بچپن کے رمضان کی یادوں میں ایک واضح اور شفاف یاد رمضان المبارک کے آخری دن ہیں۔ جب عید کا بے تابی سے انتظار ہوتا۔ نئے کپڑے، جوتے رات میں سوتے وقت بھی اس زاویے سے رکھے جاتے کہ آنکھ کھلے تو نظر آتے رہیں بالخصوص چاند رات تو ساری سونے جاگنے کی کیفیت میں گزرتی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ وہ برکتوں والا دن ہوتا تھا جب ماں باپ بچوں کو نیند سے بیدار کرنے کی ذمہ داری سے آزاد ہوتے۔ صبح سویرے مہندی والے ہاتھ سے مہندی دھوئی جاتی۔ کون مہندی چھوٹے شہروں میں متعارف نہیں ہوئی تھی۔ بازار سے پسی ہوئی مہندی کو گھول کر جھاڑو کے تنکے سے باجیاں ہتھیلیوں پر ڈیزائن بناتیں اور چھوٹے بچوں کے ہاتھوں پر گول ٹکیہ کافی سمجھی جاتی۔
مہندی کی خوشبو نئے کپڑے جوتے اور نمکین، میٹھے پکوانوں کے ساتھ ساتھ نئے نکور نوٹوں کی خوشبو طبیعت میں عجیب سرمستی پیدا کرتی۔ بالعموم اپنے آپ کو اس دن زمین کی بجائے کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھا جاتا۔
پھر ماہ و سال کے چکروں میں عمر عزیز کی چار اور پھر پانچ دہائیاں بھی گزر گئیں۔ عید کا دن اور عیدی ملنے کی خوشی اپنے بچپن سے بچوں کے بچپن میں منتقل ہوگئی۔ اب عید جس حالت میں گزرتی ہے تو بے اختیار مرحوم والدین یاد آجاتے ہیں۔ عید کا دن عید کی خوشیوں کے ساتھ جانے والوں کے غم کو بھی تازہ کرتا ہے۔ ایک آنکھ رو رہی ہوتی ہے تو دوسری مسکرا رہی ہوتی ہے۔
گزشتہ سال ستمبر کے پہلے عشرے میں عمرہ کے مبارک سفر سے واپسی ہوئی تو پے درپے چھوٹی بڑی آزمائشوں نے گھر دیکھ لیا۔ اللہ پر یقین جتنا بھی پختہ ہو آزمائش تو ہڈیوں کو بھی سلگا دیتی ہے۔ ایسے ہی تو رب العزت نے اپنے نبیوں تک کو صبر کی تلقین نہیں کی۔
ایک کے بعد دوسری آزمائش آئی اور گزر گئی شکر الحمد للہ لیکن نتیجہ گوشت پوست سے بنی صنف نازک کے لیے خرابی صحت کی صورت میں برآمد ہوا۔مٹھی بھر بھر کے صبح شام ادویات لیتے ہوئے یہی فکر طاری ہوتی کہ روزے کیسے رکھے جائیں گے، دورہ قرآن کا تو ففٹی ففٹی معاملہ تھا۔
یہ بھی پڑھیے
الوداع، الوداع ماہ رمضان الوداع
رب سے مدد مانگی۔ دورہ قرآن لینے کا فیصلہ کیا۔ رمضان المبارک کے چاند کی اطلاع کے بعد پہلا کام بخیر و عافیت رمضان گزرنے اور صدقہ کی ادائیگی کا ہی ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھی نفل کی ادائیگی کے بعد صدقہ دیا۔ پہلے دن کے دورہ قرآن میں دس ایک منٹ مسلسل بولنے سے گلے میں تکلیف ہوئی۔ ساتھ ہی جسم میں حرارت محسوس ہوئی اور گلے میں شدید انفیکشن۔ایک لفظ بھی بولنے کی کوشش کرتی تو آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہوجاتا۔ درد کی وجہ سے گلے میں گلٹیاں محسوس ہوئیں۔
سوشل میڈیا پر دعاؤں کی درخواست کے ساتھ ڈاکٹر بیٹی سے رابطہ کیا تو جواب ملا وائس ریسٹ۔!
