بھارت کے عام انتخابات سے متعلق موٹی سی بات یہ ہے کہ پانچ برس قبل جس بھارتیہ جنتا پارٹی کو 303 سیٹیں ملی تھیں، اسے اب کی بار 240سیٹیں حاصل ہوئیں۔ پانچ سال پہلے جس نیشنل انڈین کانگریس کو صرف 52 نشستیں ملی تھیں، اسے اب 99 نشستیں حاصل ہوئیں۔
پانچ سال پہلے بی جے پی کے سیاسی اتحادیوں کے ہاتھ کچھ خاص نہیں آیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکمران اتحاد میں تن تنہا فیصلے کرتی تھی اور اتحادی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے تھے، لیکن ’اب کی بار، 400 پار‘ کے خواب دیکھنے والے نریندر مودی کو ’اب کی بار، لولی لنگڑی سرکار‘ ہی ملے گی، کیونکہ حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 240 سیٹوں والے مودی ضرورت کی باقی 32 سیٹیں اتحادیوں سے ہی لیں گے اور وزیر اعظم بن سکیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحادی انھیں بیساکھیاں فراہم کردیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
تاریخ میں موہن داس کرم چند گاندھی کی جگہ نریندر مودی ہوتے تو…
”مودی کا مسلمانوں کے خلاف دباؤ ختم ہونا چاہیے“: امریکی مصنف
مودی جی! اپنے بھارت کی تصویر دیکھیے۔۔۔
سن دو ہزار انیس کے انتخابات کے بعد نریندر مودی نے ایک ظالم اور خونخوار ’دیو‘ کا سا بہروپ دھار لیا تھا، اور وہ اپنے آپ کو سچ مچ کا ایسا ’دیو‘ سمجھ بیٹھے تھے جو بہت سی شکتیوں کا مالک ہے اور ہمیشہ طاقتور رہے گا۔
سب سے پہلے انھوں نے اپنے اتحادیوں کو باور کرایا کہ ان کی انھیں کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تین سو تین سیٹوں کے ساتھ تن تنہا حکومت کرسکتے ہیں۔ اور اگر وہ اتحادیوں کو اپنی حکومت میں کرسی کے بجائے موڑھا، اسٹول یا چوکی بھی دیدیں گے تو یہ ان کا اتحادیوں پر احسان عظیم ہوگا۔
اس کے بعد انھوں نے بھارت کی تمام اقلیتوں کو پیغام دیا’ اب کی بار، آپ کا پہلے بلاتکار ہوگا اور پھر انتم سنسکار‘۔
اس کے بعد گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جو کچھ ہوا، اس نے پچھلے پانچ برس اور اس سے بھی پچھلے پانچ برس کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ نریندر مودی دس برس سے حکمران ہیں۔ اس سارے عرصہ میں وہ ہر گزرتے دن بھارت کی تمام اقلیتوں کے لیے ’عفریت‘ بنتے چلے گئے۔ سب سے زیادہ ظلم کے شکار مسلمان ہوئے، اس کے بعد عیسائی اور پھر سکھ۔ مظالم کی یہ ساری داستانیں مغربی میڈیا میں تفصیل کے ساتھ شائع اور نشر ہوتی رہیں۔
مسلمان بھارت کی کل آبادی کا چودہ فیصد ہیں۔ سب سے بڑی اقلیت ہونے کے ناتے مودی کو وہ سب سے بڑا ’خطرہ‘ نظر آتے ہوں گے، اسی لیے وہ ان کی نسل کشی کی بار بار کوششیں کرتے رہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ بھارت کی آبادی کا صرف دو فیصد عیسائی کیوں اس عفریت کے ظلم و ستم کے شکار ہیں؟ گزشتہ برس منی پور کے علاقے میں قریباً ایک ہفتہ کے دوران تین سو چرچ جلا دیے گئے۔ وہاں کے عیسائی باسیوں کے ساتھ کیا لرزہ خیز سلوک کیا گیا، یہ بہت روح فرسا داستان ہے۔ اسی طرح مودی کے پیروکار سکھوں کو بھی تہ تیغ کرنے کا موقع تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
