منصور خان/ چارسدہ
ویسے تو میں جب کبھی کسی جنگ یا فوجی آپریشن کے بارے میں سنتا ہوں تو مجھے معروف فلسطینی شاعر ادیب اور مصنف محمود درویش کی یہ بات یاد آ جاتی ہے ’جنگ ختم ہو جائے گی اور لیڈر مصافحہ کریں گے، اور وہ بوڑھی عورت اپنے شہید بیٹے کی منتظر رہے گی، اور وہ لڑکی اپنے پیارے شوہر کا انتظار کرے گی، اور بچے اپنے بہادر باپ کا انتظار کریں گے، مجھے نہیں معلوم کہ کس نے وطن کو بیچا؟ لیکن مجھے معلوم ہے کہ قیمت کس نے ادا کی ہے۔‘
اگر حال ہی میں حماس اسرائیل جنگ کا مطالعہ کیا جائے تو 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 23 ہزار سے زیادہ عام لوگ مارے گئے ہیں اور اس طرح 70 ہزار کے قریب لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ بندوق نے ہمیشہ امن نہیں بلکہ تباہی کو فروغ دیا ہے ۔
کچھ دن پہلے سوات میں ایک سیاح کو قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں مار دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے ایک سری لنکن شخص بھی قتل ہوا تھا۔
پاکستان میں اس وقت مذہبی انتہا پسندی، شدت پسندی اور دہشتگردی عروج پر ہے۔ خصوصی طور پر خیبر پختونخوا اس کا گھر ہے ۔
خیر آج ہم بات کر رہے ہیں ’آپریشن عزم استحکام‘ کے بارے میں، جس کی منظوری ایپکس کمیٹی بھی دی چکی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کے فوجی آپریشنز نئی بات نہیں بلکہ اس سے پہلے راہ نجات، صراط مستقیم، راہ حق، خیبر، ضرب عضب اور ردالفساد کے نام سے مختلف فوجی آپریشن ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ ان آپریشن کی وجہ سے دہشتگردی، انتہا پسندی اور شدت پسندی کیوں ختم نہیں ہوئی بلکہ بہت سے لوگ تو بغاوت پر اتر آئے اور اس طرح ہزاروں کی تعداد میں خاندان دوسری جگہ کوچ کر گئے اور مسافر بن گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی کی فوجی آپریشن کچھ خاص کامیاب نہیں ہوئے ۔
پھر جب عمران خان وزیراعظم بنے تو انھوں نے فوجی آپریشن کے بجائے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا اور کہا کہ مختلف تنظیموں کو مذاکرات کے ذریعے آمادہ کریں گے کہ وہ دہشتگردی کی بجائے امن و آشتی کا راستہ اپنائیں، اس طرح ہزاروں افراد کو معاف کیا گیا لیکن انجام آج آپ خود دیکھ لیں کہ یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا اور خیبر پختونخوا آج ایک بار پھر دہشت گردی کے نشانہ پر ہے۔
اب جب کہ فوجی آپریشن اور افہام وتفہیم سے بھی خیبرپختونخوا اور پاکستان میں امن نہ آیا تو شاعر اقبال مہمند صاحب کا شعر مجھے یاد آیا کہ
زما قاتل په رڼا ورځ لکه پيري غائب شی
ماته دا قام په واکدارانو کښې څه چل ښکاری
ترجمہ: مطلب اگر فوجی آپریشنوں اور دہشتگردوں سے صلح کے باوجود بھی دہشتگردی، انتہاپسندی اور شدت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوا اور پھر بھی میرا قاتل دن دیہاڑے غائب ہو جاتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ‘
ویسے شہاب جعفری صاحب کا وہ شعر بھی تو آپ نے سنا ہوگا
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، مجھے یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے
مختصراً یہ کہ ’عزم استحکام‘ آپریشن کسی طرح بھی طرح مجھے نہیں لگتا کہ اس سے معاشرے میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کو ختم کیا جاسکتا ہے البتہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے پختونخوا کے عوام مزید ریاست سے بد ظن نہ ہو جائے۔
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو سیاسی اور ذاتی مفادات سے ہٹ کر اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ شاید اس طرح سے حالات کچھ بہتری کی جانب گامزن ہو جائیں۔
3 پر “’عزم استحکام‘ آپریشن، کیا شدت پسندی کو ختم کرسکے گا؟” جوابات
مختصر تحریر ۔۔۔ ۔۔ حل ندارد۔۔۔۔ حل صرف یہی ہے کہ دورس پالیسی بنائی جایے۔۔ لوگوں کو روز گار دیا جائے۔۔ ان کی فرسٹریشن دور کی جایے۔
قوانین کے مطابق سخت سزادی جائے۔۔ تاکہ لوگوں کا نظام عدل پہ اعتماد بحال ہو ۔۔ وہ خود فیصلے نہ کریں۔۔۔
بہت زبردست ماشا ٕ اللہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
پاکستان میں فکری(میں مذہبی کے بجائے یہ اصطلاح استعمال کرتی ہوں) انتہا پسندی اور آپریشن عزم استحکام آپ کا موضوع ہے۔ میرے خیال میں آپ نے آغاز میں ایک پیراگراف کے اندر جو بات کی ، اسے اس مضمون سے بہت زیادہ نسبت نہیں تھی۔ اس کے لیے الگ تجزیاتی تحقیقی اور تاریخی حوالہ جات کے ساتھ ایک کالم تحریر کرنا بنتا ہے۔ ۔۔۔۔
اور آپ کے موضوع کا حق تو یہ بھی تھا کہ پاکستان میں فکری انتہا پسندی کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاجاتا۔ حل پیش کیاجاتا