’دن کو بہت گرمی ہوتی ہے، خشکی ہوتی ہے اور ہم کمزور پڑ جاتے ہیں اس لیے کام نہیں کر پاتے ہیں۔‘
یہ ہیں حق نواز جو پاکستان کے گرم ترین شہر جیکب آباد میں چلچلاتی دھوپ اور جھلسا دینے والی گرمی سے بچنے کے لیے دیگر بھٹہ مزدروں کے ساتھ سورج کی پہلی کرن پھوٹنے سے قبل ہی اینٹیں بنانے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔
جیسے جیسے سورج چڑھتا ہے ان کا مقابلہ وقت اور سورج سے ہوتا جاتا ہے۔ وقت کا کانٹا آگے بڑھنے سے ان مزدوروں کے لیے محنت مزدوری کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ شمالی سندھ کے شہر جیکب آباد میں آٹھ سے زیادہ اینٹوں کے بھٹے ہیں جہاں 500 سے زیادہ مزدور کام کرتے ہیں۔
جیکب آباد کا شمار پاکستان کے گرم ترین شہروں میں ہوتا ہے جہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسے میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدور ہوں یا کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، ہر کسی کے لیے بھی اتنی شدید تپش اور آگ برساتے سورج کے نیچے کام کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
پاکستان اقتصادی سروے 2024 کے مطابق پاکستان میں درجہ حرارت عالمی درجہ حرارت سے بھی زیادہ بڑھنے کا امکان ہے۔ یہاں سنہ 2060 تک کم از کم 1.4 سیٹی گریڈ سے 3.7 سینٹی گریڈ اضافے کا امکان ہے۔
ملک کے اس گرم ترین شہر میں لوگ موسم گرما کی شدت سے بچنے کے لیے اپنے معمولات زندگی کیسے گزارتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے اس شہر کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہاں کا عام شخص دھوپ، تپش اور جھلسا دینے والی لو کے درمیان اپنی زندگی کیسے جی رہا ہے اور اسے کن کن مشکلات کا سامنا ہے۔
گرمی کے باعث آدھی دیہاڑی
جب ہم نے حق نواز سے اس گرمی کے باعث ان کے کام پر پڑنے والے اثرات کے متعلق بات کی تو انھوں نے بتایا کہ شہر میں موجود تقریباً آٹھ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے تمام مزدوروں کو یہ موسم دہرا اثر ڈالتا ہے۔
ایک جہاں کام کے دوران گرمی، تپش اور پیاس کے باعث وہ نڈھال ہو جاتے ہیں اور ان میں مزید کام کرنے کی سکت نہیں رہتی، وہیں گرمی سے بچنے کے لیے ان کی دیہاڑی آدھی ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے ان کی آمدن بھی کم ہوتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ بھٹہ مزدور یہاں صبح چار بجے سے لے کر صبح آٹھ سے نو بجے تک کام کرتے ہیں۔ اس دوران ایک مزدور 500 سے 600 اینٹیں بناتا ہے جس کا معاوضہ اس کو پانچ سو روپے تک ملتا ہے جبکہ سردیوں میں فی مزدور 900 سے 1000 تک اینٹیں بنا لیتا ہے جس کی وجہ سے معاوضہ دگنا ہو جاتا ہے۔‘
حق نواز چکنی مٹی کے ڈھیر سے مٹی لے کر سانچے میں ڈالتے اور اس کو اینٹوں کی شکل میں ڈھالنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ یہ کام بہت مہارت اور پھرتی سے کر رہے تھے۔
حق نواز نے بتایا کہ گرمی سے بچنے کے لیے فجر کے وقت سے وہ کام کا آغاز دن میں ٹھنڈک کی وجہ سے کرتے ہیں کیونکہ دوپہر کو شدید گرمی ہوتی ہے اس میں وہ کام نہیں کر پاتے، اس لیے صبح چار بجے بھٹے پر آجاتے ہیں اور صبح نو بجے تک کام کرتے ہیں۔
’کچی اینٹیں ایک ڈھیر پر لگائی جاتی ہیں جہاں نیچے سے سلگتی آگ انھیں پکاتی ہے۔ یہاں صبح سویرے ہی تپش محسوس ہوتی ہے اور اسی بھٹی پر کھڑے ہو کر مزدور کام کرتے ہیں۔‘
حق نواز سمجھتے ہیں کہ موسم سرما اچھا ہے کیونکہ اس میں انھیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی، گرمی تکلیف پہنچاتی ہے اور کام کے لیے بھی صرف چند گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں جس سے ان کی دیہاڑی متاثر ہوتی ہے اور اس کے اثرات ان کے معاشی حالات پر بھی پڑ رہے ہیں۔
بچوں کو بار بار نہلانا
جیکب آباد میں بھٹہ مزدوری کے علاوہ لوگوں کا وسیلہ روزگار زیادہ تر زراعت سے وابستہ ہے۔ یہاں گندم اور چاول کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔
