سندھی صوفیا کا ایک سلسلہ ہے راشدی جو سید محمد راشد بن سید محمد بقا کے نام سے موسوم ہے۔ راشدی سلسلے کی بنیاد ان کے صاحبزادے سید صبغت اللہ راشدی پیر آف پگارا اوّل نے رکھی۔ سادات کے اس راشدی خاندان کے پیروکار سندھ کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔
پیرپگارا نے جنہیں بعض پیر پگاڑا بھی کہا جاتا ہے، جس وقت اپنے والد کی روحانی وراثت کو سنبھالا تو اس وقت تک سکھوں کی یلغار سندھ کی حدود تک پھیل چکی تھی۔ دوسری طرف انگریز بھی سندھ پر پوری طرح قابض ہونے کے لیے کوشاں تھے۔
دو مختلف دشمنوں میں گھرے سندھ کو بچانے کے لیے پیر پگارا نے سرفروشوں کی ایک تحریک منظم کی جسے انہوں نے ’ حر‘ کا نام دیا۔ اس وقت سے پگارا پیروں کے مرید ’حر‘ کہلاتے ہیں۔ حروں نے انگریزوں کے خلاف وقفے وقفے سے مزاحمت کی جو سندھ پر انگریزی قبضے کے بعد بھی کافی عرصے تک جاری رہی۔
سلسلہ راشدی کے بانی کے ہم نام اور پگارا سادات کے چھٹے گدی نشین سید صبغت اللہ شاہ راشدی 1909ء میں پیدا ہوئے اور 12 برس کی عمر میں گدی نشین ہوئے۔ انگریزی سامراج سے شدید نفرت انہیں ورثے میں ملی۔
سید صبغت اللہ راشدی پیر صاحب پگارا جنہیں سورھیہ بادشاہ بھی کہا جاتا ہے، ہوش سنبھالتے ہی اپنے اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک حریت کی صف بندی میں مصرو ف ہوگئے۔ یہ تحریک برطانوی سامراج کی نظر میں بہت کھٹک رہی تھی کیونکہ اس تحریک کا مقصد برصغیر میں قابض برطانوی راج سے چھٹکارا تھا۔
پیر پگارا کی قیادت میں حروں کی طرف سے انگریزی استعمار کے خلاف شدت اختیار کرتی ہوئی عسکری کاروائیوں سے پریشان ہوکر انگریزی حکومت نے پیر پگارا کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے گرفتار کرلیا۔
اس مقدمے میں پیر پگارا کی پیروی قائداعظمؒ نے بذات خود کی لیکن انگریزی حکومت نے انہیں 10 سال قید کی سزا سنادی ۔
15 ستمبر 1930ءکو ان کے خلاف مزید جھوٹے مقدمات کا اندراج کیا گیا انہیں بمبئی پریذیڈینسی سے ملحق رتناگری جیل میں منتقل کر دیا گیا، اس کے باوجود برطانوی حکومت پیر پگارا سے خوف زدہ رہی۔ ان خدشات کی بنیاد پر تھوڑے تھوڑے وقفے سے ان کی جیل تبدیل ہوتی رہی۔ پہلے رتناگری پھر راج شاہی اس کے بعد مدنا پور سے علی پور ڈھاکہ منتقل کیا گیا۔
انگریزی حکومت کی تدبیر یہاں بھی الٹی ہوگئی۔ مختلف جیلوں میں رہنے کی وجہ سے پیر سید صبغت اللہ راشدی ان علاقوں کے کئی حریت رہنماﺅں سے رابطے قائم کر چکے تھے جس سے ان کے ولولوں اور منصوبوں کا دائرہ مزیدمضبوط اور وسیع ہوگیا ۔
1936ء میں ناگپور جیل سے رہائی کے بعد پیر پگاڑا جیسلمیر کےراستے سکھر پہنچے تو پورا سندھ اپنے محبوب مرشد اور حریت لیڈر کے استقبال کے لیے اُمڈ آیا۔ عوام کا جم غفیر ان کی زیارت کے لیے بیقرار اور ان کے ایک اشارے پر سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار تھا۔
حضرت پیر صاحب پگارا نے پیر جوگوٹھ پہنچتے ہی حر مجاہدین کی نئے سرے سےصف بندی کا اعلان کر دیا۔ وہ آزادی پسندوں کو کفن یا وطن کا نعرہ دیتے ہوئے نئے عزم اور ولولے سے میدان میں اترے۔
پیر پگارا کی طرف سے نئی تحریک کھڑی کرنے کے بعد انگریز حکومت کے لیے پیر صاحب کو آزاد چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں تھا چنانچہ انہیں24 اکتوبر1941ءکو کراچی سے ایک مرتبہ پھرگرفتار کرکے سیونی کے مقام پر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اس گرفتاری کے باوجود انگریزوں کا سندھ میں امن قائم رکھنے کاخواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ حُرمجاہدین اپنے عظیم مرشد کی گرفتاری پر بپھرے ہوئے شیر کی طرح کاروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے انگریز افسرشاہی اور مخبروں کا جینا حرام ہو چکا تھا۔
