برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں موہن داس کرم چند گاندھی کی جگہ نریندر مودی ہوتے تو بٹوارہ انیس سو چالیس ہی میں ہوجاتا بلکہ اس سے بھی پہلے۔
برصغیر کے بٹوارے کی پوری شدومد سے حمایت کرکے وہ اپنی سربراہی میں ایک ایسا ہندوستان قائم کرتے جہاں کوئی مسلمان ہوتا نہ ہی سکھ اور نہ ہی کوئی عیسائی۔ بس! ہر طرف نریندر مودی ہی نریندر مودی ہوتے۔
ان دنوں نریندر مودی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ثابت کر رہے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 85سال پہلے جو کچھ کہا تھا، 100فیصد درست کہا تھا۔ اور نریندر مودی کے آباؤ اجداد بشمول نتھو رام گوڈسے( موہن داس کرم چند گاندھی کا قاتل)، جو کچھ کہہ رہے تھے، 100فیصد غلط کہہ رہے تھے۔
جب تحریک پاکستان چل رہی تھی، برطانیہ کے افسانہ نگار صحافی بیورلی نکلس نے قائداعظم سے انٹرویو کیا اور اسے اپنی کتاب “Verdict on India” میں Dialogue With a Giant کے عنوان سے شامل کیا۔
انٹرویو میں صحافی اس بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مسلمان کیوں ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہنا چاہتے؟ قائد اعظم نے انھیں کچھ یوں سمجھانے کی کوشش کی:
’جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں تو میں زندگی اور زندگی کی ہر اہم چیز کے حوالے سے سوچ رہا ہوتا ہوں۔ میں اپنی تاریخ، اپنے ہیروز، اپنے آرٹ، اپنے فنِ تعمیر، اپنی موسیقی، اپنے قانون کے معنوں میں سوچ رہا ہوتا ہوں۔ ان تمام معاملات میں ہمارا اندازِ نظر ہندوؤں سے نہ صرف بنیادی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات انتہائی متصادم ہے۔ ہم دو الگ الگ ہستیاں ہیں۔ ہم سراسر جداگانہ وجود ہیں۔ ہماری زندگیوں میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیں باہم مربوط کرتی ہو۔ ہمارے نام، ہمارے لباس، ہماری خوراک…ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ہماری اقتصادی زندگی، ہمارے تعلیمی نظریات، خواتین سے ہمارا برتاؤ، جانوروں سے ہمارا سلوک… ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں‘۔
’صرف ایک سوال پر غور فرمالیں۔ گائے کا ابدی سوال۔ ہم گائے کھاتے ہیں اور ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اسی شہر میں صرف چند روز قبل گائے کا یہی مسئلہ انتظامیہ کا بہت بڑا دردِ سر ہو کر رہ گیا تھا۔ ہندوؤں نے صرف اس بات پر زبردست احتجاجی جلوس نکالا تھا کہ شہر میں گائیں ذبح کی جا رہی ہیں۔ گائے کا یہ مسئلہ اس طرح کے ہزاروں مسائل میں سے ایک ہے‘۔
اسی انداز میں دیگر کئی مواقع پر قائد اعظم نے ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہندوؤں کو بالادستی ہو، مسلمانوں کے لیے موجود خطرات کو واضح کیا۔ قائد اعظم اور ان کے ساتھی باقاعدہ ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا تجربہ کرچکے تھے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس میں رہ چکے تھے۔ اس دوران ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ کیا طرزعمل رہا، اس کے مفصل تذکرے تاریخی کتب میں موجود ہیں۔ قائداعظم ایک ہی نتیجے پر پہنچے کہ دونوں اقوام ایک ساتھ زندگی بسر نہیں کرسکتیں۔
دوسری طرف موہن داس کرم چند گاندھی ہوں یا جواہر لال نہرو یا پھر سردار پٹیل، وہ سب ایک ایسا برصغیر چاہتے تھے جہاں سے انگریز رخصت ہوجائیں، اور ان کی جگہ ہندوؤں کی بالادستی قائم ہو اور مسلمان، سکھ، عیسائی سب کے سب مغلوب اور مقہور اقوام کے طور پر زندگی بسر کریں۔ 1947 سے اب تک بھارت میں ہندوؤں نے اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، اس کی خونچکاں داستانیں آئے روز سننے کو ملتی رہتی ہیں۔
تقسیم برصغیر کے معاملات سرانجام پا رہے تھے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریاستوں کے الحاق کی بابت رہنما اصولوں کی جو دستاویزات تیار کیں، ان میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ریاستی آبادی میں اکثریت کس کی ہوگی، یہ دیکھا جائے گا اور بالخصوص ان کی مرضی کو دیکھا جائے گا۔ دوسرا اصول، ریاست کا جغرافیائی محل وقوع دیکھا جائے گا، تیسرا یہ کہ اگر ریاست کی سرحدیں دونوں ملکوں سے ملتی ہوں تو ایسی صورت میں ریاست کس ملک کی فطری جغرافیائی اکائی بنتی ہے، اسے پیش نظر رکھا جائے گا۔ طے پایا تھا کہ کسی ریاستی حکمران کو کوئی حق نہیں کہ وہ محض اپنی مرضی سے ریاست کی قسمت کا فیصلہ کرے۔