جیکب آباد کے ایک نواحی گوٹھ آڑیکاپ کی خواتین صبح سویرے زمینوں میں کام کاج کر کے گھروں کو لوٹ آتی ہیں کیونکہ ان کا باقی وقت بچوں کو گرمی سے بچانے میں گزر جاتا ہے۔
موسم سرما کے دوران کھیتوں سے واپس آنے کے بعد یہ خواتین اپنے گھروں میں سلائی کڑھائی اور کشیدہ کاری کا کام کر لیتی ہیں لیکن موسم گرما میں ان کی توجہ اپنے بچوں کی صحت اور گرمی سے حفاظت پر مرکوز رہتی ہے۔ گرمی کی شدت کے باعث ان کے معمولاتِ زندگی میں تبدیلی آئی ہے۔
کچے مکان کے برآمدے میں بیٹھی ہوئی جنت خاتون نے بتایا کہ ’کھیتوں کے کام کاج سے زیادہ سے زیادہ دس بجے تک واپس آ جاتے ہیں اگر گرمی شدید ہو تو اور بھی جلد آ جاتے ہیں۔ کیونکہ گھر آ کر چھوٹے بچوں کو کھلا پلا کر سلانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’گرمی کی وجہ سے بچے سو نہیں پاتے ہیں اس لیے انھیں بار بار نہلاتے ہیں یا کپڑا گیلا کر کے ان پر ڈالتے ہیں، زیرِ زمین پانی کھارا ہے، اس کے استعمال کی وجہ سے بچے دست اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘
بچوں کے علاوہ بزرگوں کو بھی ہینڈ پمپ کے نیچے بٹھا کر نہلایا جاتا ہے تاکہ ان کا جسم گرمی کا مقابلہ کر سکے۔
گدھے کی مدد سے چلنے والا پنکھا اور چکی
جیکب آباد شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں اکثر لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی فراہمی تعطل کا شکار رہتی ہے اور اس گرمی کے موسم میں بھی عموماً 24 گھنٹوں میں سے 10 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔
یہاں کے صاحب حیثیت افراد نے تو اس کا متبادل سولر سسٹم میں تلاش کر لیا ہے لیکن غریب آبادی نے گرمی کے دوران لوڈشیڈنگ کے مسئلہ سے بچنے کے لیے روایتی اور دیسی طریقے اپنا رکھے ہیں۔
نہال خان لاشاری نامی گاؤں میں ہم نے گدھے کی مدد سے چلنے والا پنکھا اور آٹا پیسنے والی چکی دیکھی۔ اسے زمین میں ایک لکڑی لگا کر اس کے ساتھ دو لکڑیاں بازؤں کی طرح باندھ کر ان پر چادر ڈال دی جاتی ہیں اور جب یہ گدھا گول چکر لگاتا ہے کہ تو یہ چادر ہوا دینے لگتی ہیں۔ مقامی زبان میں اس کو جھلی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں بجلی آنے سے قبل یہ جھلیاں استعمال کی جاتی تھیں۔
ریٹائرڈ ٹیچر شفیع محمد لاشاری نے بتایا کہ دوپہر کو ہاتھ والا پنکھا چلاتے ہیں جبکہ شام کو جھلی چلاتے ہیں، گدھے کو تین کلو چاول یا دانہ کھلاتے ہیں۔ رات بھر یہ جھلی چلاتا ہے جس سے وہ کچھ سکون کی نیند سوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس قدر درجہ حرارت بڑھ جانے کے باعث ہم گرمی کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ پہلے دوپہر 12، ایک بجے تک کام کر لیتے تھے لیکن اب تو سورج صبح سات بجے ہی مکمل آب و تاب سے نکلتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا کوئی کام نہیں ہو پاتا۔ پورا دن ہینڈ پمپ کے قریب پانی میں نہاتے گزرتا ہے۔‘
اسی گاؤں میں لوگوں نے آٹا پیسنے کے لیے بھی گدھے کی مدد سے چلنے والی چکی بنائی ہوئی ہے جسے گدھا گھماتا ہے اور اس میں اناج ڈالا جاتا ہے جس میں خاص طور پر چاول کا آٹا بنتا ہے۔
یہاں کے ایک مقامی شخص محمد مصطفیٰ نے بتایا کہ بجلی کی عدم دستیابی کا ان کے پاس یہ ہی حل ہے۔
’اگر برف استعمال نہ کریں تو بچے بے ہوش ہو جاتے ہیں‘
جیکب آباد میں ہیٹ ویو اور شدید گرمی کی وجہ سے شربت اور برف کا کاروبار بڑھ گیا ہے۔ شہر میں کئی مقامات پر سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے سبیلیں لگائی گئی ہیں جہاں لوگوں کو ٹھنڈا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
محمد دانش عام دنوں میں تین سے چار سو برف کے بلاک فروخت کرتے ہیں جبکہ گرمی میں شدت سے ان کی فروخت مزید بڑھ گئی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جیکب آباد میں بجلی کی فراہمی میں رخنہ کی وجہ سے برف جم نہیں پاتی ہے اس لیے وہ آس پاس کے شہروں سے برف منگواتے ہیں۔ راستے میں یہ پگھل بھی جاتی ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوتی ہے۔
