خلیل-احمد-تھند، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی

ناؤ ابھی منجھدار میں ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نئی نسل میں شدید ردعمل کے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنی سیاست کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے تصور سے باہر نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں گویا انتہا دیکھنا چاہتی ہیں۔

الیکشن 2024 کے بعد ایک مرتبہ پھر مرکز میں شہباز شریف وزیر اعظم ہوں گے اور ان کی بھتیجی وزیراعلیٰ پنجاب۔ دوسری طرف بلاول کی جگہ زرداری آگئے ہیں۔ ان دونوں خاندانوں کی یہی حرکتیں ہیں جو عمل سے یکسر عاری عمران خان کو ہیرو بنائے ہوئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ شریف اور بھٹوز کئی دہائیوں سے اقتدار پر قابض چلے آرہے ہیں اس لیے ملکی مسائل کے ذمہ دار بھی یہی تصور کیے جائیں گے لیکن حکمرانی کے جو لچھن ان دو خاندانوں کے رہے ہیں، عمران خان بھی اپنے دور اقتدار میں ان سے کسی بھی طرح مختلف ثابت نہیں ہوئے تھے۔ وہ اگر گاڑیوں کا بڑا پروٹوکول لے کر قوم کے وسائل برباد کررہے تھے تو خان صاحب ان سے چار قدم آگے بڑھ کر اپنے گھر سے وزیر اعظم ہاؤس تک ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتے رہے ہیں۔

شریف اور زرداری قرض لے کر قوم کو مقروض کرتے رہے ہیں تو خان صاحب نے بھی اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں اتنا قرض لیا جتنا قیام پاکستان سے ان کے اقتدار میں آنے تک تھا۔ شریف اور زرداری خود اے ٹی ایم تھے تو خان صاحب نے دوسروں کی اے ٹی ایم کو اپنا بنایا ہوا تھا۔ شریف اور زرداری اگر چور تھے تو خان صاحب کو بھی آٹا، چینی چوروں سے محبت تھی۔ شریفوں اور زرداریوں کے ارد گرد کرپٹ الیکٹیبلز تھے تو خان صاحب کے ارد گرد بھی ان سے زیادہ بدنام الیکٹیبلز تھے۔ تقابل کرتے جائیں تو باقی امور میں بھی کچھ مختلف نظر نہیں آتا۔

پی ڈی ایم جماعتیں اگر اقتدار کے لیے ہلکان ہو کر عدم اعتماد کی تحریک نہ لاتیں تو عمران خان کی سیاست اپنے پہلے دور ہی میں دفن ہو جاتی۔ عدم اعتماد کے بعد اگر یہ اقتدار پرست اپنے کیسز ختم پر توجہ دینے کی بجائے مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کو کچھ ریلیف دینے کی کوشش کرتے تو ایسی صورت میں بھی عمران خان موجودہ پوزیشن میں کبھی نہ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ متوازن سوچ کے حامل ووٹرز کے سامنے دونوں خاندانوں کے مقابل عمران خان کے علاوہ کوئی پاپولر آپشن ہی نہیں ہے۔

الیکشن 2024 میں عمران خان کو دراصل کارکردگی کی بجائے اسی ردعمل کا ووٹ پڑا ہے۔ اگر ان کی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم نہ کیا جاتا اور وہ جیل کی بجائے آزادانہ الیکشن مہم چلا رہے ہوتے تو نتائج اس سے بہت مختلف ہوتے۔

مولانا فضل الرحمان کے علاوہ پی ڈی ایم جماعتیں ایک مرتبہ پھر مشترکہ حکومت بنا رہی ہیں۔ یہ حکومت اگر سابقہ ڈیڑھ سالہ حکومت کا تسلسل رہی تو بہت جلد شدید عوامی ردعمل پیدا ہوگا جس کا سامنا کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس ردعمل کی اصل طاقت نوجوان ہوں گے۔

مزید یہ کہ محض سانجھے دکھ کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، ٹی ایل پی بھی عمران خان کے کنٹینر پر کھڑی ہوں گی۔  لہذا پی ڈی ایم حکومت کے پاس عوام کو ڈیلیور کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔

ہم جس بات کو تسلسل سے بیان کرتے آرہے ہیں وہ حقیقی جمہوریت اور جمہوری قیادت کا فقدان ہے۔ اس خلا کو بے پناہ مقبولیت کے باوجود عمران خان اور ان کے ساتھی پُر نہیں کر سکے۔ اور مسقبل میں بھی اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ہماری خواہش ہے کہ ہماری نئی نسل عصبیت کے مرض میں مبتلا ہونے کی بجائے شفاف جمہوریت اور جمہوری قیادت کے تصور کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لے تو یہ امر پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگا۔

ہماری سیاسی جماعت پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کا حجم اگرچہ چھوٹا ہے لیکن سسٹم اور قیادت کی اصلاح کے لیے ہم نمایاں  کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔

( جناب خلیل احمد تھند پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین ہیں۔)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “ناؤ ابھی منجھدار میں ہے”

  1. نگہت سلطانہ Avatar
    نگہت سلطانہ

    حقیقت یہ ہے کہ متوازن سوچ کے حامل ووٹرز کے سامنے دونوں خاندانوں کے مقابل عمران خان کے علاوہ کوئ پاپولر آپشن ہی نہیں ہے
    جناب خلیل احمد صاحب! مذکورہ بالا فقرے آپ کی تحریر کے ہیں۔۔
    آگے آپ رقمطراز ہیں ،، الیکشن 2024 میں عمران خان کودراصل اسی رد عمل کاووٹ پڑا۔۔
    خلیل احمدصاحب! دونوں بیانات میں تضاد ہے۔ کیونکہ اوپر آپ عمران خان کے ووٹرز کوگویا متوازن سوچ کے حامل قرار دیتے ہیں
    جبکہ نیچے دوسرے بیان میں آپ کہتے ہیں،،رد عمل کا ووٹ پڑاہے،،
    سوچیئے تو کیا ردعمل کے طور پہ ووٹ ڈالنا متوازن سوچ ہے؟؟ سسٹم اور قیادت کی اصلاح سے پہلے اس پر غور کیجیئے گا کہ ووٹ ردعمل نہیں ہوتا ووٹ بھاری امانت ہے۔ بگڑیے ہوئے کرپٹ گورنس نے ووٹ کا معنی بتایا نہ ہی سوچ متوازن رہنے دی اس راہ گم کردہ قوم کی۔
    واضح رہے یہاں سسٹم وقیادت کی اصلاح کی نہیں کلی طور سسٹم کو بدلنے کی اور مکمل اسلامی نظام نافذ کرنے کی ضرورت ہے
    امید ہے غور فرمائیں گے شکریہ