گرمیوں اور موسم بہار میں یوروپ کے ٹھنڈے ملکوں میں سائیکلیں بہت نظر آتی ہیں لیکن سردیوں میں برف باری کی وجہ سے لوگ چاہنے کے باوجود سائیکل نہیں چلا پاتے۔تاہم پینتالیس سالہ لی یانگ سردیوں میں بھی سائیکل چلاتا ہے۔
دوسرے بہت سارے چینی لوگوں کی طرح لی یانگ بھی ٹورانٹو میں انگریزی سیکھنے کی کلاس میں پڑھتا ہے اور کینیڈا کے سرد موسم میں بھی سائیکل چلا کر سکول آتا ہے۔ لی یانگ کے پاس فولڈنگ یعنی بند ہو جانے والی سائیکل ہے جس کو وہ ایک ہاتھ میں اٹھا کر کلاس کے کونے میں رکھ دیتا ہے اور کلاس ختم ہونے پر سکول سے باہر نکل کو اسے کھولتا ہے اور بیس منٹ کے فاصلے پر واقع اپنے گھر کو روانہ ہو جاتا ہے۔
انگریزی کی اس کلاس میں طلبا کو ایسے چھوٹے چھوٹے پیراگرف اور مضامین لکھنے کو دیے جاتے ہیں جو ان کی زندگی سے متعلق ہوں تاکہ وہ کتابی انگریزی کی نسبت روزمرہ زندگی کے حقیقی واقعات کے ذریعے عملی انگریزی کے الفاظ کا استعمال سیکھ سکیں۔ اسی سلسلے کی ایک کلاس میں طلبا کو زندگی کا کوئی یاد گار لمحہ سوچ کر لکھنے کو کہا گیا۔
بنیادی طور پر دو سو لفظوں کے مضمون کا موضوع تھا یاد گار لمحہ۔ لیکن جب لی یانگ نے اپنا طویل مضمون پڑھا تو باوجود گرامر اور زبان کی غلطیوں کے وہ ایک بہترین مضمون تھا۔
لی یانگ لکھتا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے جب میرا بیٹا سات سال کا تھا تو وہ بہت کم گو اور اپنے آپ میں گم رہنے والا بچہ تھا جسے آپ ایک حد تک سست اور کند ذہن بچہ کہہ سکتے ہیں۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر کڑھا کرتا تھا ۔ میری بیوی ایک جگہ ملازمت کے ساتھ فلسفے میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی اور اسے اپنی اسائنمنٹ اور کلاسز کے سلسلے میں دیر تک گھر سے باہر رہنا پڑتا۔
بچے کو میں ہی پال پوس رہا تھا اور اس کی ایک ایک حرکت میرے اور میری بیوی کے الٹ تھی۔ ہم پڑھاکو اور سماجی طور پر بہت متحرک لوگ تھے۔ قصہ مختصر مجھے نہیں پتا تھا کہ میرا ایک چھوٹا سا فیصلہ میرے بیٹے کی زندگی کو بالکل بدل کر رکھ دے گا۔ میں نے اس کے لیے ایک سائیکل خرید لی۔ میں نے دو چار دن اسے کافی پریکٹس کروائی اور وہ سائیکل چلانے میں بہت جلدی بہت طاق ہو گیا۔ سائیکل وہ بہت شوق سے چلاتا اور اس سے لطف اندوز بھی ہوتا۔ ہمیں ایک ہفتے کی چھٹیاں تھیں تو ہم نے سائیکل پر چائنا کی دوسری بڑی جھیل تائی ہو
)taihu lake(
پر جانے کا فیصلہ کیا۔ چھوٹے لڑکے کے ساتھ یہ ایک بڑا فیصلہ تھا لیکن ہم طبعاً ایڈونچر پسند فیملی ہیں اس لیے ہم اکثر اس طرح کے کام کرتے جنہیں کرتے ہوئے بہت سارے لوگ ہچکچا جاتے ہیں۔ ہمیں تائی ہو جھیل پر پہنچنے میں تین دن لگے۔ ہم نے اپنے لڑکے کی وجہ سے رک رک کر آرام آرام سے یہ سفر کیا تھا۔۔۔ وہاں ہم نے جو لطف اٹھایا وہ ناقابل بیان تھا۔ واپس آکر ہم نے کچھ دنوں میں محسوس کیا کہ میرا بیٹا معجزانہ طور پر چست وچالاک ہو گیا ہے اور اس کی روز مرہ کی دلچسپیاں بڑھ گئی ہیں۔ اس کی پڑ ھائی میں توجہ اور کلاس کی سرگرمیوں کی رپورٹ حیران کن حد تک بہتر ہو گئی تھی۔ اس کے بعد سے میرا بیٹا ایک چست وچالاک اور قدرے ذہین لڑکے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
میں نے اس تبدیلی پر بہت غور کیا مجھے صرف ایک ہی وجہ سمجھ آئی کہ سائیکل نے اس کو جسمانی طور پر متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دماغی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد سے سائیکل ہماری ساری فیملی کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔
اس واقعے کا ایک اہم پہلو جو میں نے نوٹ کیا وہ یہ تھا کہ لی یانگ چن اپنے بیٹے کی مثبت تبدیلی بیان کر رہا تھا تو اس کی آواز بار بار بھرائی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آئے یعنی وہ اتنے سالوں بعد بھی اس واقعے کا اثیر تھا اور جذباتی ہو رہا تھا۔ اس سے مجھے اس کے اندر کا بہترین باپ نظر آیا جو اپنے بچوں میں اس قدر دلچسپی لیتا ہے کہ ان کی زندگی کا ہر پہلو اس کی اپنی روح پر سے گزر رہا ہوتا ہے۔ بہت سارے باپ اپنے بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ ان کے لیے بہت کچھ جمع کر کے چھوڑ جائیں۔ وہ کل کے لیے جمع کرنے میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ بچوں کے آج سے نہ خود لطف اندوز ہوتے ہیں اور نہ ان کو اپنی قربت کا احساس دلا پاتے ہیں۔
لیکن یہ طے ہے کہ باپ بچوں کے ليے خدا کا عظیم تحفہ ہے جو بغیر اظہار کیے مشقت کی چکی پیستا رہتا ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے اکثر باپ کا کردار ماں کے مقابلے میں ثانوی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
ہر ذمہ دار باپ بچوں کے لیے ہیرو کا درجہ رکھتا ہے۔