تاہم ریاست حیدرآباد کو جس انداز میں بھارت نے اپے ساتھ ملایا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات لرزہ خیز ہیں۔ ریاست حیدرآباد کو اپنے ساتھ ملانے کی خاطر بھارت نے ڈھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس کے بعد بھی بھارت کی تاریخ مسلم کش فسادات سے بھری پڑی ہے۔ 1964 میں کلکتہ، 1969 میں گجرات، 1970 میں بھیونڈی، 1980 میں مراد آباد، 1983 میں نیلی( آسام)، 1985 میں گجرات، 1987 میں ہاشم پورہ، 1989 میں بھاگلپور،1992 میں بمبئی، 1993 میں منی پور، 2002 میں گجرات، 2006میں مالیگاؤں، 2013 میں مظفرنگر، 2014 میں آسام اور2020 میں دہلی میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مسلمان اور عیسائی گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔ کوئی ذرا ہمت جمع کرکے اس باب کا مطالعہ تو کرے۔
اس کے مقابل کوئی برصغیر پر مسلمانوں کی 800 سالہ حکومت کو دیکھ لے، اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں کا بال بھی بیکا ہوا؟ کوئی 1947 سے اب تک پاکستان میں اقلیتوں کا احوال ہی دیکھ لے۔ سندھ، بلوچستان کے جن علاقوں میں ہندو نسبتاً بڑی تعداد میں موجود ہیں، کوئی ان سے پوچھ لے کہ مسلمان ان سے کس قدر حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوؤں کو نریندر مودی ملے ہوتے تو آج مودی کو ایک نیا جنم نہ لینا پڑتا، پھر ریاست جموں و کشمیر سے ریاست منی پور تک، ہندو آبادی کی اکثریت قائم کرنے کے لیے شبانہ روز محنت نہ کرنا پڑتی، ملک کی مختلف ریاستوں میں یہ نعرے لگانے نہ پڑتے کہ’ جب مسلمان کاٹے جائیں گے، ہم رام رام چلائیں گے۔‘
آج 5اگست ہے، پانچ برس قبل بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ وہ حیثیت، جس کے ہوتے ہوئے کشمیریوں کو امید تھی کہ وہ کبھی اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔ اگرچہ ’خصوصی حیثیت‘ ایک لالی پاپ ہی تھا، گزشتہ پون صدی میں بار بار ثابت ہوا کہ یہ لالی پاپ ہی تھا۔ کشمیری قوم کو یہ لالی پاپ چوستے ہوئے ابتدا میں اپنی حیثیت خود مختارانہ سی لگی لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ نشہ ہرن ہوتا چلا گیا جب بار بار بھارتی فوج کشمیریوں کا قتل عام کرتی رہی، ریاست میں ان کی اکثریت کو کم سے کم تر کرتے چلی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی شرح 70فیصد رہ گئی ہے۔
بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کے شہریوں کو دفعہ 370 کے عنوان سے جو خودمختاری کا جھانسہ دیاتھا، اس کی حقیقت اسی روز کھل گئی تھی جب شیخ عبداللہ کو اٹھا کر جیل میں پھینک دیا گیا تھا، اب گورنر کے براہ راست تقرر کا اعلان کرکے ریاست کی خودمختاری کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔ اس کے باوجود کچھ کشمیری اسی نشہ میں مدہوش رہے کہ وہ خودمختار ہیں۔
2019 میں بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر اپنے قبضہ کو حتمی شکل دینے کے لیے دفعہ 370 بھی ختم کردی، یوں ریاست جموں وکشمیر کو اپنے قبضے میں لینے کا جو کام جواہرلال نہرو نے شروع کیاتھا، اسے مکمل کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم مودی پھول کے کپا ہوئے اور گردن اکڑاتے ہوئے پائے گئے کہ انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو ان سے پہلی حکومتیں 70سال میں بھی نہ کر سکیں۔
اب ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت کسی بھی بھارتی ریاست جیسی ہی ہے، وہاں کشمیریوں کی اکثریت کو 50فیصد یا اس سے کم ہونے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ یہی معاملہ ریاست منی پور کا بھی ہے۔ وہاں بھی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندو قبائل کو زمین خریدنے کا حق دیا جارہا ہے جیسا کہ ریاست جموں و کشمیر میں دیا جارہا ہے، منی پور کے ہندو قبائل کو سرکاری اسلحہ تھما کر عیسائی قبائل کی نسل کشی کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ وہ عیسائیوں کے گلے کاٹتے جارہے ہیں اور رام، رام چلاتے جا رہے ہیں۔
اسی طرح بھارت کی باقی تمام ریاستوں میں بھی ’جب مسلمان کاٹے جائیں گے، ہم رام رام چلائیں گے‘ کے نعرے گونج رہے ہیں، انتہا پسند ہندو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ایک، دو دن میں گھر خالی کرنے کا الٹی میٹم دے رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا، اس کے ذمہ دار مسلمان خود ہوں گے۔
یہ اب ماضی کا قصہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں موہن داس کرم چند گاندھی کی جگہ نریندر مودی ہوتے تو بٹوارہ 1940 میں یا اس سے پہلے ہی ہوجاتا۔ آج کا قصہ یہ ہے کہ نریندر مودی مزید 2، 4برس یونہی خون کی ہولیاں کھیلتے رہے تو بھارت کا کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جس پر بھارتی قوم غوروفکر نہیں کر رہی۔
بادبان۔ عبید اللہ عابد
2 پر “موہن داس کرم چند گاندھی کی جگہ نریندر مودی ہوتے تو؟” جوابات
بہت عمدہ تحریر ۔۔۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ کی بصیرت کو سلام ۔۔۔۔۔۔ کشمیر، منی پور کے لیے لمحہ فکریہ ہے ہی۔۔۔۔ لیکن ایک روز اس ملک سے مزید ملک بنیں گے۔۔۔۔۔اج ہندوستان کا پڑھا لکھا طبقہ بھی انتہا پسندی کا شکار ہے
جناح کی سونچ غلط تھی ورنہ آج ہندوستان پر مسلمانو کی حکومت رہتی تھی