پاکستان میں انیس سو ترانوے کے عام انتخابات چھ اکتوبر کو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات سے قریباً چار ماہ قبل ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ اس کا نام تھا ’ پاکستان اسلامک فرنٹ‘۔ یہ جماعت اسلامی کا سیاسی ونگ تھا۔ قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی پہلی بار اپنا سیاسی ونگ بنا کر انتخابات میں حصہ لینے کا تجربہ کر رہی تھی۔
دراصل قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کی چھ سال تک امارت سنبھالنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ جماعت اسلامی کی دستوری پابندیوں کے باعث بڑی تعداد میں لوگ جماعت اسلامی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ قاضی صاحب کا خیال تھا کہ جماعت اسلامی اور اس کے باہر موجود تمام ہم خیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے، اس کے نتیجے میں یقیناً ملک میں تبدیلی آ سکے گی۔
اس سے پہلے جماعت اسلامی جمہوری اتحاد( آئی جے آئی) کا حصہ تھی جس کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی تھے تاہم عملاً سربراہ میاں نواز شریف تھے۔ آئی جے آئی انیس سو نوے کے عام انتخابات جیت کر ملک کی حکمران بن چکی تھی۔ جماعت اسلامی اس اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت تھی۔ حکومت سازی کے موقع پر میاں نواز شریف نے جماعت اسلامی سے نام مانگے جنھیں کابینہ میں شامل کیا جائے۔ قاضی حسین احمد نے انکار کردیا۔
قاضی صاحب کا کہنا تھا کہ جماعت کابینہ میں شامل ہونے کے بجائے حزب احتساب کے طور پر کام کرے گی۔ جماعت اسلامی کا یہ فیصلہ درست تھا یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔ تاہم جماعت اسلامی چاہتی تھی کہ اسلامی جمہوری اتحاد نے قوم سے جن وعدوں کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی ہے، وہ پورے کیے جائیں۔
محض دو برس بعد جماعت اسلامی نے یہ کہہ کر اسلامی جمہوری اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی کہ میاں نواز شریف کی حکومت قوم سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر رہی ہے۔ اور پھر اس کے ایک سال بعد قاضی حسین احمد نے ’پاکستان اسلامک فرنٹ‘ قائم کرلیا۔
پاکستان اسلامک فرنٹ کو قیام کے فوراً بعد عام انتخابات کے لیے میدان میں اترنا پڑا۔ چار ماہ زیادہ عرصہ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود قاضی حسین احمد بہت پرجوش تھے۔ انھوں نے ایک روز میں پچپن جلسوں سے خطاب کا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے نجات حاصل کرے اور پاکستان اسلامک فرنٹ کو متبادل قیادت کے طور پر اعتماد فراہم کرے۔ بقول جناب عرفان صدیقی قاضی حسین احمد مرحوم نے ’پاکستان اسلامک فرنٹ‘ کے نام سے ایسا سماں باندھا کہ آنکھیں چُندھیانے لگیں۔ ’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘ کے نعروں سے دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکنے لگی۔
عام انتخابات سے قبل جناب ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے ادارے ’ گیلپ پاکستان‘ نے رائے عامہ کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ معاشرے میں پاکستان اسلامک فرنٹ کو صرف تین فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے، اسے قومی اسمبلی کی تین ہی سیٹیں میسر آئیں گی۔
اس سروے رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد جماعت اسلامی کے لوگوں نے گیلپ پاکستان کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار نہ کیا۔ تاہم جب عام انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو گیلپ پاکستان کی رپورٹ درست ثابت ہوئی۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کو تین فیصد ہی ووٹ اور تین ہی سیٹیں ملیں۔
یہ تو ہوگئی ایک بات۔ اب دوسری بات پڑھ لیجیے۔
یہ بھی پڑھیے
سید منور حسن کا خواب جسے سراج الحق نے تعبیر دی
جماعت اسلامی کی سیاست اور نئے حالات
کیا حل صرف جماعت اسلامی ہی ہے؟
امسال جنوری میں یعنی آٹھ فروری کے عام انتخابات سے محض ایک ماہ قبل ’گیلپ پاکستان‘ نے ایک بار پھر رائے عامہ کے جائزہ کی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس میں جناب عمران خان کی عوامی حمایت 57 فیصد بتائی ہے جبکہ جناب نواز شریف کی 52 فیصد۔ ان دونوں رہنماؤں کی گھٹتی، بڑھتی مقبولیت قابل فہم ہے۔
رپورٹ میں باقی سیاسی رہنماؤں کی مقبولیت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس میں بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کی عوام میں مقبولیت 35 فیصد ہے۔ اور جناب سراج الحق مقبولیت کے اس گراف میں 34 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں۔
