احسان کوہاٹی
دہائیوں پہلے کی بات ہے اچھرہ لاہور کی ایک مجلس میں ایک نوجوان نے ایک ایسے عمر رسیدہ فربہی مائل شخص کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جو علم و تدبر، حکمت و بصیرت اور تقویٰ میں اس سے کہیں آگے تھا بلکہ وہ اسے اپنا امیر اور راہ نما بھی مانتا تھا۔ اس کے باوجود نرم لہجے میں اس کا سوال ایسا سخت تھا کہ وہاں موجود افراد چونک اٹھے۔ عجیب عدالت تھی جو مہمان استغاثہ نے میزبان کے گھر پر لگادی۔ مجلس میں موجود افراد کی نظریں اس نوجوان کے بعد میزبان کے چہرے کا طواف کرنے لگیں کچھ کی نظریں اس بزرگ کے چہرے پر ناپسندیدگی کا عنصر کھوجنے لگیں اور کچھ پیشانی پر پڑنے والے بل گننے کا انتظار کرنے لگیں لیکن میزبان نے اسے اپنی ہتک جانا نہ مضطراب ہو کر پہلو بدلا، تحمل سے مجلس میں پھیلی خامشی کو سمیٹا اور گویا ہوا۔
اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھائی جائے، اس مجلس کا تعارف بھی لے لیں۔ وہ مجلس اپنے وقت کے عظیم مفکر، مرشد و امام سید ابوالاعلیٰ مودودی کے گھر پر تھی۔ مولانا مودودی نے اپنے ہی گھر کے ایک گوشے میں جماعت اسلامی کا دفتر بنا رکھا تھا۔ وہیں اجلاس بھی ہوا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک اجلاس میں جماعت کا ایک نوجوان کارکن کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا۔’کل میرا یہاں سے گزر ہوا تو رات اس گوشے میں بجلی کا بلب جلتے دیکھا۔ یہ اسراف ہے۔ بتایا جائے کہ بلب کیوں روشن کیا گیا اور اس کا بل کون دیتا ہے؟‘
مولانا نے تحمل سے سوال سنا اور نوجوان کی سرزنش کی نہ طنز کیا کہ میرے گھر میں آکر مجھ سے ہی سوال کرتے ہو! بلکہ انہوں نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا ’ گھر کا یہ کونا الگ تھلگ سا ہے، پیچھے گلی بھی سنسان رہتی ہے، کچھ مشکوک لوگوں کی آمد رفت بھی دیکھی گئی، چوری کا دھڑکا تھا، اس لیے یہ بلب یہاں لگا دیا گیا تاکہ روشنی رہے اور اس کا بل جماعت اسلامی نہیں میں ذاتی مصارف سے ادا کرتا ہوں‘۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ اسی طرح سوال اٹھانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ انہوں نے اور ان کے بانی ارکان ساتھیوں نے احتساب کو جماعت کے منشور کا لازمی اور زندہ حصہ بنا دیا۔ جماعت میں احتساب مالی معاملات ہی میں نہیں ہر چھوٹی بڑی مہم کے بعد بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ اب یہاں بھی پہلے والا معاملہ نہیں رہا تاہم پھر بھی دم غنیمت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ 2024 کے انتخابات میں بدترین شکست پرجماعت اسلامی کی مجلس عاملہ اپنی قیادت کی گرفت کرے گی؟ امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے 12 فروری کو اس ہزیمت پر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جماعت کی سربراہی سے استعفٰی دے دیا ہے ان سے پہلے قاضی حسین احمد بھی 1993 میں ایسی ہی شکست کے بعد استعفیٰ دے چکے ہیں بے شک یہ اعلیٰ ظرفی ہے لیکن محض استعفیٰ کافی ہے ؟ جماعت اسلامی کو ان وجوہات تک پہنچنا ہوگا جس نے اسے اس حال پر پہنچا یا کہ گذشتہ قومی اسمبلی کی اک اکلوتی سیٹ بھی نہ رہی۔
یہ بھی پڑھیے
سراج الحق کی عوامی مقبولیت میں اضافہ لیکن جماعت اسلامی پیچھے کیوں؟
کراچی میں جماعت اسلامی کی واپسی