ہر شہری پچاس روپے سے لے کر 300 روپے تک کی برف خریدتا ہے۔ دانش کے پتھارے پر برف لینے کے لیے موجود محمد اسماعیل نے بتایا کہ اتنی گرمی میں برف کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ صبح و شام ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے کی برف لے جاتے ہیں، یہ سلسلہ اگست تک جاری رہے گا۔
عبدالرزاق نامی شہری نے بتایا کہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اے سی اور فریج چل نہیں پاتے، اس لیے وہ باہر سے برف لیتے ہیں۔ برف کا پانی نہ صرف پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ اس سے بچوں کو نہلاتے بھی ہیں اگر برف استعمال نہ کریں تو بچے بیہوش ہوجاتے ہیں۔
برطانوی فوجی جرنیل جان جیکب نے اٹھارہویں صدی کی ابتدا میں اس صحرائی علاقے میں شہر کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے لیے یہاں نہریں بھی کھدائی تھیں۔ امریکی حکومت کی مدد سے یہاں واٹر سپلائی سکیم بھی بنائی گئی لیکن وہ غیر فعال ہوگئی۔ لوگوں کو پانی خرید کر استعمال کرنا پڑتا ہے جو زیر زمین پانی گدھے گاڑی اور چنگچی کے ذریعے گھروں پر پہنچتا ہے۔ فی کنٹینر 30 روپے میں فروخت ہوتا ہے جبکہ پانی کے معیار پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
مغرب کے بعد خریداری کا رجحان
گھر کا سودا سلف لینا ہو، بچوں کے سکول کی کوئی چیز یا کچھ اور شہر کی خواتین شام کو گھر سے نکلتی ہیں۔ پہلے مغرب کے بعد خواتین کا گھر سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن موسمی تبدیلی کی وجہ سے اب خواتین شام سے رات تک خریداری کرتی ہیں۔
دوپہر تین بجے کے قریب جب ہم نے بازار کا دورہ کیا تو عید قربان قریب ہونے کے باوجود وہاں کرفیو کا سماں تھا، بازار تقریباً سنسان تھے اور وہاں ہمیں کوئی خریدار نظر نہیں آئے۔
کاسمیٹکس کی دکان کے مالک محسن علی نے بتایا کہ خواتین مغرب کی نماز کے بعد آتی ہیں جبکہ صبح سے دوپہر تک وہ فارغ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب یہاں درجہ حرارت اتنا نہیں بڑھتا تھا اس وقت لوگ شام کی بجائے صبح سویرے ہی خریداری کے لیے آتے تھے لیکن اب بازار کی اکثر دکانیں دوپہر بارہ بجے یا اس کے بعد کھلتی ہیں اور رات کو بارہ سے ایک بجے تک کھلی رہتی ہیں۔
پرچون کے دکاندار جیش تلسی کہتے ہیں وہ پورا دن خریداروں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ جب گرمی کم ہوتی ہے، اس وقت ہی لوگ گھروں سے نکلتے ہیں ورنہ گھروں تک محدود ہوجاتے ہیں۔
جیکب آباد شہر اور آس پاس میں اکا دکا ہی درخت نظر آتے ہیں، غیرسرکاری تنطیم کمیونٹی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر کام کرتی ہے، کے کارکن جان اوڈھانو نے بتایا کہ انھوں نے مختلف اقسام کے درخت مفت تقسیم کیے تھے ان میں سے چند کی ہی لوگوں نے حفاظت کی جبکہ دیگر سارے سوکھ گئے۔
ان کے بقول لوگوں کو موسمی تغیر اور اس کے آنے والے دنوں میں اثرات کا شعور اور آگاہی نہیں اس لیے انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر اس کے اقدامات نظر نہیں آتے۔
سورج غروب ہونے کے بعد شہر کی سڑکوں اور چائے کے ہوٹلوں پر لوگوں کی آمد شروع ہوجاتی ہے جہاں وہ لوڈو اور تاش کھیلتے ہیں جبکہ اس سے قبل روزانہ شام کو بیلوں کی دوڑ ہوتی ہے جسے دیکھنے اور شرط لگانے کے لیے سینکڑوں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سپورٹس اور تفریح کے دیگر مواقع نظر نہیں آتے۔
( مصنف: ریاض سہیل، بی بی سی)
ایک تبصرہ برائے “پاکستان کا گرم ترین شہر، 52 ڈگری سینٹی گریڈ میں انسان کیسے زندگی گزارتے ہیں؟”
اچھی تحریر ہے ۔۔ جیکب آباد کے لوگوں کی موسم کے سبب اور ہر حکومت وقت کی نااہلی کے سبب مشکلات کا ذکر ہے۔۔۔۔زندہ تو کسی طور رہنا ہے۔۔۔۔