آج تذکرہ کرتے ہیں دنیا کی ایک ایسی بدقسمت قوم کا جسے بھیڑ بکریوں سے زیادہ حیثیت نہیں دی گئی تھی، ان کی حیثیت تسلیم کرنے سے انکار کرنے والے، ان کی حیثیت کو متنازعہ بنانے والے ممالک دو ہیں۔ ان میں سے ایک ہے دنیا کے پانچ براعظموں پر اپنا سکہ چلانے والا، تعلیم و تہذیب کا علم بردار برطانیہ اور دوسرا ملک ہے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت۔
مارچ 1846 میں برطانیہ نے ہر کشمیری کو چند سکوں کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔۔ ۔۔۔
دہقان و کشت و جوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
انسانوں کی حس اس قدر مردہ ہو چکی تھی کہ پوری دنیا میں کسی ملک نے اس پر برطانیہ سے احتجاج کیا نہ خود برطانیہ کو اس انسان فروشی میں ذرہ برابر جھجک و شرم محسوس ہوئی۔ آج جب آپ لندن، ایڈنبرا، گلاسکو اور مانچسٹر کے حسین مقامات کی سیاحت کریں تو اس ہوش ربا حسن کے پیچھے چھپی تاریخ کے اس بدنما ورق کو الٹ پھیر کر کے دیکھنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جمہوریت کے چیمپین بھارت نے انگریزوں کی رہنمائی میں بڑی چالاکی و مکاری سے فوجی، سیاسی اور سفارتی تینوں محازوں پر کام کیا، طاقت کے بل پر ریاست کے بڑے حصے میں برپا تحریک مزاحمت کو کچل دیا، ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ سے سیاسی گٹھ جوڑ کر کے مشروط عارضی الحاق کردیا، اس کے بعد کشمیریوں کو وعدوں اور امیدوں کے سہارے غلامی کی ذلت میں زندہ رہنے پر راضی کرنے کی کوشش کی گئی۔ بین الاقوامی ملامت سے بچنے کے لیے بھارت نے خود دسمبر 1947 میں اقوام متحدہ میں کشمیر کا معاملہ پیش کر دیا۔ اس سے پہلے انگریزوں، مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارت کے مابین ایک سہ فریقی سودا طے ہوا جس کے نتیجے میں ریاست جموں کشمیر کے عوام سے پوچھے بغیر اور کچھ شرمائے بغیر، تمام بین الاقوامی ضوابط بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت نے باقاعدہ فوج ہوائی جہازوں کے ذریعے 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر میں اتار دی۔
کوئی بھی ملت جب اپنے نظریے میں کمزور ہوتی ہے، احساس کمتری اور مرعوبیت کا شکار ہوتی ہے تو اس کے اندر غدار ڈھونڈنا بھی مشکل نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے شیخ عبداللہ نے کشمیر جنت نظیر کی تاریخ میں ایک بد نما باب رقم کیا ہے۔ اسی کی طرف نظر عنایت اٹھی اور طاقت کے دیوتاؤں نے اس کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھ دیا۔ وادی میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بھارت کو وادی میں کچھ اور بھی سیاست دان اور مذہبی پیشوا مل گئے جنہوں نے اپنا ضمیر چند ٹکوں کے عوض اس کے ہاں گروی رکھ دیا۔
شیخ خاندان، قرہ خاندان، بخشی خاندان جیسا بکاؤ مال بھارت کو وافر مقدار میں ملتا رہا۔ انہی کی مدد سے ریاست میں ہندووانہ تہذیب، عریانیت، فحاشی، منشیات الحاد اور ذات پات کے مفاسد کو بھی رواج دیا، اسلامی تعلیمات و شعار سے قوم کو بیگانہ کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ علاوہ ازیں ریاست میں مسلمانوں کی آبادی گھٹانے اور ہندوؤں کی آبادی بڑھانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام لیا گیا۔ اسلام اور آزادی کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے میں کبھی کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا گیا۔
قارئین !کشمیری قوم کے اندر سے اگر بھارت کو بکاؤ مال مل گیا تو دوسری طرف آزادی اور سچائی کے متوالے بھی کم نہ تھے۔ اپنی قوم کا مکھن، کشمیری ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزتوں کے یہ محافظ سر پر کفن رکھ کر نکلے اور بھارت کی غلامی کو پائے حقارت سے لات مار دی۔ کشمیری قوم نے ان نوجوانوں کو اپنی آنکھوں پہ بٹھایا۔ بڑی تعداد میں عوام نے اس تحریک کا ساتھ دیا۔ بھارت نواز تنظیمیں بکھرتی چلی گئی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے حیرت و ہیبت کی تصویر بن گئے۔ عدالتیں ناکام ہو گئیں۔ بھارت کا جاسوسی نظام ناکارہ ہو گیا۔ شراب و کباب، راگ رنگ، بے حیائی، بے پردگی اور فحاشی و منشیات کے اڈے برباد ہو گئے۔ ان کی جگہ مساجد، خانقاہوں، درسگاہوں اور عید گاہوں کی حقیقی مرکزیت قائم ہو گئی۔ بھارتی فوج کو اپنے بنکرز، پکٹس اور کیمپ قبریں لگنے لگے۔