انگریز انتظامیہ نے ان کے خلاف ظلم و ستم کی انتہا کردی اور سندھ میں مارشل لاء لگا کر حر ایکٹ نافذ کر دیا۔ سندھیوں کی متعدد بستیاں جلا دی گئیں۔ حروں کو گرفتار کر کے حراستی کیمپوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔ اس کے باوجود انگریز کے لیے تحریک آزادی کو دبانا ناممکن ہورہا تھا۔
انگریزی حکومت نے ہر سخت حربہ اختیار کرنے کے باوجود ناکامی کے بعد سورھیہ بادشاہ پیر سید صبغت اللہ راشدی کو مزاحمت ترک کرنے پر سکھر سے نوابشاہ تک کی ریاست دینے کی پیشکش کی جس کے جواب میں پیر سورھیہ بادشاہ نے کہا ’جب میں سودے بازی کی بات سنتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے جیسے میرے اندر سے حسینیت خارج ہو رہی ہو۔‘ سید صبغت اللہ راشدی سورھیہ بادشاہ نے انگریز کی ہر پیشکش مسترد کر کے تختہ دار پر چڑھنا قبول کیا۔
سندھ دھرتی کے اس بے مثال ہیرو کو 20 مارچ 1943ءکے روز حیدر آباد جیل میں سولی پر لٹکا کرشہید کردیا گیا اور ان کے جسد خاکی کو کسی نامعلوم مقام پر دفن کردیا گیا۔
سورھیہ بادشاہ پیر سید صبغت اللہ راشدی کی شہادت کے بعد ان کے دونوں فرزندوں سید سکندر شاہ اور سید نادر شاہ کو علی گڑھ منتقل کر دیا گیا۔ ان سے محبت کرنے والے ارادت مند وہاں بھی پہنچ گئے تو انگریزوں نے تنگ آ کر دونوں شہزادوں کو برطانیہ منتقل کرنے میں عافیت محسوس کی۔
قیام پاکستان کے بعد پیر آف پگارا کی گدی بحال ہوئی تو شہید سورھیہ بادشاہ کے بڑے فرزند سید سکندر شاہ المعروف شاہ مردان شاہ ثانی 4 فروری 1952 کو پیر آف پگارا کی گدی پر مسند نشین ہوئے۔
شہید سورھیہ بادشاہ پیر سید صبغت اللہ راشدی کی پھانسی کی تیاریوں کا ریکارڈ حیدرآباد جیل میں موجود ہے لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی پھانسی کا ریکارڈ جیل سے غائب کردیا گیا ہے۔
سورھیہ بادشاہ سید صبغت اللہ راشدی کے جائے مدفن کے حوالےسے کسی کو کوئی خبر نہیں تھی۔ کچھ عرصہ پہلے حکومت برطانیہ نے برصغیر کے حوالے سے کچھ رپورٹس شائع کیں۔ ان میں سے ایک رپورٹ سورھیہ بادشاہ کے متعلق بھی ہے۔ اس رپورٹ کےمطابق انہیں حیدر آباد جیل میں پھانسی دینے کے بعد ایک گمنام جزیرے اسٹولا میں دفن کیا گیا۔
اسٹولا جزیرہ پاکستان کی سمندری حدود میں پسنی سے چھ گھنٹے کی مسافت پر ایک چھوٹی سی بنجر پہاڑی پر مشتمل بے آباد جزیرہ ہے۔ پسنی و گوادر کے مچھیرے بعض اوقات اس جزیرے پر رات گزارنے آتے ہیں۔ اس جزیرے میں ایک قبر ہے جس پر مزار بنا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ملحق ایک مسجد بھی موجود ہے۔
سورھیہ بادشاہ سید صبغت اللہ راشدی سندھ دھرتی کے ایک بے مثال ہیرو ہیں جنہیں انگریزوں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی گمنام کئے رکھا۔
سندھ کی آزادی کی تحریک میں سورھیہ بادشاہ اور ان کے لگ بھگ 35 ہزار پیروکاروں کا خون اور ان گنت قربانیاں شامل ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ انگریز سندھ دھرتی سے رخصت ہوگیا اور سندھ آزاد ہوگیا لیکن اس پر آزادی کے لیے قربانیاں دینے والوں کے ورثاء کی بجائے انگریزوں کے پروردہ غلام اور دھرتی کے غدار قابض چلے آرہے ہیں۔
سندھ دھرتی کے عوام پر فرض ہے کہ وہ سندھ کی آزادی کے لیے قربانیاں دینے والوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور وفاقی و صوبائی حکومت سے اپنے ہیرو شہید سورھیہ بادشاہ کے مدفن تک رسائی ممکن بنانے کا مطالبہ کریں۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت دھرتی کے بے مثال ہیرو شہیدسورھیہ بادشاہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کا تذکرہ قومی نصاب میں شامل کرے۔
ہم سندھ دھرتی کے گمنام کردیے گئے ہیروز ہوشو شیدی شہید اور سورھیہ بادشاہ شہید کے نام اور جدوجہد کو اجاگر کرنے پرچئیرمین پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی پاکستان جناب الطاف شکور کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
( جناب خلیل احمد تھند پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین ہیں۔)