نریندر مودی کی حکمرانی میں بی جے پی صرف مذہبی اقلیتوں ہی کے لیے عفریت نہ تھی بلکہ اپنے ہر سیاسی مخالف کا ناطقہ بند کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کرتی رہی۔ تازہ ترین مثال ریاست دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال ہیں، جو دہلی میں بی جے پی کے مقابل ناقابل شکست ثابت ہو رہے تھے، چنانچہ انھیں عین عام انتخابات سے قبل جیل بھیج دیا گیا۔
دراصل نریندر مودی ایک ایسا انڈیا چاہتے تھے جہاں انھیں مخالف نقطہ نظر والا کوئی نظر نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو ہزار چوبیس کے عام انتخابات میں چار سو سے زیادہ سیٹیں لے کر ملکی آئین بدلنے کا نعرہ لگا رہے تھے۔ انھیں پسند نہیں تھا کہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندوؤں جتنے حقوق حاصل ہوں۔ وہ اپنی حالیہ انتخابی مہم میں واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔ ان کے خطابات میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اس قدر زیادہ تھی کہ مغربی میڈیا اور دانشور بھی اس کی مذمت پر مجبور ہوئے۔
حالیہ انتخابی نتائج واضح طور پر بتاتے ہیں کہ خود بھارت کے اندر بھی مودی کے ’نظریہ ہندو راشٹر‘ کو ناپسندیدگی سے دیکھا گیا ہے۔ تریسٹھ سیٹوں کی کمی۔۔۔۔ اتنا بڑا دھچکا بی جے پی کو اپنی چالیس سالہ تاریخ میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ اور یہ بھارتی عوام کی طرف سے کوئی وقتی ردعمل نہیں بلکہ مکمل طور پر سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ ایسے فرد کو اقتدار میں نہیں ہونا چاہیے جو مطلق العنان بننے کے لیے مچل رہا ہو، جو اپنے آپ اور اپنے پیروکاروں کے علاوہ ہر کسی سے نفرت کے جذبات رکھتا ہو۔
اگلے روز ایک تجزیہ کار سے کسی نے پوچھا کہ نریندر مودی اب کیا حکمت عملی اختیار کریں گے؟ ان کی رائے تھی کہ وہ ایک بار پھر مسلمان مخالف جذبات ابھاریں گے۔ مجھے ان سے اتفاق نہیں تھا۔
نریندر مودی نے مسلمان مخالف جذبات بھڑکانے کے لیے ایڑی چوٹی کا سارا زور لگایا اور اس کے نتیجے میں جو کچھ کمایا، وہ دنیا نے دیکھ لیا۔ وہ مسلمانوں سے مزید کتنی نفرت کریں گے؟ آخر نفرت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
اگر وہ نفرت کا مزید کوئی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کے ’بادشاہ گر‘ اتحادی ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ یقیناً تلگو دیشم پارٹی کے چندرا بابو نائیڈو ان کا ساتھ نہیں دیں گے جن کے پاس سولہ نشستیں ہیں، جنتا دل( یونائیٹڈ) کے نتیش کمار ان کا ساتھ نہیں دیں گے جن کے پاس بارہ سیٹیں ہیں۔ امید ہے کہ باقی ماندہ اتحادی بھی نفرت کے کاروبار میں نریندر مودی کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ویسے باقی ماندہ اتحادیوں کے پاس اس قدر سیٹیں نہیں ہیں کہ وہ مودی حکومت کو قائم رکھ سکیں۔ مودی جی کا چندرا بابو نائیدو اور نتیش کمار کے بغیر گزارہ نہیں۔
جو زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت کا طلب گار ہو، وہ نفرت نہیں محبت کی سیاست کرتا ہے۔ نریندر مودی کو نتیش کمار سے سیکھنا چاہیے کہ حکمرانی کیسے کرتے ہیں، انھیں اروند کیجری وال کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے چاہئیں۔
بادبان، عبید اللہ عابد
ایک تبصرہ برائے “مودی جی! اب کی بار، لولی لنگڑی سرکار”
بہت عمدہ تجزیہ۔۔۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر مودی اپنی مطلوبہ نشستیں حاصل کر لیتا تو وہ پاکستان کے لیے بھی مسائل پیدا کرتا۔۔۔۔۔