سیاست پیسے کا کھیل: جماعت اسلامی پاک، باقی کیوں نہیں؟
سراج الحق صاحب کے زہد و تقویٰ پر کوئی شک نہیں لیکن جماعت اسلامی اس نہج پر پہنچی بھی تو ان کی سربراہی میں ہے انتخابی شکست میں دھاندلی کا عنصر اپنی جگہ لیکن دھاندلی نہ بھی ہوتی تو جماعت اسلامی نے کس صوبے میں حکومت بنا لینی تھی؟ حقائق تلخ ہیں لیکن سامنا کرنا ہوگا فرد کا فرد سے رابطہ کبھی جماعت اسلامی کی بڑی قوت تھا نہ رہا یہی ربط میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں بھی اس کے اثرو نفوذ کا باعث تھا۔ جماعت اسلامی کے شعبہ نشرو اشاعت نے پاؤں پر مہندی لگالی اور یہ ذمہ داری واٹس ایپ کے گروپ میسجز سے پوری کرنے لگے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ آگے چلیں اور بتائیں کہ کراچی اور گوادر کے سوا کوئی شہر ہے جہاں جماعت اسلامی نے لوگوں کو متوجہ کیا ہو؟ بجلی کے بلوں کا معاملہ ہو یا گیس کی قلت کا؟ طوفانی بارشیں ہوں یا ادھڑی سڑکیں، جماعت اسلامی کراچی کی سب سے موثر آواز بن کر سامنے آئی۔ انہوں نے مقامی ایشوز پر تحریکیں چلائیں اور لوگوں کو اعتماد دیا کہ وہ جماعت پر بھروسہ کریں۔
اسی طرح گوادر میں مچھیرے کے بیٹے ہدایت الرحمٰن نے لاپتہ افراد سے لے کر فشنگ ٹرالر سے مچھلیوں کے ناجائز شکار تک وہ تحریک چلائی کہ گوادر ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ مولانا ہدایت الرحمٰن نے بھی لوگوں کا اعتماد نہ توڑا، جیل گئے، مقدمے بھگتے لیکن اپنی زبان تالو سے نہ لگائی۔ عوام میں رہے، رابطے میں رہے۔ گوادر نے بھی اس مچھیرے کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور بلوچستان اسمبلی پہنچا دیا۔
اب گننا شروع کریں۔ حیدرآباد سے کوئٹہ تک کس شہر میں جماعت اسلامی عوام کی آواز بنی؟ لاہور، گجرات، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، راول پنڈی، سیالکوٹ، بہاولپور، پشاور، کوہاٹ، بنوں، کوئٹہ، زیارت، قلات، خضدار اور لسبیلہ میں کیا کوئی مقامی ایشو نہیں تھے؟
لیکن محنت کون کرے حافظ نعیم الرحمٰن اور مولانا ہدایت الرحمٰن کے سوا کسی اور شہر کے امیر کا نام آپ کے ذہن میں آتا ہے؟ اگر آپ جماعت کے کارکن نہیں اور عام شہری ہیں تو مجھے یقین ہے آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔
جو ہوا، سو ہوا۔ جماعت اسلامی کو اب نئے خون اورانقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ مان لینا چاہیے کہ زہد و تقویٰ، صوم صلوۃ، ذکر و فکر ہی کافی نہیں۔ جماعت کے پاس اہل نوجوانوں کی کمی نہیں۔ انہیں موقع ملنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے اگلے امیر کا انتخاب جلد ہونا ہے جس کے لیے تین ناموں میں سراج الحق صاحب کے ساتھ ساتھ حافظ نعیم الرحمٰن اور لیاقت بلوچ کا نام بھی شوریٰ نے بطور تجویز کے ووٹروں یعنی ارکانِ جماعت کے سامنے رکھا ہے۔ ان تینوں افراد میں سراج صاحب کے پاس سادگی اور زہد، لیاقت بلوچ صاحب کے پاس تجربہ اور سیاسی سوجھ بوجھ جبکہ حافظ نعیم الرحمٰن کے پاس اہداف کی جانب جارحانہ پیش قدمی، جوشیلی خطابت و قیادت اور کراچی جماعت کی بیداری کی story success ہے۔ وہ نوجوانوں میں خاصے مقبول بھی ہیں۔ دیکھتے ہیں اس مشکل وقت میں بیچاری جماعت اسلامی کے لیے کیا تجویز ہوتا ہے۔!
ایک تبصرہ برائے “الیکشن 2024 اور جماعت اسلامی”
بہت عمدہ تحریر ۔۔۔۔ فکر انگیز۔۔۔۔ واقعی بات تو سوچنے کی ہے۔۔۔۔۔۔