محمد عثمان جامعی
ہم پاکستانیوں کے لیے وقت بدلے نہ بدلے سال ضرور بدل جاتا ہے۔ اکثر ہم وطنوں کے لیے یہ بدلاؤ بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ ایک سال مزید بڑے ہوجاتے ہیں، دُکھی دل کے ساتھ مگر پوری بتیسی نکال کر شادی کی ایک اور سال گرہ مناتے ہیں، پُرانے گرم کپڑوں اور لحافوں کو سردی میں اور برسوں کے سوتی کپڑے گرمی میں سامنے پاتے ہیں، اور پرانی حالت اور حالات میں نیا سال گزارے جاتے ہیں، عام آدمی کے لیے نیا ہوتا بھی ہے تو بس اتنا کہ کسی کے سر میں سفیدی آگئی تو اس کے لیے یہ ’’خضاب کا سال‘‘ قرار پایا اور کسی کی شادی ہوئی تو کئی برس بعد یہ اسے ’’عذاب کا سال‘‘ کے طور پر یاد آئے گا۔ یعنی بجٹ اور حکومت کی طرح سال بھی عام آدمی کے لیے نہیں آتا اور وہ کچھ نیا نہیں پاتا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ نیا ہوا ہی نہ ہو۔ اب اس سال ہی پاکستان میں بہت کچھ نیا ہوا ہے اور یہ برس کئی اعتبار سے منفرد ہے، آئیے دیکھتے ہیں اس برس پاکستان میں کیا کیا نیا اور منفرد ہوا ہے۔
٭بنا نیا پاکستان :
بیس سو اٹھارہ میں نیا پاکستان وجود میں آیا۔ چوں کہ پُرانا پاکستان بنانے کا تجربہ تھا، اس لیے نیا پاکستان بنانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی، بابو بھائی کے بہ قول ’’فَٹ دَھنی‘‘ سے بن گیا۔ یہ اتنی تیزی سے وجود میں آیا ہے کہ قوم کو اب تک نہیں پتا کہ وہ پرانے سے نئے پاکستان میں منتقل ہوچکی ہے۔ چناں چہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں،’’کیا نیاپاکستان بن گیا؟‘‘ جواب ملتا ہے،’’یہاں تو اب تک نہیں بنا، اگلی گلی میں پوچھ لو۔‘‘ خیر جلد سب کو پتا چل جائے گا، کتنا چُھپے گا، کبھی تو سامنے آئے گا۔ برسوں بعد بچے پوچھ رہے ہوں گے،’’ابو ابو، پُرانا پاکستان کیسا تھا؟‘‘ ابو جواب دیں گے، ’’ایسا ہی تھا‘‘ بچے کہیں گے،’’تو نیا کیوں بنایا‘‘، ابو فرمائیں گے’’بس نام بدلا تھا، تاکہ پُرانے پاکستان میں دل لگا رہے۔ ‘‘
٭پَکا اچھوتا پکوان:
اس سال ایک نیا پکوان سامنے آیا۔ یہ پکوان برسوں سے پک رہا تھا، لیکن پکائی مکمل اس برس ہوئی اور دیگ سے ڈھکن ہٹا۔ یہ کئی پکوانوں کا ملغوبہ ہے، جن میں سانجھے کی ہنڈیا، کھچڑی، ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر اور وہ دال شامل ہے جس میں کالا ہوتا ہے۔ یہ ہنڈیا بہت چھپا کے پکائی گئی تھی، مگر عشق اور مشک کی طرح اس کی مہک بھی دور دور تک پھیل گئی۔ آخر ’’کھانا کُھل گیا جے ے ے ے‘‘ کی صدا سنائی دی، پھر سب کو یہ پکوان کھانا پڑا۔ کسی نے سیر ہوکر کھایا اور ڈکاریں ماریں، کسی نے کھاکر منہہ بنایا اور بہت سوں کو ہضم ہی نہ ہوپایا۔ حکیموں کا کہنا ہے کہ اس پکوان میں شیر کا گوشت شامل ہے، جو پوری طرح گََل نہیں سکا، اس لیے یہ بہت مقوی ہوگیا ہے، نظام ہاضمہ کو چین سے نہ رہنے دے گا، اُلٹی ہوگی، جس کے ساتھ اُلٹی ہوں گی سب تدبیریں اور بازی اُلٹ جائے گی۔ کوئی بات نہیں، نئی ڈش پکالیں گے، نئی بازی جمالیں گے۔