جی الفاظ گلے کے نیچے ہی رہنے چاہئیں۔ سخت ذہنی اذیت صدقہ کی ڈوز ڈبل کی دعاؤں میں شدت پیدا کی۔ افطاری میں سموسوں، پکوڑوں کی بجائے دارچینی چھوٹی الائچی کی چائے لازمی جزو بن گئی۔ تین گھنٹے کے ترجمہ تفسیر سے فارغ ہو کر گھر میں آتی تو اگلے بیس گھنٹے چپ شاہ کا روزہ رکھ لیتی۔ اشاروں میں بات ہوتی۔ بیٹیوں سے کہہ دیا خبردار! ماں سے وڈیو کال کی صورت رابطہ کرلیں، شکل دیکھ کر گزارہ کریں۔ یوں اتنی زیادہ احتیاطی تدابیر کے بعد
الحمد للہ دوسرا دن خیریت سے گزر گیا۔ تفسیر کا دورانیہ بڑھتا رہا۔ شرکاء مقررہ وقت سے تیس بتیس منٹ پہلے ہال میں موجود ہوتے تو اس احساس سے آنکھوں میں پانی آجانا کہ یہ علم کے پیاسے آج بھی دور دراز سے وقت سے پہلے موجود ہیں تو یہ اللہ کا فضل ہے۔
انیسویں روزے سے دوسرے علاقوں میں تکمیل قرآن کے لیے مدعو کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوں اٹھائیسویں روزے تک کوئی دن فراغت کا نہ مل سکا۔
اب سال رواں کا رمضان اس روئے زمین سے رخصتی کے سفر پر ہے۔ کچھ علاقوں میں پرسوں عید ہوگی کچھ میں ترسوں۔
اس سال مسنون دعاؤں کے اہتمام میں یہ دعا بھی بطور خاص شامل رکھیں کہ یا اللہ اگر یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہے تو اسے مغفرت رحمت اور برکتوں سے زندگی کابہترین رمضان بنادے۔
وہ مہینہ جس کی آمد سے پہلے خوف اور فکر کا غلبہ تھا اب وہ مہینہ رخصت ہونے کو ہے۔ عید کی خوشی سے کہیں زیادہ روزوں کی جدائی کا غم ہے لیکن مجھے اس مہینے نے یہ بتایا کہ طلب سچی ہو اور پیاروں کی دعائیں شامل حال ہوں تو بہت بڑے مسائل بھی حل ہوجاتے ہیں۔ ناممکنات کو بھی ممکن کیا جا سکتا ہے۔ بے شک یہ رب العزت کا فضل ہی ہے۔
الحمد للہ نماز تراویح کی باجماعت ادائیگی کی سعادت بھی روزانہ ملی۔ اپنی حد تک نیکیوں کے حصول کے لیے کوششیں بھی کیں۔ اب جب کہ عید اڑتالیس گھٹنے سے بھی کم کے فاصلے پر ہے تو آخرت، حساب کتاب، غزہ کے حالات اور ملکی صورتحال نے فکر کو پراگندہ کر رکھا ہے۔ عید نبی اکرم کی سنت سمجھ کر منانا خوشدلی سے منانا بھی دین کا حصہ ہے تاہم عید تو بچپن کی ہے۔ ہماری عید تو اب رب کی دید سے ہی ہوگی۔
زندہ رہے تو اگلی عید پر لفظوں کا نذرانہ پیش ہوگا وگرنہ یہی بلاگ ہمارا سلام آخر ہے۔
تقبل اللہ منا و منک صالح العمال
الوداع رمضان
12 پر “الوداع رمضان” جوابات
آپ کو اللہ سلامت رکھے۔ آپ کے قارئین کو ابھی کئ رمضان المبارک آپ کے لفظوں کے ،نذرانے، کے ساتھ دیکھنا ہیں۔
آپ جیسا سرمایہ ہمارے جیسوں کے پاس کہاں….!
اللّٰہ آپکو بہترین جزا عطا فرمائے….. آمین.
دعاکرتی ہوں کہ اللّٰہ پاک ہمارےجیسوں کے قلیل سے توشےکو بھی قبول کرلے تو سمجھو سارے دلدّر دور……
"ہماری عید تو اب رب کی دید ہی سے ہوگی”
بہت صحیح عکاسی کی ماشاء اللہ
,ماشاء اللہ۔ بہترین تحریر۔
اللہ تعالی آپکو صحت وسلامتی سے رکھے کہ اہل علاقہ فیضیاب ہوتی رہیں ۔وہ خوبصورت منظر یاد آ گیا جب مسجد شہدا میں وقت پہ پہنچنے کی دوڑ میں جا کر دیکھا کہ ہال تو بھر بھی چکا ہے دروازے کے پاس جگہ ملی تو شکر گزار ہوئی کہ جن کو باہر بیٹھ کر سننے اور ختم القرآن کی بابرکت سعاعتیں نصیب تو ہوئیں ۔
اللہ رب العزت آپکے قرآن سے جڑے وقت کو جنت میں داخلے کا سبب بنا دے ۔آمین
آپکے شاگردوں کو بھی اللہ ایسی توفیق عطا فرمادے
ماشاءاللہ اس تحریر نے بہت کچھ یاد کروا دیا۔اور بہت سارے عملی پہلو کی بھی تذکیر کروا دی گئی ۔بچپن کی یادیں۔۔والدین سے جدائی۔۔اپنے اندر کے جذبات۔۔رحمت خداوندی۔۔رمضان کی آخری ساعتوں کی فضیلت۔۔موت سے قبل موت کی تیاری۔۔اللہ تعالیٰ آپکو صحت کاملہ و عاجلہ مستمرہ عطاء فرمائے اور زور قلم میں اضافہ فرمائے۔اور اس جہد مسلسل کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخش دے۔امین ثم آمین دعا گو
اللہ تعالی اپ سے اگلے کئی سالوں تک بلاگ لکھوائے۔۔۔
عید خوشیوں کے بارے میرے تصورات بھی کچھ اسی طرح سے ہیں۔۔۔
بچپن کی عید مہدی کی خوشبوؤں کے ساتھ چاول کا نوالہ ۔۔۔۔اور چوڑیوں کی کھنک سے دل جٹے بجتے تار اور مسکراتے چہرے۔۔۔بہت یاد اتے ہیں
بہت خوب صورت تحریر لگی مجھے تو،
بہت خوب صورت تحریر لگی مجھے تو، آپ کی تحریر ہمیشہ دل کو چھو جاتی ہے
آپ سب بہنوں کا بے حد شکریہ اللہ سب کو صحت عافیت کے ساتھ زندگی سے فیض حاصل کرنے والا بنائے دعائیں
قانتہ باجی اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ ایمان والی لمبی زندگی دے
ماشاءاللہ بہت خوب انداز بیان پر خلوص میٹھی باتیں
اللہ سبحانہ وتعالی آ پکی صحت میں اور مقبول عمل میں برکت عطا فرمائے آمین