اب جو جمہوریت کے اس چیمپئن کی اس بہت بڑی فوج کا جذبہ انتقام جوش کی شکل اختیار کیا تو شجر و حجر، مکان، دکان، پھل، غلہ، کھیت، کھلیان ہر شے کو آگ لگا دی۔ بچے، بوڑھے، جوان خون میں لت پت کر دیے گئے۔
قارئین! کہانی یہیں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ افسوس صد افسوس اگلا باب ہماری بے عملی سستی، پسپائی سے رقم ہے۔ بھارت تو ایک دن بھی چین سے نہ بیٹھا۔ اس نے اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ہر فورم پر ہر طریقے سے ہر حربہ اختیار کیا۔
ہم نے تقریروں میں کشمیر کا ذکر کیا، کشمیر ڈے منایا، پی ٹی وی پر کشمیر کے نغمے کشمیر کے ڈرامے پیش کرتے رہے لیکن دوسری طرف ہمارے حکمرانوں نے بھارت کے حکمرانوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں چڑھانے میں عافیت جانی۔ یہ حکمران دنیا کو باور ہی نہ کروا پائے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ قوم کے اندر فحاشی عریانیت اور منشیات اور بے مقصدیت کے جراثیم کی افزائش کے لیے ہر طرح کے اقدامات کیے گئے۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ قوم کو ایک مقصد پہ جمع کرتے، دوست اور دشمن کا مفہوم سمجھاتے، تحریک آزادی کشمیر کے حق میں قوم کی رائے بناتے، قوم کو نظریاتی تعلیمی اقتصادی ہر طرح سے مضبوط کرتے۔
آہ! ہم یہ نہ کر پائے مگر بھارت تو ایک پل چین سے نہیں بیٹھا لہذا آج یہ صورتحال ہے کہ کینیڈا اور امریکا میں اس کی جگ ہنسائی ہوئی، کشمیر میں انتخابات میں بی جے پی ہار گئی، بھارت کی سپریم کورٹ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے آرڈر کے خلاف اپیل پر سماعت کا اعلان کیا اور ہم ہیں کہ کسی بھی موقع کو اپنے جائز حق کے حصول کی خاطر استعمال نہ کر پائے۔ نہ ہمیں لابنگ کرنا آتی ہے نہ ہمارا اپنا نظریہ کوئی ایسا مضبوط ہے اور تاریخ پر بھی ہماری نظر نہیں ہے۔ یہاں ہم مشہور بھارتی دانشور جناب ڈی ایف کڑاکا کی کتاب Betrayal in india سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔لکھتے ہیں
’ اگر اس نظریے میں جس کے مطابق ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تھی یعنی یہ کہ مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے کوئی جواز اور صداقت موجود ہے تو کشمیر لازماً پاکستان ہی کا حصہ ہے۔ اور اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہیں ہوتا تو پھر اس نظریے کی ساری عمارت دھڑام سے زمین پر آ گرے گی۔ کانگرس کے مدبرین اس نظریے کی بنیاد ہی ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس پر پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ پس جہاں بھارت کشمیر کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے وہاں کشمیر کے بغیر پاکستان کے زندہ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قارین سوال آپ کی طرف ہے کہ ہم نظریے کی عمارت کی حفاظت کہاں تک کر پائے؟
آج ہمارے حکمرانوں ہمارے پالیسی سازوں کی ذمہ داری ہے کہ کوشش کریں کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں شفاف انتخابات ہوں۔ دنیا بھر کے مبصرین وہاں موجود ہوں اور کشمیری قوم کو مکمل آزادی دی جائے کہ وہ حق رائے دہی استعمال کریں کہ آیا وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اگر انہوں نے پاکستان کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تو یہ ان کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے پر عمل درامد ہونا چاہیے۔ ہاں ہم سے خود تاریخ خود نمٹ لے گی کہ روٹی دال کے چکروں میں اپنے گھر کے ٹوٹنے یا نامکمل رہ جانے کی فکر ہی نہیں کی۔۔۔۔۔
ملی تو روٹی دال بھی ڈھنگ سے نہیں۔
کچی روٹی پھیکی دال حاکم کے ہاتھ میں کشکول منہ پہ رال۔۔۔۔
تبصرہ کریں