٭کُھلنے کا سال:
اس برس بہت کچھ کُھلا، چناں چہ تاریخ میں اسے کُھلنے کا سال قرار دیا جائے گا۔ ان بارہ مہینوں میں گورنرہاؤس کُھلے، ایوانِ صدر کُھلا، کرتارپوربارڈر کُھلا، نوازشریف بند ہوکر کُھلے، آصف زرداری کا منہہ یوں کُھلا کے سب کے منہہ کھلے کے کھلے رہ گئے، اعظم سواتی کی اراضی پر کُھلی بھینس کیا آئی وہ کُھل کر سامنے آگئے، آئی ایم ایف کا دَر کُھلا، اور سب سے بڑھ کر ’’دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا۔‘‘
٭بند ہونے کا سال:
تاریخ میں کُھلنے کی طرح یہ بند ہونے کا سال بھی قرار دیا جائے گا۔ اس برس نوازشریف بند ہوئے، شہبازشریف بند ہوئے، خواجہ برادران بند ہوئے، نوازشریف کی زبان بہت دنوں تک بند رہی، الیکشن کمیشن آف پاکستان کا آرٹی ایس (ریزلٹس ٹرامیشن سسٹم) یوں بند ہوا کہ سب کی زبانیں کُھل گئیں، کراچی میں سی این جی اسٹیشن بند ہوئے، بجلی باربار بند ہوئی، عمران خان پہلے دلہا پھر وزیراعظم کی شیروانی میں بند ہوئے۔
٭نیا فلسفہ:
خدا کا شکر کہ ہمیں ایک فلسفی حکم راں میسر آیا، جس نے اب تک کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو ایک نیا فلسفہ ضرور دے دیا، وہ بھی قیادت کے بارے میں۔ اب تک تو ہم سمجھتے تھے کہ:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِکارواں کے لیے
یا
’’ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضروموجود سے بے زار کرے
لیکن اب پتا چلا کہ لیڈر تو وہ ہوتا ہے جو یوٹرن پر لیے جائے، اور جو ایسا نہ کرے وہ لیڈر ہی نہیں۔ اس تعریف کے مطابق بس ڈرائیور اچھے راہ نما قرار پاتے ہیں، جو سواریاں کم ہونے پر راستے ہی سے یوٹرن لے کر مُڑ جاتے ہیں۔
اگر علامہ اقبال آج ہوتے تو اپنے شعر میں تغیر کرکے کہتے:
ہدف بلند، سخن زوردار اور یوٹرن
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لیے
مزید فرماتے:
تو راستے ہی سے یوٹرن لے کے مُڑ مومن
نہ تو زمین کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
مرزاغالب کہتے:
وہ تو یوٹرن لے کے مُڑ گیا ہے
اب کسے راہ نما کرے کوئی
اس فلسفے کے موجد جناب عمران خان کو فسلفی ہی نہیں سائنس داں بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ پہلے انھوں نے یہ فلسفہ عمل کی تجربہ گاہ میں خوب آزمایا اور جب رنگ چوکھا آیا تو پیش کردیا۔
٭نئے مولانا فضل الرحمٰن:
جس طرح کسی دیہاتی کو لوٹنے ہی کے لیے میلہ لگایا گیا تھا، اسی طرح لگتا ہے کہ بیس سو اٹھارہ کے انتخابات کا مقصد محض مولانا کا خون کھولانا تھا۔ اگرچہ وہ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں اس سے بھی تعاون عندیہ دے چکے تھے، مگر انھیں موقع ہی نہیں دیا گیا، ان کی امیدوں کا دیا پھونک مار کر بجھادیا گیا، ارمانوں پر ڈیزل چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ اب وہ نہ اسمبلی میں ہیں نہ حکومت میں، ورنہ اس سے پہلے ان کا فضل ہر اسمبلی اور حکومت کو میسر آتا تھا، لیکن اس مرتبہ انھیں فاضل جانا گیا۔ اس تبدیلی نے ان میں سے ایک نیانویلا فضل الرحمٰن برآمد کیا ہے، پُرانے مولانا جمہوریت کے لیے آئین کے تناظر میں، کچھ بھی ہوجائے اسمبلی اور حکومت سے ایک قدم بھی باہر رکھنے کو تیار نہ ہوتے تھے، لیکن نئے نویلے مولانا نے چناؤ کے فوری بعد جیتنے والوں کو اسمبلیوں میں جانے سے روکنے کے لیے سارے جتن کرلیے بس ’’اسمبلی کی طرف مت جانا، وہاں بھؤ ہے‘‘ کہہ کر ڈرانے اور ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم‘‘ گانے کی کسر رہ گئی تھی۔
٭نئی ایم کیوایم:
ایک زمانے تک کراچی میں بھائی ایم کیوایم کا راج رہا، پھر بھائی کے تاریخی بھاشن کے بعد ان کو ٹاٹا بائے بائے کرکے ڈاکٹرفاروق ستار کی زیرِقیادت پیش ہوئی ڈرامائی ایم کیوایم، پھر یوں سرپھٹول ہوئی کہ یہ جماعت کئی ایم کیوایم میں بٹ گئی، اس سال انتخابات ہوئے تو کئی علاقوں سے گئی ایم کیوایم، اس ساری صورت حال میں جس نے جنم لیا ہے وہ ہے نئی ایم کیوایم۔ یہ والی ایم کیوایم ’’قدم قدم تشدد‘‘ پر نہیں عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے، پُرانی ایم کیوایم سے نظم وضبط کی خلاف ورزی پر کارکن نکالے جاتے تھے، یہ نظم قیادت ضبط کرکے اپنے سربراہ کو فارغ کردیتا ہے، وہ والی ہر الیکشن میں زیادہ ووٹ لے کر پچھلے کا ریکارڈ توڑ دیتی تھی، چاہے اس کے لیے بیلٹ باکس توڑنا پڑے یا کسی کی ہڈیاں، یہ والی اپنے پورے پورے حلقے بھی چھوڑ دیتی ہے۔ یہ نئی ضرور ہے مگر اتنی بھی نئی نہیں کہ حکومت میں شامل نہ ہو، بھئی نُدرت اپنی جگہ، روایت اپنی جگہ۔
٭گِرنے کا سال:
گراوٹ بھی اس سال کی ایک اہم خصوصیت رہی۔ سب سے زیادہ گراوٹ کا مظاہرہ روپے نے کیا۔ یہ گِرا، بہت ہی گِرا اور اچانک گِرا۔ وزیراعظم کو بہ قول ان کے روپیہ گِرنے کی خبر میڈیا سے ہوئی۔ یقیناً انھوں نے فوراً اپنی کابینہ کے ارکان سے کہا ہوگا،’’جاکر دیکھو کتنا روپیہ گِرا ہے اور کہاں گِرا ہے۔ فوراً اُٹھا کر قومی خزانے میں جمع کرادو۔‘‘ وہ سمجھے ہوں گے کہ یہ ’’جھمکا گِرا رے بریلی کے بازار میں‘‘ جیسا کوئی معاملہ ہے، خیر انھیں پتا چل گیا کہ جھمکا نہیں روپیہ گرا ہے اور بریلی نہیں کرنسی کے بازار میں، جس پر انھوں نے قوم کے تسلی دی کہ گھبرانا نہیں ہے، مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہیں۔ بلوچستان میں ن لیگ اور اتحادیوں کی حکومت گرا دی گئی، پھر گرائی گئی حکومت میں شامل وہ ارکان جو زیادہ ہی گِر گئے تھے انھیں اٹھاکر نئی صوبائی حکومت بٹھادی گئی۔ انتخابات کے دنوں میں بعض راہ نماؤں اور امیدواروں نے اپنی تقریروں میں دل بھر کے گِری ہوئی زبان استعمال کی، یہ زبان سُن کر لگتا تھا کہ فقط گرِی ہوئی ہی نہیں ہے بلکہ کسی گٹر، کوڑے کے ڈھیر یا گندے نالے میں گری تھی، جسے یہ مقررین اٹھاکر لائے اور دھوئے بغیر ہی استعمال کرڈالا، اب اگر زبان دُھل جاتی تو مخالفین کو کیسے دھوتے؟ گنگا اور جمنا میں دُھلی زبان تو آپ نے سُنی ہوگی، اس سال کی انتخابی زبان جوہڑ اور نالی میں دُھلی ہوئی تھی۔
