مرد گھر کے اخراجات کا ذمہ دار،کفیل، منتظم اور محافظ،
عورت گھر کی آرگنائزیشن کی مینجر،
مرد اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے باہر نکلتا ہے، دوڑ دھوپ کرتا ہے، اپنے گھر کی آرگنائزیشن کو facilitate کرتا ہے،
عورت گھر کی آرگنائزیشن کو manage کرتی ہے۔
مرد باہر نکلتا ہے تو گھر کی آرگنائزیشن متاثر نہیں ہوتی،
عورت گھر سے نکلتی ہے تو گھر کی آرگنائزیشن متاثر ہوتی ہے۔
وہ کفیل،منتظم، محافظ کی دوہری ذمہ داری بھی اپنے کندھے پر لے لیتی ہے۔
ضرورت کے تحت ایسا کرنے کی ممانعت بھی نہیں۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ تمام عورتیں ہی اپنی بنیادی ذمہ داری چھوڑ کر باہر نکل پڑیں۔
عورت کو facilitate کرنا اس کے والد، شوہر، بھائی، بیٹے کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں تو ریاست اس کی ذمہ دار ہے۔
کیوں؟
اس لیے کہ وہ گھر کی آرگنائزیشن میں اپنے معاشرے اور ریاست کو Facilitate کرنے کے لیے ایک نسل کی تعمیر کررہی ہے۔۔۔۔اس کی تعلیم و تربیت معمولی کام نہیں ہے۔ اس پر دل دماغ جسم اور جان کی صلاحیت کھپتی ہے۔
فطرت نے اس کی ڈیزائننگ ہی ایسی کی ہے کہ اسے ہر فکر سے آزاد کیا۔۔۔۔تاکہ وہ مطمئن ہو کر نئی نسل کو توجہ اور وقت دے۔۔۔۔
یہ صلاحیت مرد کو فطرت نے عطا نہیں کی۔ اس کی بائیولوجی میں اسے مضبوط و توانا بنایا گیا کیونکہ اسے باہر معاش کی تگ و دو میں گرمی، سردی سہنا ہوتی ہے۔
عورت نے نئی نسلوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہے،گھر کی مینجمنٹ کرنا ہے تو اس کو اسی حساب سے قدرت نے نزاکت و احساس سے نوازا
معاشرے میں کچھ خاص شعبوں میں عورتوں کی ہی ضرورت رہے گی۔
وہاں جتنی ضرورت ہے، اتنی خواتین کو اپنی خدمات دینا چاہئیں
لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ ہر، ہر شعبے میں سب کی سب عورتیں ہی نکل پڑیں۔
ایسا ہوگا تو گھر کی آرگنائزیشن ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔
جب گھر اور خاندان کی آرگنائزیشن ٹوٹ پھوٹ جائے گی تو معاشرہ کو صحت مند باصلاحیت نسل کون دے گا؟؟؟
مغرب نے ترقی کے لیے یہ رستہ اپنایا اور اب ان کو ملک چلانے کے لیے اگلی نسلیں دستیاب نہیں ہیں۔
چین، جاپان، امریکہ، کینڈا، یوکے فیملی آرگنائزیشن کے لیے کئی پیکجز اناؤنس کرتے ہیں۔۔۔۔شادی کرنے پر پیکجز۔۔۔۔ ایک سے زائد بچے پرپیکجز۔۔۔۔ جاپان کی یونیورسٹی کے پروفیسر نے خود ہمیں بتایا کہ ہمارے پاس ملک کے اگلے منصوبے چلانے کے لیے مطلوبہ افراد کار میسر نہیں ہیں جس کے لیے حکومت فیملی بڑھانے کی مہم چلا رہی ہے۔
مغرب میں عورت کو عورت نہیں سمجھا جاتا تو وہاں کی عورت مہم چلاتی ہے کہ خدا کے لیے ہمیں عورت رہنے دو۔۔۔۔۔ بیک ٹو ہوم کی مہم چلتی ہے۔۔۔۔۔۔
کیا ضروری ہے کہ ترقی کی اس دوڑ میں ان قوموں کی پیروی کی جائے جو اپنے اقدام کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔۔۔۔۔۔
کیا ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ بطور قوم اندھی تقلید کی بجائے، ان کی تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے عورت کی حقیقی ترقی پر کام کریں۔اس سے معاشرہ کی فلاح بھی خود بخود ہوگی۔۔۔۔سردست اسلام سے بہتر عورت کے حقوق کسی نظام نے نہیں دیے۔۔۔۔۔
عورتوں کی آبادی کے تناسب سے اس کی تعلیم کے لیے الگ تعلیمی ادارے،
عورتوں سے متعلقہ شعبوں میں ان کی نوکریوں کا محفوظ انتظام،
الگ ٹرانسپورٹ،
بہترین صحت کی مفت سہولیات،
اس کے گھر کے مردوں کو نوکریاں دینا،
اس کے بچوں کے لیے مفت تعلیم ۔۔۔اعلیٰ تعلیم کے مواقع ۔۔۔۔اس کے بچوں کا یقینی تحفظ۔
اس کو وراثت کا حق دیا جائے، اور جو اسے یہ حق نہ دے اس کی سزا تجویز ہو۔
عورتوں کے تحفظ کے لیے اقدامات۔۔۔۔۔اس پر تشدد کرنے والوں کو سزائیں۔۔۔۔۔
یہ سب ریاست کی ذمہ داری ہے۔
کیونکہ ان اقدامات سے یہی عورت پرسکون طریقے سے اپنے گھر اور خاندان کی آرگنائزیشن چلاسکتی ہے جس سے وہ ریاست کو بہترین نسل دے گی، ملک کی ترقی میں شامل ہونے کو کئی بہترین ہاتھ دے گی۔۔۔۔
محض مغرب کی نقالی عورت پر بوجھ ۔۔۔۔۔۔ گھر اور خاندان کی تباہی کے سوا کچھ نہیں جس کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا ہوگا۔۔۔۔۔