لال، پیلے، نیلے ٹینٹ گھر کے باہر یا آس پاس کسی خالی پلاٹ یا بڑے لان میں لگائے جاتے تھے ۔۔۔ ان کے اندرکیٹرنگ کی سرخ کرسیاں اور کھانے کی لمبی میزیں سجی ہوتی تھیں جہاں مہمانوں کو کھانا کھلانے کا انتظام بخوبی ہوتا تھا۔۔۔۔
اس کھانے کے لیے کسی خالی پلاٹ یا گلی/ سڑک کی سائیڈ پر دیگیں پکائی جارہی ہوتی تھیں جن کی نگرانی خاندان یا محلے کے تجربہ کار لوگ کررہے ہوتے تھے۔۔ اس سے قبل پکوائی کا سارا پلان دو، تین ہفتے قبل ہی طے کرلیا جاتا کہ کون سا سامان کہاں سے اور کتنا آئے گا اور پکوائی والوں کو کیا اور کتنا دیا جائے گا۔۔۔
دلہن کو گھر کے کمرے ہی میں کسی بھابھی بہن کے ہاتھوں تیار کرکے لاؤنج یا بڑے کمرے میں صوفے کرسی یا زمین پر ہی بٹھادیا جاتا تھا۔ دلہا اور قریبی رشتہ دار ڈرائینگ روم میں بٹھائے جاتے تھے ۔۔۔۔ دلہن کے گوٹے والے کپڑے ہوتے تھے جو اکثر خود دلہن ہی اپنے ہاتھ سے بناتی تھی، وہ خود ہی سلائی کرتی تھی یا پھر بڑی بہن، بھابھی، والدہ کی کاوش ہوتی تھی ۔ جبکہ دلہا کا کڑکتا ہوا یا بوسکی کا کرتا شلوار، سہرا اور کلاہ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔
نکاح ہوتا تھا تو حق مہر اور گواہان کا معاملہ بھی پہلے ہی خاندان کے بڑے بزرگ طے کرچکے ہوتے تھے۔۔۔ نکاح کے بعد چھوارے اچھالے جاتے تھے۔۔۔ پیسے چار آنے، آٹھ آنے ہوا میں اچھالے جاتے تھے جو بچے سمیٹتے تھے۔۔۔۔ صدقے کے پیسے گھر یا ٹینٹ کے باہر کھڑے فقیروں کو دے دیے جاتے تھے۔
جیسے ہی کھانا کھلتا تو سب کھانا کھاتے تھے ۔۔۔۔اسکن سے ایک اور نیلے رنگ کے دو روپوں والے ہار اور کلاہ پہنے دلہا نکاح کے بعد ایک دو رشتہ داروں ساتھ اندر آتا۔۔۔ اسے دلہن کے ساتھ بٹھایا جاتا، اور پھر خاندان کی عورتیں سلامیاں، پیار و دعائیں دیتیں۔۔۔
کوئی سمجھدار لڑکی، بہن بھابھی کاپی لے کر لکھتی جاتی کہ کس نے کتنی سلامی دی، دلہا کی طرف یہ کام کسی بھائی یا چچا کے ذمے لگ جاتا تھا۔
ایک تو سلامی ہوتی تھی اور دوسری ایک رقم ہوتی تھی جسے نیوتا / نیندرا / پاجی بھی کہا جاتا تھا۔ وہ شادی اخراجات میں فیملی اینڈ فرینڈز کی جانب سے کنٹری بیوشن کے طور پر دیا جاتا تھا، اسے کھانے کا خرچ شمار کیا جاتا تھا جو کہ لکھا جاتا۔ اور پھر احسان کا بدلہ اچھے احسان کے طور پر دیا جاتا تھا۔ جو بیس روپے دیتا تھا جب اس کے ہاں شادی بیاہ کا معاملہ ہوتا تو اسے پچیس دینا ضروری سمجھا جاتا تھا ۔۔۔۔ کسی نے شاید اچھی نیت سے یہ رواج شروع کیا ہوگا لیکن پھر یہ بھی جذباتی اور مسابقتی غیرمتزلزل رویوں کی نذر ہوگیا۔۔۔۔
