سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اس وقت شدید مشکلات کی شکار ہے۔ گرفتاریاں، مقدمات، الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہونا، انتخابی نشان سے محرومی، انتخابی مہم چلانے میں مشکلات ہی دراصل وہ رکاوٹیں ہیں جو مرکز میں ساڑھے تین برس تک حکمرانی کرنے والی جماعت کو درپیش ہیں۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ عام انتخابات جیت جائے گی۔
گیلپ پاکستان کے زیر اہتمام رائے عامہ کے جائزے کے مطابق اس وقت عمران خان ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی عوامی مقبولیت کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو اکثریت مل جائے گی؟
ممتاز تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس مقبولیت تو ہے لیکن اس کے پاس الیکشن مشینری کتنی ہے، اس کا اندازہ آٹھ فروری کو ہی ہو سکے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں تقریبا تین سو پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے پولنگ ایجنٹ متعین کر سکے گی یا نہیں۔ ‘‘
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ اس الیکشن کا صرف ایک ہی ‘انڈیکیٹر‘ ہے اگر انتخابات میں پچاس سے ساٹھ فی صد ووٹ پڑے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کا ووٹر باہر نکلا ہے اور اسے فائدہ ہوگا لیکن اگر یہ شرح چالیس اور پچاس فیصد کے درمیان رہی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنے ووٹروں کو نہیں نکال پائی۔
اگر تحریک انصاف اپنے حامی ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنز تک پہنچانے اور ان کا ووٹ کاسٹ کرانے میں کامیاب ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کو کس قدر کامیابی حاصل ہوگی؟
عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل شیر جان کا دعویٰ ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی تقریباً 116 نشستیں حاصل کرنے کی امید کر رہی ہے۔ غیرملکی میڈیا ڈوائچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’ہم 149 نشستوں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن انتخابی نشان چھننے کے بعد اب ہماری توجہ 116 سیٹوں پر ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خیبر پختونخوا سے پچاسی فیصد نشستیں، سندھ سے تقریباً بیس نشستیں، جس میں کراچی سے 16 نشستیں بھی شامل ہیں جبکہ بلوچستان میں بھی کچھ نشستیں ہمیں مل جائیں گی‘۔‘‘
فیصل شیر جان نے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں بھی انہیں بھاری ووٹوں سے کامیابی ہوگی۔
’ہماری کوشش ہے کہ ٹرن آوٹ کم از کم 55 فیصد رہے اور انتخابی فہرستوں میں 23 ملین نوجوان ووٹروں کے اندراج کے بعد ہمیں امید ہے کہ ہمیں بڑے پیمانے پہ ووٹ ملیں گے‘۔
ایک تبصرہ برائے “تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی 116 نشستیں ملنے کی امید”
سہیل وڑائچ صاحب کا تجزیہ درست ہے کہ یہ فیصلہ 8 فروری کو ووٹر کی تعداد دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ دعویٰ کرنے پہ کوئی پابندی نہیں ۔۔۔