگر ہماری زندگی میں ہوتے تو زندگی بہت الگ ہوتی جو زندگی ان کے بغیر جینی پڑی اس سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اس نے ہمیں وہ بننے میں مدد دی جو آج ہم ہیں۔ میرے دونوں بہن اور بھائی نہ صرف بہت اچھے انسان ہیں ان کو اس کی بھی داد دینا پڑے گی کہ انھوں نے سر اٹھا کر زندگی کو جیا جو آسان نہیں تھا۔ امی کے حوصلے اور ہمت کی داد دینا تو مشکل ہے کہ انھوں نے کیسے تین بچے تن تنہا پالے اور ہم اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں۔

میری جب کامران سے شادی ہوئی تھی تو امی نے ان سے اور ان کے گھر والوں سے ابو کے بارے میں بڑی تفصیل سے بات کی تھی۔ میں نے اپنے طور پر بھی کامران سے بات کی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ وہ ابو کے مداح ہیں اور ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ابو زندہ ہوتے ہوئے بھی میری زندگی میں کہیں نہیں ہیں۔ وہ آج بھی ابو کے مداح ہیں مگر وہ میرے اور ابو کے تعلق کے ٹوٹ جانے کو سمجھتے ہیں اور میرے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہے ہیں۔ میرے دونوں بچے میرے باپ سے میرے تعلق کو جانتے ہیں۔ میری بیٹی ان کی شاعری پڑھتی ہے اور میرا بیٹا کالج سے آکر بتاتا ہے کہ اس کے دوست محبت میں ناکام ہو کر ابو کی شاعری پڑھتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے