کراچی سے گوادر جانے کے لیے طے کیا گیا کہ ہم پانچ لوگ ہیں تو کوچ کے ذریعے جائیں گے، پھر گوادر سے جیونی ایرانی بارڈر کراس کریں گے۔ہمارے دوست محمود فیملی کے ساتھ ملتان گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے 24 اپریل کو واپس آنا تھا کہ اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ میں فون پر مسلسل ان سے رابطے میں تھا کہ جلدی آئیں تاکہ ساتھ مل کر سفر کے لیے کچھ خریداری کریں۔ 24 کو پتہ چلا کہ ان کے والد اور بھائی انہیں لینے کے لیے ملتان پہنچ گئے ہیں اور کار کے ذریعے انہیں کراچی لا رہے ہیں۔
حفیظ اور عطاءاللہ مجھے مسلسل فون کرکے ان کے پروگرام کا پوچھتے رہے۔ اس دوران محمود کا فون بند ہوگیا۔ ہم پریشان کہ کس طرح ان سے رابطہ کریں ۔ حفیظ نے ان کے بھائی کا نمبر دیا۔ خوش قسمتی سے ان کے بھائی سے رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ محمود کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے اور انھیں آغا خان اسپتال منتقل کیا گیا۔ میں فوراً وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ محمود کا بلڈ پریشر شوٹ کرگیا تھا، ان کے برین میں بلڈ کلاٹس کی تشخیص ہوگئی ہے۔ ان کی یادداشت بھی متاثر تھی۔
اس ناخوشگوار صورتحال سے ہم سب رنجیدہ ہوگئے کہ ہمارے گروپ کا سب سے پرجوش ساتھی محمود جن کا یہ پہلا انٹرنیشنل ٹور تھا، تکلیف دہ صورتحال میں مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جلد شفاء کاملہ عطا فرمائے۔ آمین۔
رات کو فیصلہ کیا گیا کہ ہم اب کار سے گوادر جائیں گے۔ صبح 8 بجے کا وقت دیا گیا تھا کہ سارے دوست عطاءاللہ کے اپارٹمنٹ کے ویٹینگ ایریا میں جمع ہوں گے۔ ساڑھے آٹھ بجے راقم، واجد اور مونس پہنچ چکے تھے۔ عطاءاللہ حسب معمول لیٹ ہوکر نو بجے پہنچے۔ اس کے بعد ہمارا سفر گوادر کے لیے شروع ہوا۔
راستے میں حب چوکی کے بعد باوانی کے مقام پر کھانے پینے کے ایک مرکز ’سلطنت ترکیہ‘ پر ناشتے کے لیے رکے۔ اگر آپ کراچی سے گوادر کے لیے صبح کے وقت سفر شروع کر رہے ہیں تو باوانی پر ’سلطنت ترکیہ‘ اور کچھ دیگر ریسٹورنٹ ہیں۔ اس کے بعد اورماڑہ تک کوئی صاف ستھرا کھانے پینے کا مرکز نہیں۔ بہتر ہے کہ فیولنگ بھی حب چوکی سے کرلیں کیونکہ کراچی کے بہ نسبت وہاں پر ایرانی پیٹرول سستے داموں دستیاب ہے۔
ناشتے پر میں نے دوستوں کو بتایا کہ میں متبادل مشروبات اور پروڈکٹس استعمال کروں گا۔ اگر نہ ملے تو بھوکا پیاسا رہ لوں گا مگر قدسیوں سے اظہار یکجہتی جاری رکھوں گا۔ دوستوں کا شکریہ جنہوں نے ہر جگہ خود ہی متبادل پرڈکٹس کا انتخاب کیا۔
راستے میں وندر کے بعد اورماڑہ تک ریسٹ ایریاز دستیاب نہیں سوائے کنڈ ملیر کے وہ بھی بہت بری حالت میں ہیں۔ اگر اپ اس جانب سفر کا ارادہ رکھتے ہیں تو ضرور ان سہولیات کے بارے میں معلومات رکھیں کیونکہ اکثر لوگ فیملی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس پورے راستے میں اورماڑہ کے بعد کوسٹ گارڈ کی بدوک چیک پوسٹ پر مسجد اور ٹوائلیٹس دستیاب ہیں۔ یاد رہے کہ کوسٹل ہائی وے جو کہ گوادر تک ساڑھے چھ سو کلومیٹر طویل روڈ ہے، اس پر کہیں بھی سرکاری طور پر ریسٹ ایریاز نہیں بنائے گئے ہیں جیسا کہ موٹر ویز پر بنائے جاتے ہیں۔ شاید سرکار کا پیسہ چیک پوسٹس پر لگ گیا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کشور جہان ( سفرنامہ، قسط:1)
ووڈ سٹاک، فونیشیا نامی امریکی دیہاتوں کا تذکرہ
ہمارا سفر شروع ہوتے ہی کچھ دلچسپ موضوعات کی طرف چلا گیا۔ واجد اور مونس کے ساتھ ہمارا پہلا سفر تھا۔ کاروباری معاملات، سماجی تعلقات اور ایران زیر موضوع رہا۔ کنڈ ملیر کراس کرتے ہی میں اپنی سڑک چھاپ دانشوری(یہ اصطلاح میں نے معروف صحافی فیض اللہ خان کی تخلیق کردہ اصطلاح ” سڑک چھاپ صحافی” سے متاثر ہوکر گھڑی ہے) کی پگڑی واجد کے قدموں میں رکھ دی۔
واجد کے انکشافات کروڑوں انسانوں کی ترجمانی کر رہے تھے۔ اور ہم لوگ ہنس ہنس کے پاگل ہو رہے تھے۔ واجد اس سفر میں ’بڑے مرشد‘ کا ٹائٹل اپنے نام کرگئے۔ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں ہندو کمیونیٹی کے یاتری نانی مندر ہنگلاج جا رہے تھے۔ ہنگول ندی اور کنڈ ملیر میں جلسے کا سماں تھا۔
کنڈ ملیر کے بعد ہم ریفیولنگ کے لیے رس ملان رکھے جو بزی پاس سے پہلے اور پرنسز آف ہوپ کے قریب علاقہ ہے۔ یہاں ہمارے کزن اکبر ایرانی پیٹرول فروخت کرتے ہیں، ہمیں 200 روپے فی لیٹر پیٹرول ملا۔ اگر کبھی آپ کو ایمرجنسی میں فیولنگ کی ضرورت پڑے تو رس ملان بہتر جگہ ہے۔ اس کے بعد اورماڑہ تک فیولنگ کی سہولت دستیاب نہیں۔
اورماڑہ کھانے کے لیے رکے۔ عطاءاللہ کو ڈھابہ ہوٹل کے بارے میں معلومات تھیں۔ وہاں دال اور مچھلی کا آرڈر دیا گیا کیونکہ دوستوں کا خیال تھا کہ اب ہم بلوچستان کی ساحلی پٹی کی مچھلی کھائیں گے۔ ہوٹل والے نے لال آٹے کی گرم روٹی کے ساتھ ایک پوری پلیٹ تلی ہوئی سبز مرچ کی پیش کی۔ اس کمبینیشن کے بعد دوستوں کے لیے ہاتھ روکنا مشکل تھا۔ سبز مرچ اور مچھلی نے میدان مار لیا۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور آگے روانہ ہوگئے۔
بدوک چیک پوسٹ پر نماز ظہر اور عصر اکٹھے ادا کی اور فریش ہوگئے۔۔ میرا خیال ہے کہ نمازوں کی حفاظت کے لیے یہ طریقہ بہتر ہے۔ اور دوستوں کو بھی قائل کرتا ہوں۔
شام کو گوادر پہنچے تو حفیظ نے اپنے دوست اور شاگرد نسیم بلوچ کے ساتھ مل کر ہمارا استقبال کیا اور ہمیں فوری طور پر گوادر کے تفریحی مقام کوہ باتیل لے گئے۔
راستے میں چیک پوسٹ پر بڑی مشکل سے ہمیں پہاڑ کے اوپر جانے کی اجازت ملی۔ مغرب سے تھوڑی دیر پہلے زیور پی سی ہوٹل کے ساتھ ہوٹل مرجان جو کہ آج کل رہائشی طور پر بند ہے، میں چائے اور چپس کے ساتھ ہماری خاطر تواضع کی گئی۔
گوادر کے مشہور کرکٹ گراؤنڈ کو اوپر سے دیکھنے کے بعد دوست کہنے لگے کہ کیمرا اور لوگ کتنا دھوکہ دیتے ہیں۔ اور ہم یہ دھوکے 76 سالوں سے روح افزاء کی شربت کی طرح پیتے اور پراٹھے کی طرح شوق سے کھاتے بھی ہیں۔ اس کے بعد گوادر فشنگ جیٹی دیکھنے گئے تو وہاں کوسٹ گارڈز کے بہادروں نے کھڑا ہونے نہیں دیا، شاید وہ خوف زدہ تھے کہ ہم لوگ گوادر پورٹ کو نظر لگائیں گے۔
اس صورتحال کا مقابلہ مونس نے اپنے ملتان کے ایک دوست احمد کو لائیو کال پر لے کر کیا۔ احمد نے ساری انسانی جدوجہد کا خلاصہ سلیس انداز میں پیش کیا، اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔ ہر شخص ہنس ہنس کر فشنگ جیٹی پر ٹکریں مار رہا تھا۔ حفیظ نے دوستوں کے لیے مچھلی کی دعوت ایک مقامی ہوٹل میں رکھی تھی جو مین ائیر پورٹ روڈ پر واقع ہے۔ گدیر مچھلی کو گرل کیا گیا تھا۔ یہاں پر پھر متبادل پروڈکٹس کا مسئلہ پیش آیا۔
نسیم کہنے لگے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا اور آپ سفر میں ہیں۔ میں نے کہا کہ قدسی میرے دل میں میرے ساتھ سفر میں ہیں، وہ ناراض ہوجائیں گے۔ اس بات پر وہ کافی متاثر ہوئے کہ یہ کمٹمنٹ بہت خوب ہے۔
ہمارا رات کا قیام حفیظ کے نو تعمیر شدہ خوبصورت گھر کے مہمان خانے میں تھا۔ سبز چائے پی کر ہم نیند کی وادیوں میں اتر گئے۔( جاری ہے)