اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نج کاری کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جو ماضی میں کامیابیوں کا شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں لیکن کچھ عرصے سے دانستہ و نادانستہ انہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا کر پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر قومی اداروں کو پرائیویٹائز کرنا کیوں ضروری ہے؟
نج کاری کے حوالے سے اقتصادی ماہرین دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک تصور یہ ہے کہ حکومتوں کو خود سے ادارے قائم کرنے اور چلانے کی بجائے انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے سپرد کردینا چاہیے۔ ایسی صورت میں نا صرف حکومت پر ورک لوڈ کم ہوجاتا ہے اور خسارے کی صورت میں خزانے پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ ٹیکسز کی مد میں اچھا خاصا ریوینیو بھی جمع ہوجاتا ہے جس سے امور مملکت اور پبلک ویلفئیر کے منصوبے چلانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کان کنوں کی ہڑتال نے کیسے خواتین کی زندگی کو نیا رخ عطا کیا؟
میثاق معیشت ، وقت کی اہم ترین ضرورت
دوسرا موقف یہ ہے کہ ہر شعبے میں سرکاری ادارے موجود ہونے چاہئیں تاکہ قیمتوں میں توازن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کو کنٹرول کرنا ممکن رہے۔
پاکستان کئی دہائیوں سے تجربات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ 70 کی دہائی میں بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں پاپولر سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہو کر تمام نجی اداروں کو نیشنلائز کردیا۔ اس یکطرفہ تصور کے نتیجے میں ملکی ترقی میں پرائیویٹ شراکت داری اور مسابقت کلی طور پر ختم ہو کر رہ گئی۔ اس کا منفی اثر قومی معیشت پر بھی پڑا۔
جنرل ضیاء کے دور میں نیشنلائز کئے گئے اداروں کو دوبارہ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا گیا۔
بھٹو سے جنرل ضیاء کے دور تک قومی اداروں کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کا بین الاقوامی سطح پر ایک نام تھا۔
90 کی دہائی میں سرمایہ دار گھرانے کے حکمران میاں نواز شریف نے پرائیویٹ سیکٹر کو مضبوط بنانا شروع کیا۔ اس دور سے قومی ادارے زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ گویا سرکاری اداروں کی کارکردگی کا سوال کھڑا کر کے انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری اسی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔
مشاہدے کی بات یہ ہے کہ جس شعبے میں بھی پرائیویٹ سیکٹر پر انحصار بڑھایا گیا وہ بے لگام ہو کر قوم کے لیے سوہان روح بن گیا۔
1996 میں شریفوں کی حکومت نے پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ کا محمکہ اس بنیاد پر ختم کردیا کہ یہ خزانے پر بوجھ ہے۔ اس دور میں محکمے کی مزدور یونین نے جو اعدادو شمار پیش کیے تھے ان کے مطابق یہ محکمہ مکمل طور پر خود انحصاری کی بنیاد پر چل رہا تھا بلکہ قیام سے اختتام تک محمکے نے اربوں روپوں کے اثاثوں میں اضافہ کیا تھا۔ اس کے باوجود 14 ہزار ملازمین کو جبری گولڈن شیک ہینڈ دے کر محکمہ ختم کردیا گیا۔ جب سے پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ کو ختم کیا گیا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ شتر بے مہار ہوکر مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ آج تک کوئی حکومت اسے نکیل ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
عمران خان کے دور حکومت میں شعبہ صحت کے اکثریتی فنڈز کو صحت کارڈ کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔اس فیصلے سے مریضوں کا انفرادی فائدہ ضرور ہوا لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا۔ صحت کارڈ کی سہولت کی وجہ سے مریضوں کا رخ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف ہوگیا۔ ان شتر بے مہار پرائیویٹ ہسپتالوں میں سرجریز کی شرح میں حیران کن اضافہ ہوا اور صحت کارڈز کے فنڈز کا بے دریغ اور بے رحمانہ استعمال ہوا۔ آج پرائیویٹ ہسپتال بے لگام گھوڑے کی طرح کام کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی بہتر نظام نہیں ہے۔ صحت کارڈ کا اجراء بھی دراصل پرائیویٹ سیکٹر کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی کا شاخسانہ تھا۔
تعلیم کے شعبے میں سرکاری اداروں کو یتیم کر کے پرائیویٹ شعبے کو پروان چڑھانے کی حکمت عملی کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بے لگام مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ دوسری طرف سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی کا جواز بنا کر صرف پنجاب میں دس ہزار سکول پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔
ہماری نظر میں سوشلسٹ تصور کے تحت پرائیویٹ سیکٹر کا گلا گھونٹ دینا یا سرمایہ دارانہ سوچ کے مطابق سرکاری اداروں کے وجود کو سرے سے ختم کر دینا غیر متوازن سوچ ہے۔ ملک و قوم کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
کہا جارہا ہے کہ ملکی معیشت جس حالت میں ہے، اسے سنبھالا دینے کے لیے خزانے پر بوجھ بننے والے اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ اسی طرح یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ایئرپورٹس اور قومی شاہراہوں کو گروی رکھ کر بیرونی قرضے حاصل کیے جارہے ہیں۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ جو حکومت اداروں کو احسن طریقے سے نہیں چلا سکتی اس کی حکومتی گورننس ہی قابل اعتبار نہیں ہے۔
ہماری نظر میں قومی ادارے فروخت کرکے اور گروی رکھ کر معیشت کبھی بہتر نہیں ہو سکتی۔ معاشی بہتری کے لیے ملکی وسائل کو مربوط طریقے سے بروئے کار لانے اور کرپشن کلچر کے مکمل خاتمے کی ضرورت ہے۔
آج کے دانشوروں کو حضرت غالب کی کئی دہائیاں پہلے کہی بات کیوں سمجھ نہیں آتی؟
قرض کی پیتے تھے مئے اور سمجھتے تھے ہم
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
( جناب خلیل احمد تھند پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین ہیں۔)