یہ بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہے کہ جماعت اسلامی جسے نہ تین میں شمار کیا جاتا ہے نہ تیرہ میں، اس کے سربراہ کیسے مقبولیت میں چوتھا نمبر حاصل کرسکتے ہیں! اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے ایک اور اہم بات یہ بھی جان لیجیے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی مقبولیت کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ جون دو ہزار تئیس میں وہ 36 فیصد لوگوں کے پسندیدہ تھے تاہم جنوری دو ہزار چوبیس یعنی عام انتخابات سے ایک ماہ پہلے ان کی مقبولیت کی شرح 35 فیصد رہ گئی۔ آٹھ فروری تک ان کی مقبولیت کی شرح مزید گرے گی یا بلند ہوگی، فی الحال کچھ کہنا ممکن نہیں۔
جون دو ہزار تئیس میں ’گیلپ اینڈ گیلانی پاکستان‘ ہی کے سروے کے مطابق تحریک انصاف 59 فیصد مقبول تھی جبکہ پی پی پی 42 فیصد، تحریک لبیک 41 فیصد، مسلم لیگ ن 38 فیصد، جماعت اسلامی 31 فیصد۔ جے یو آئی ایف اور قاف لیگ 22، بائیس فیصد۔ عوامی نیشنل پارٹی 21 فیصد اور ایم کیو ایم 20 فیصد۔
جنوری دو ہزار چوبیس کے سروے میں تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی مقبولیت کا سیلاب اترنے لگا ہے۔ اب وہ 28 فیصد پر ہے۔پہلے 38 فیصد تھی۔ مولانا فضل الرحمن 27 فیصد اور ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کی مقبولیت کی شرح 16 فیصد ہے۔
جناب سراج الحق کی مقبولیت صوبہ پنجاب میں بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ ہے۔ وہاں سراج الحق کو 36 فیصد کے ساتھ تیسری اور بلاول بھٹو کو 34 فیصد کے ساتھ چوتھی پوزیشن حاصل ہے، تاہم سراج الحق صاحب کی جماعت اسلامی کی پنجاب میں مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے البتہ وہ خیبر پختون خوا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی نہ ہونے کے برابر۔
سوال یہ ہے کہ جناب سراج الحق کی ذاتی مقبولیت میں کیوں اضافہ ہورہا ہے؟
پاکستان میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ شخصیات کا بول بالا ہوتا ہے، اسی لیے جناب سراج الحق کو جماعت اسلامی کی نسبت زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ سروے رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ سندھ، خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں کس سیاسی لیڈر کو کس قدر پسندیدگی حاصل ہے۔ اس حوالے سے بھی مواد میسر ہوتا تو بات مزید واضح انداز میں کی جاسکتی تھی۔
رہی بات جناب سراج الحق کی مقبولیت کی، میری دانست میں ان کا بیانیہ قبولیت حاصل کر رہا ہے جس میں وہ تینوں بڑی جماعتوں کو رگیدتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور بلاول بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی حکمرانی کو برسوں تک دیکھ چکے ہیں۔ اور جناب عمران خان کو بھی ساڑھے تین برس تک دیکھ لیا۔ انھوں نے لوگوں سے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہ کیے نتیجتاً لوگ عمران خان سے بھی متنفر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عمران خان کو ایوان اقتدار سے نکالا گیا تو 57 فیصد پاکستانیوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ 43 فیصد کو ان کی رخصتی اچھی نہیں لگی تھی۔
لوگوں کو امید تھی کہ شہباز شریف حکومت عمران خان کے دیے ہوئے زخموں پر مرہم رکھے گی لیکن شہباز شریف حکومت نے پاکستانیوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا، عمران خان کی نسبت زیادہ چھڑکا حتیٰ کہ مرچیں بھی چھڑک دیں۔
اس سب کچھ کے نتیجے میں لوگ تینوں بڑی جماعتوں سے متنفر ہوئے۔ البتہ ان کے ذہنوں میں یہی خیال غالب ہے کہ یہی تینوں جماعتیں بڑی ہیں، یہی بڑی رہیں گی۔ کسی چوتھی جماعت کو برسراقتدار آنے نہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ یہی خیال انھیں کسی دوسری جماعت کے بارے میں مزید سوچنے اور پھر اس پر عمل کرنے نہیں دیتا۔ اور یہی رکاوٹ ہے سراج الحق اور ان کی جماعت اسلامی کی راہ میں۔ ورنہ سراج الحق کو پسند کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے، اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اگر جماعت اسلامی لوگوں کا یہ خیال بدل دے کہ جماعت اسلامی برسراقتدار نہیں آ سکتی یا اسے کوئی اقتدار میں آنے نہیں دے گا تو وہ سیاسی میدان میں پیش قدمی کرسکتی ہے۔
ایک تبصرہ برائے “سراج الحق کی عوامی مقبولیت میں اضافہ لیکن جماعت اسلامی پیچھے کیوں؟”
بہت عمدہ تجزیہ۔۔۔۔۔۔۔ تاریخی حوالوں اور لیڈران کے تقابلی جائزے سے صورت حال واضح ہو گئی۔۔۔۔ اور یہ تجویز حاصل کلام ۔۔۔ کہ جماعت اسلامی لوگوں کو باور کرانے کہ بر سر اقتدار آ سکتی ہے۔۔۔