اب ولیمہ کے دن کا احوال بھی جان لیجیے۔۔۔۔۔۔ دلہن کو گھر ہی میں تیار کرکے عورتوں کی طرف بٹھا دیا جاتا تھا اور دلہا بھی تیار ہوکر کزنز، دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوتا تھا۔۔۔۔۔ٹینٹ لگتے، کھانا کھلتا، کھایا جاتا اور یوں شادی نپٹ جاتی تھی۔
شادی کے کھانے میں پلاؤ ،قورمہ اور زردہ عام تھا۔ پلاؤ اور زردہ ملا کر مزے کا متنجن بھی انجوائے کیا جاتا تھا۔۔۔۔
ہاں! بارات والے دن دلہا گھوڑی پر چڑھایا جاتا تھا۔۔۔۔کہیں دولہا گھوڑی چڑھتے گر پڑتا اور کہیں گھوڑی بدک کر بھاگ جاتی تھی۔۔۔گھوڑی کے آگے ڈھول ڈھمکے والے ہوتے تھے۔۔۔۔لڑکے بھنگڑے ڈالتے۔۔۔۔۔۔
مہندی کا کوئی بڑا فنکشن نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔لڑکے والوں کی طرف سے بہنیں، بھابھیاں مہندی لاتی تھیں ۔۔۔۔
مایوں کا مطلب لڑکی کو گھر بٹھانا ہوتا تھا حالانکہ اس دور میں لڑکیاں ویسے بھی باہر کم ہی نکلا کرتی تھیں مگر شادی قریب آنے پر اس کا گھر سے نکلنا بالکل ہی ممنوع ہو جاتا تھا کہ دلہن کو روپ نہیں آئے گا۔ اس عرصہ میں اسے روزانہ تیل ابٹن لگایا جاتا ۔۔۔ شادی کے کپڑے تیار کیے جاتے، درزن گھر بٹھا دی جاتی جو گھر بھر کے اور قریبی رشتہ دار خواتین کے کپڑے سیتی تھی۔۔۔ ایسے ہی درزی بھی بٹھایا جاتا تھا جو مردوں کے کپڑے سیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ شام کو آس پڑوس کی لڑکیاں ۔۔۔ کزنز وغیرہ جمع ہو جاتیں، بھابھیاں دوپٹوں کپڑوں کو لیسیں لگاتیں، گوٹے کناری ترپائی کرتیں جبکہ لڑکیاں ڈھولکی پر ٹپے گاتیں۔۔۔۔
لاہور اور گرد و نواح میں اپر کلاس، مڈل کلاس کی ایسی ہی شادیاں ہوا کرتی تھیں اور میری یادداشت میں ثبت ہیں۔۔۔
ولیمہ کے دن دلہن کی طرف سے ناشتہ آنے کا رواج بھی نہیں تھا۔۔۔۔ ہاں ولیمہ کے بعد دلہا دلہن کے میکے جاتا جس کا مقصد سسرالی خاندان میں گھلنا ملنا، میل ملاقات ہی ہوا کرتا۔ یہ کوئی بوجھل رسم نہیں تھی۔۔۔۔
شادی کے لیے دور دراز سے آئے رشتہ داروں اور بہن بھائیوں کو تحفتاً سوٹ دئیے جاتے تھے جو اکثر ایک ہی تھان کے ہوتے تھے اور بہت قیمتی یا مہنگے نہیں ہوتے تھے۔۔۔۔ تھان تھوک / ہول سیل کے مارکیٹ سے لائے جاتے تھے۔
شادی میں شریک لوگ عید وغیرہ پر بنائے ہوئے کپڑے، جوتے ہی شادی میں پہن لیا کرتے تھے یعنی شادیوں میں شرکت کے لیے الگ سے کپڑے بنوانے کا رواج نہیں تھا۔
دودھ پلائی، جوتا چھپائی ٹائپ رسمیں بھی بعد میں عام ہوئیں۔۔۔۔۔
ڈولی والی رخصتی ہوا کرتی یا بارات والی بس ہی میں دلہا دلہن بیٹھ کر روانہ ہو جاتے۔۔۔۔۔
