مشکوة المصباح کے حصہ کتاب الصوم(139) میں بخاری شریف کے حوالے سے سیدنا أبو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ’رسول اللہﷺ کے سامنے ہر رمضان المبارک میں ایک مرتبہ قرآن پیش کیا جاتا تھا مگر جس سال آپ نے انتقال فرمایا، اس والے رمضان المبارک میں آپ کو دوبار قرآن سنایا یا، دہرایا گیا‘۔
قرآن پاک کا رمضان المبارک میں تلاوت کا خاص اہتمام اور تراویح میں قرآن کا دور کرنا ساری امت کا مشترکہ محبوب عمل ہے اور ساری امت مسلمہ انفرادی و اجتماعی طور پہ اس عمل پہ متفق ہے۔
قرآن پاک دستور زندگی ہے۔ وہ زندگی کسی فرد کی ہو یا پوری امت کی، اس لحاظ سے قرآن پاک ایسا آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر اپنے کردار کا رخ متعین کرنا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ اور اسی آئینے میں اپنی روحانی شخصیت کے خدو خال کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
قرآن پاک پوری انسانیت کے لیے بھی ایک آئینہ کی حیثیت رکھتا ہے جس میں ہر انسان کو اپنی شکل نظر آتی ہے (فیہ ذكركم)، اس قد آدم آئینے میں ہر انسان اپنی پوری شخصیت کی ظاہر ی و باطنی اچھائی، برائی کا جائزہ لے سکتا ہے، اور اس آئینے کے ساتھ ہر انسان کا سلوک ہی انسان کی عقل وفہم کا پیمانہ مقرر کر دے گا۔
آئینہ کے سامنے انسان اس لیے کھڑا ہوتا ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی کو دیکھ کر خوش ہو۔ اس خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے کوئی اقدام کرے۔ روزانہ جائزہ لے کہ کہیں اس خوبصورتی میں کمی واقع تو نہیں ہو رہی۔ اگر کچھ بھی فرق محسوس ہو رہا ہے تو فکرمند ہو کر اس کے ازالے کی کوشش کرے۔ اگر آئینہ برائی بتا کر سچ بول رہا ہے تو اس کے بیان پہ انسان کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟؟؟
آئینہ تو بے لاگ رائے دے رہا ہے۔ آئینے پہ غصہ کرنا، آئینہ بنانے والے یا اس کو انسان کے سامنے لانے والے سے جھگڑنا آئینے کی اصلیت پہ کچھ بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اگر آئینہ کسی کی برائی دکھاتا ہے، دیکھنے والا اس میں آئینے کو قصوروار ٹھیراتا ہے اور آئینے سے منہ موڑتا ہے، اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی کم عقلی کا اعلان کرتا ہے۔
جب قرآن پاک نازل ہوا تو اس آئینے میں ہر کسی نے اپنی شکل دیکهی۔
کسی نے اپنے خوبصورت دل کو اور زیادہ حسن بخشا اور صدیق اکبر کہلایا۔ کسی نے اپنے دل کی بد صورتی کو دیکھ کر آئینے کو جھٹلاتا۔ انا کا مسئلہ بنا کر دل میں بغض اور کینہ رکھا اور ابو الحکم سے ابو جہل کہلایا۔ یہودیوں نے اپنی بد صورتی کو عیاں ہوتے دیکھ کر حسد کیا۔ دل میں جلن اور بغض لے کر آئینے کو میلا اور گدلا کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ اور منہ کی کھاتے رہے۔ دوسری طرف مومنوں نے اس آئینے کی ہر بات کو مانا، اس میں اپنی شکل کو ہر زاویے سے پرکھا اور کامیابی کی راہ پہ گامزن رہے ( قد افلح من زکھا) اور جو اس آئینے کی بات سے انحراف کرتے رہے وہ ناکام رہے ( وقدخاب من دسھا)
آئیے! اس رمضان المبارک میں اس آئینے کو اپنے سامنے رکھ کر اپنے حسن وجمال کا جائزہ لیں۔ آئینہ بہترین مخلص ناصح ہوتا ہے۔ قرآن نصیحت ہے سارے جہان کے لیے (ولقد يسرنا القرآن لذكر فھل من مدكر)
نصیحت قبول کرنے کے لیے قلب سلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحتمند دل ہی نصیحت قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے اور نصیحت کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اسی لیے کہ اپنی زندگی میں ہی جنت کی خوشخبریاں حاصل کر لینے والے صحابہ کرام بھی خود کو نصیحت سے بے نیاز نہیں سمجھتے تھے۔ دل کی جو بیماری انسان کو نصیحت قبول کرنے سے دور رکھتی ہے وہ کینہ ہے۔ جب تک کافروں، مشرکوں، منافقوں کے دلوں میں کینہ رہا، وہ ہدایت سے دور رہے۔ جس لمحے جس کے دل سے کینہ دور ہوا اور اس پاک لمحے میں نصیحت کانوں کے ذریعے دل میں اتری کامیابی کی راہیں کشادہ ہو گئیں۔ آج یہ کامیابی کی راہیں ہر طرف سے بند ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک دلوں کی بہار نہیں بن رہا۔ دل میں بہار اس لیے نہیں آرہی کہ قرآن پاک کو سکھانے والے اکثردلوں میں کینہ و بغض کی گھٹن، تنگی اور حبس ہے۔ نصیحت و اصلاح سے خود کو بے نیاز سمجھنا ہے۔ بڑے برتن میں جیسا پانی ہوگا، پیاسے لوگوں تک ویسا ہی پانی پہنچے گا۔ قرآن پاک ہاتھ میں اٹھا کر مسند درس وتدریس پہ تشریف رکھنے والے اس قرآنی آئینے میں اپنے دلوں کے میل کی موٹی تہوں پہ غور کریں اور کینہ، حسد، تکبر، باہمی بغض وعناد، رقابت، دنیا طلبی جیسے موذی امراض سے چھٹکارا پائیں۔ اپنے دل کی تنگی دور کرکے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں کو آئینہ بن کر دور کریں۔ جب علماء کے دل روشن ہوں گے اور جب مومن علما ایک دوسرے کا آئینہ بن جائیں گے تو دنیا روشن ہو جائے گی۔ اسی روشنی میں عوام کو آسانی سے راہنمائی ملے گی۔ باہم دلوں، گھروں، اداروں، ملکوں میں امن و سکون ہوگا۔ ان شااللہ ۔
اے اللہ! قرآن پاک کو ہمارے آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سرور اور اعمال کا نور بنا دے۔ ہمیں قرآنی آئینے میں اپنی شخصیت کو دیکھنے، پرکھنے اور سنوارنے کے شوق و رغبت عطا فرما دے۔ آمین
اللھم اغفرلنا ذنوبنا و اسرافنا فی امرنا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین۔ اللھم کفرعنا سیآتنا و توفنا مع الأبرار۔ آمین۔
ایک تبصرہ برائے “قرآن مجید: ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنا آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں”
امین۔۔۔۔ بہت خوب صورت ترکیب ۔۔۔ قرآن قد آدم ائینہ۔۔۔۔۔