رپورٹ: سارہ خان
اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ اہتمام ہفتہ وار “چائے، باتیں اور کتابیں” کے سلسلے کی 25ویں نشست بدھ 26 جون 2024ء کو منعقد ہوئی جس میں اکادمی کی نو مطبوعہ کتاب ’’دریائے ہولن کی کہانیاں‘‘ پر خصوصی گفتگو ہوئی۔
’دریائے ہولن‘ چینی مصنفہ شیائو ہونگ کا ناول ہے۔ معروف شاعر اور مترجم’ انعام ندیم‘ نے اکادمی کے تحت اس ناول کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
تقریب کی نظامت اکادمی کے نائب ناظم محمدعاصم بٹ نے کی۔ صدر نشین ڈاکٹر نجیبہ عارف نے افتتاحی کلمات میں بتایا کہ پاکستان اور چین کے مابین ایک معاہدے کے تحت سال میں 10 کتابیں شائع ہونی ہوتی ہیں۔ پانچ کتب چینی سے اردو زبان میں پاکستان شائع کرتا ہے اور پانچ کتابیں اردو سے چینی زبان میں چین شائع کرتا ہے۔
’دریائے ہولن کی کہانیاں‘ اس سلسلے کی تیسری کتاب ہے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بطور مترجم انعام ندیم کی خدمات کو دادِ تحسین پیش کی۔
انعام ندیم نےکہا ’یہ ناول سادہ زبان میں لکھا گیا ہے اور میں نے اسی سادہ اسلوب میں ہی اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے‘۔ انھوں نے کہا ترجمہ کے لیے ضروری ہے کہ دونوں زبانوں سے مکمل واقفیت ہو اور خصوصاً اس زبان پر مکمل گرفت ہونی چاہیے جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے۔
انعام ندیم نے کہا کہ ہر صورت میں مترجم کو متن سے انصاف کرنا چاہیے اور اس میں سے کوئی چیز حذف نہیں کرنی چاہیے۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ترجمہ میں لفظی اور بامحاورہ ترجمہ متن کے حساب سے کیا جاتا ہے جس میں متن کا اصل مفہوم اہمیت رکھتا ہے۔ انعام ندیم نے ناول میں سے چند اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے۔
تقریب میں کتاب پر گفتگو کرنے والوں میں ارشد وحید، محمد عاصم بٹ، عفت نوید، شاہدہ سعید، امینہ بی بی اور عامر رضا شامل تھے۔ اقبال حسین افکار، سارہ خان، شفاعت اعجاز، ریشم اعجاز، عرفہ اعجاز اور حمزہ شیخ بھی تقریب میں شریک تھے۔ تقریب کے آخر میں صدر نشین اکادمی ابدیات ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کتاب ’دریائے ہولن کی کہانیاں‘ کے مترجم انعام ندیم، ارشد وحید اور تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔
2 پر “دریائے ہولن کی کہانیاں” جوابات
ماشاء اللّہ بہترین رپورٹ ہے بادبان کے انتظامیہ کا شکریہ ، قابل ستائش کاؤش ہے
عمدہ کاوش۔۔۔۔ مترجم کی خوبیاں، خوب بیان ہوئیں۔۔۔