یہ اسّی، نوے دہائی میں ہونے والی شادیوں کا عمومی ماحول ہوا کرتا تھا۔۔۔۔
زیادہ رسم و رواج کہیں کہیں پائے جاتے تھے ۔۔۔۔
پھر میڈیا نے بہت تیزی سے شادیوں کا کلچر بدلا اور شادی کو ایک فلمی ایونٹ بنادیا گیا۔۔۔۔۔ رسم و رواج سے بوجھل کیمروں کی زد میں دلہا، دلہن کی اینٹری اور فوٹوشوٹ سمیت ہر چیز گلیمرائز کردی گئی ہے۔ اب لگتا ہی نہیں ہے کہ شادی کوئی سوشل ایونٹ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کسی فلم کے سیٹ پر بیٹھے ہیں۔
یہاں تک کہ دلہن کی ساری تیاری کیمرہ پکچر کے حساب سے کی جاتی ہے حالانکہ اسے تو دلہا کے لیے تیار ہونا ہے لیکن قریب سے دلہن چاہے کچھ کی کچھ لگ رہی ہو، بس! ویڈیو اور پکچر اچھی آنی چاہیے۔
پہلے شادی کا اصل فنکشن ولیمہ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ اور مسنون روایت بھی ہے۔۔۔۔۔لیکن اب مہندی شادی کا مرکزی فنکشن بن گیا ہے۔
سچ کہوں تو ہماری شادیاں ہندوانہ اور مغربی تہذیب کا ایسا کوئی مافوق الفطرت امتزاج بن گئی ہیں کہ سب کچھ بوجھل ترین ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔ جس میں نہ صحیح مزہ نہ سواد۔۔۔۔۔۔بس فلیش لائٹس اور فلم۔
اگرچہ اسّی، نوّے کے عشرے کی شادیاں بھی کوئی سادگی یا اسلامی مزاج کے مطابق نہیں ہوتی تھیں البتہ معاشرتی لحاظ سے مطابقت رکھتی تھیں۔
آج کے دور میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ دین پسند طبقہ سمیت کچھ سنجیدہ اور باوقار جدید دنیا کے لوگ بھی شادیوں کو آسان اور سادہ بنانے کی روایت قائم کر رہے ہیں جو کہ لائق تحسین ہے۔۔۔۔
کوشش کریں تو کیا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔اگر ہمارے اندر اللہ کو جوابدہی کا احساس ہے تو ہمیں اسراف سے بچتے ہوئے سادہ شادیوں کو رواج دینا ہوگا تاکہ معاشرے میں خیر پھیلے، آسانی پھیلے۔۔۔۔ بےجا رسومات اور لین دین کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔۔۔۔
دور حاضر میں شادی بیاہ کے طوفانی قسم کے خرچوں کی وجہ سے کئی گھرانوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی کے انتظار میں عمریں گزار رہے ہیں۔ دور جدید کی آزمائشوں میں اپنے ایمان و حیا کو بچانا ان کے لیے شدید مشکل تر ہوچکا ہے۔
اس لیے شادیوں کو آسان اور سادہ بنانے کی روایت کا آغاز خود سے کیجیے۔
ایک تبصرہ برائے “ اسّی، نوّے کے عشرے کی شادیاں کیسی ہوتی تھیں؟”
دلچسپ ۔۔۔ عمدہ تصویر کشی۔۔۔ رسم ورواج کاتذکرہ ۔۔ جزئیات نگاری ۔۔۔