“جتنے رنگ ہیں چاہت کے…..”

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نصرت یوسف……..
چاکلیٹ کیک کی آئسنگ پر جیلی کے تین سرخ دل سجا کر اس نے تعریفی نظروں سے اشتہا انگیز کیک کو دیکھا، وہ ہر لحاظ سے عمدہ لگ رہا تھا، فخر سے اس کی گردن کچھ تن سی گئی، آج کا خاص دن وہ خاص بنا دے گی.
دنوں بعد اس نے وہ لباس پہنا جو اس کی کھڑکی پر لگے گملوں میں جھولتے ننھے منے ٹماٹروں کے رنگ کا تھا، چمکدار اور توانا.
کانوں میں چمکتا زیور اور گولڈیا کی خوشبو میں بسا اس کا وجود سراپا انتظار تھا.
کسی غیبی تحفہ کی مانند وہ اسے کچھ ماہ قبل ہی ملا تھا. دھندلی آنکھوں میں جوت سی جل اٹھی تھی.

اس نے کہا تھا جب سورج کی آخری کرن آسمان سے گلے ملتی رخصت ہو رہی ہوگی، وہ اسی لمحہ محبت کے ہار سنگھار کے ساتھ گھر کے دروازے پر دستک دے گا. موسم کی سرد ہوا اس کے سیاہ زلفوں سے چھیڑ چھاڑ کرتی گزر رہی تھی، شفق پر آخری کرن تھر تھرا رہی تھی.
ٹیرس کی گرل پر ہاتھ ٹکائے اس نے دسویں منزل سے نیچے موجود زندگی کو دیکھا، ہر چیز سکڑی نظر آرہی تھی،
حقیقت کیا ہے؟؟ وہ جو اس بلندی سے دکھ رہا ہے یا وہ جو فرش سے محسوس ہو؟
کیا حقیقت ہر نگاہ کے لیے جدا؟

اس لمحہ آخری کرن نے بھی اس کے سر پر تنے آسمان پر الوداعی سانس لی، اور گھر میں دستک گونج گئ. اس نے بےتابی سے آواز کے رخ پر مڑ کر دیکھا اور بھاگتی ہوئ استقبال کو بڑھ گئی.

یوم محبت مبارک میری جان!!
آنے والے نے اس کو ڈھیروں سرخ گلاب تھماتے گلاب لفظوں کی قندیلیں جلائیں، تپش سے اس کے عارض دہک اٹھے تھے،
میری چاہت تمہاری اے دلبر!!
زندگی بہت خوبصورت ہے… ہے نا؟؟ ؟ اس نے دلبر سے اقرار چاہا.

گولڈیا کی خوشبو کو دلبر نے اپنی سانس کے ساتھ کھینچتے موم بتی سے بنتے ساۓ دیکھے… اور ایک بار پھر سرگوشی کی،
” میری جان! زندگی اتنی ہی دلربا ہے جیسے تم”
ہنسی نے ارد گرد کے سناٹے کو چیرا اور وہ بے اختیار سامنے رکھے ساز کو دیکھ کر پوچھ بیٹھا “وائلن کس کا ہے؟”
“میرے بیٹے کا”

روشنی کم تھی ورنہ جواب دیتے جو عکس آنکھوں کی پتلی پر بنا تھا جواب دیتے وہ ان گلابوں سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا جو محبت کے نام پر اس نے لیے تھے.
“تم ماں ہو؟؟ “
“ہاں اور بیوی بھی… “
بانہیں سمٹ گئیں… فاصلہ ہوگیا
“بیوی تھی” تھی پر اس نے زور دے کر چہرہ اس کی جانب کرتے استعجاب سے فاصلہ کو دیکھا.
“کہاں گیا وہ”؟
“کون؟ “
“تمہارا مرد، تمہارا بیٹا” اب کہ آواز میں ساز نہ تھا.

قریب رکھے گلدان میں تازہ لگے گلابوں کے ڈھیر سے اس نے ایک پتیوں سے بھرا پھول کھینچا اور بولی”اب مرد بھی تم ہو اور دلبر بھی”
“آؤ کیک کھاتے ہیں اور مشروب پیتے ہیں. آج یوم محبت ہے، میں ماضی کے کڑوے دنوں کی یاد میں نہیں جانا چاہتی”
“ہاں میں بھی اپنے خیالات سے چھٹکارا چاہتا ہوں “
“کیا تم بھی باپ ہو؟ “اس کی آواز میں سوز ابھرا۔
“ہاں! “
“دو جڑواں بیٹیوں کا”
” شوہر ہو یا تھے؟ “
” آؤ دلربا آؤ، سب بھول جاؤ، ہم کیا تھے، کیا ہیں، آؤ بس فروری کا گیت گاتے ہیں”فاصلہ پھر ختم ہو گیا.

کیک، پھول، گیت اور قربت تھی،شریانوں میں رواں طاقت بھی…خوشی اور سکون کا راج ابد تک جاتا لگتا تھا… لیکن نیا سورج نکلتے ہی ایک چھناکہ کی مانند سب بکھر گیا… نہ کوئی دلبر رہا اور نہ دلربا…
“یکسانیت بوریت ہے… زندگی کھوجنے کا نام!”
دونوں نے ایک دوسرے کو رخصت کرتے خوشدلی سے دہرایا تو بچے ہوے کیک اور آنکھیں موندے گلابوں نے کانوں کو بند کر لیا.
نفس، نارسائی اور نار تینوں بغل گیر ہوتے، دونوں کو پھر تنہا چھوڑ چکے تھے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر ““جتنے رنگ ہیں چاہت کے…..”” جوابات

  1. نگہت یاسمین Avatar
    نگہت یاسمین

    بہت خوفناک حقیقت بیان کی گئی ہے۔رشتوں کی پائیداری بدلتے سماج میں گھٹتی جارہی ہے۔

  2. ڈاکٹر میمونہ حمزہ Avatar
    ڈاکٹر میمونہ حمزہ

    جیسی روح ویسے فرشتے۔۔۔
    الخبیثات للخبیثین والخبیثون للخبیثات