٭جانور چھائے رہے:
چین میں ہر سال کسی نہ کسی جانور سے منسوب ہوتا ہے، ہمارا یہ سال کئی جانوروں سے منسوب ہوا، جن میں سرفہرست بھینس ہے۔ کہتے ہیں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ اب یہ لاٹھی والے پر ہے کہ وہ بھینسوں کو ایوان وزیراعظم میں شرفِ رہائش بخشے یا انھیں ہنکاکر بیچ ڈالے۔ لاٹھی والے ہاتھ کی تبدیلی کے ساتھ بھینسوں کی قسمت بھی بدل گئی اور انھیں ایوان وزیراعظم سے دیس نکالا مل گیا، وہ بے چاریاں پی ایم ہاؤس کا چارا چُھٹنے پر کہیں چارہ جوئی بھی نہ کرسکیں اور ’’ہم تو ہیں تورے کھونٹے کی بھینسیں ہانکو جدھر ہنک جائیں رے سکھی بابل مورے‘‘ گاتی رخصت ہوگئیں۔ انھیں نیلامی میں خریدنے والے نے نوازشریف کو بہ طور تحفہ پیش کردیا، گویا ’’آملے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک۔‘‘یوں ایوان وزیراعظم سے باہر کردیے جانے والے سابق وزیراعظم اور بھینسیں پھر یک جا ہوگئیں۔
شاید ان ہی بھینسوں سے ’’بہناپے‘‘ کے سبب ان کی ایک بھینس بہن انتقاماً اعظم سواتی صاحب کی اراضی میں جاگھسی، نتیجتاً اعظم سواتی، جو پہلے آئی جی اسلام آباد کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں تھے وزارت چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ وزیراعظم عمران خان نے مرغی اور انڈوں سے غربت دور کرنے کا فارمولا پیش کرکے مُرغی کو سب کی توجہ کا مرکز بنادیا، ورنہ اس سے پہلے تو گھر کی مُرغی دال برابر والا معاملہ تھے۔ حکومت کے مخالفین نے کہا۔۔۔۔منحصر ’’مرغی‘‘ پہ ہو جس کی اُمید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے، اور حامیوں نے مرغی میں معاشی امکانات کی ایک دنیا تلاش کرتے ہوئے ارشاد کیا۔۔۔۔یہی نشاں ہے زمانے میں زندہ قوموں کا۔۔۔کہ اُن کی مرُغیاں دیتی ہیں رات دن انڈے۔ نیلامی بھینسوں، اعظمی بھینس اور معیشت افروز مُرغی کے علاوہ ٹی وی چینلوں پر تبصرے اور تجزیے کرتے رٹو طوطوں اورہر شاخ پر بیٹھے اُلوؤں نے بھی اس سال ممتاز رہتے ہوئے یہ برس اپنے نام کیا۔
٭سوالی سال:
یہ برس مانگنے کے معاملے میں ہر بیتے سال سے بازی لے گیا، ’’مانگ میری بھر دو‘‘ کو چھوڑ کر ہر طرح کی مانگ کی گئی۔ عوام سے ووٹ مانگے گئے، ڈیموں کے لیے چندہ مانگا گیا، دوسرے ممالک سے امداد مانگی گئی، آئی ایم ایف سے قرضہ مانگا گیا، عدالتوں میں وکلائے صفائی مہلت مانگتے رہے، منصف مدعی سے ثبوت مانگتے رہے، حکم رانوں کے بہ قول بعض لوگ این آر او مانگتے رہے۔۔۔۔خود حکم راں حکومت پر تنقید کے لیے میڈیا سے چھوٹ اور تاریخ پر تاریخ مانگتے رہے ۔۔۔۔اور غریب عوام حالات سُدھرنے کی دعا، اﷲ کی پناہ اور ایک دوسرے سے مہینے کی آخری تاریخوں میں اُدھار مانگتے رہے۔ اس طرح بیس سو اٹھارہ سال نہیں ’’سوالی‘‘ بن کے گزرا ہے۔