خلیق رباّنی انجم، رجڑ:
قاضی حسین احمدؒ مرحوم و مغفور کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ اُس کے بارے میں کچھ لکھنا جغادری ادیبوں اور لکھاریوں کا کام ہے۔ اُن کے بارے میں ملک کے مشہورومعروف اور چوٹی کے لکھاریوں،قلم کاروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ میں تو یہ چند سطورصرف اور صرف قاضی حسین احمدؒ کے عقید ت مندوں میں اپنا نام شامل کروانے کے لیے لکھ رہا ہوں۔
قاضی حسین احمدؒ کو اکثر اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعات میں دیکھتے اور سنتے تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ، جماعت اسلامی اور ملک کے مشہور ومعروف اخبارات، رسائل و جرائد میں اُن کی تحریریں پڑھتے تھے۔ پروفیسر غفور احمدؒ کی وفات پر، ان کے بارے میں قاضی حسین احمدؒ کی تحریر پڑھی تھی۔ اس میں قاضی حسین احمدؒ نے اُن کی پوری سیاسی زندگی اور خدمات کا احاطہ کیا تھا۔ خصوصا آئین پاکستان کے بنانے کے حوالے سے اُن کی خدمات کا ذکر کیا، انھیں زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔
قاضی حسین احمدؒ ہر ایشو پر لکھا کرتے تھے۔ بقول معروف دانشورجناب حسین احمد پراچہ کہ بلاشبہ قاضی صاحب ایک جامع الصفات شخصیت تھے، وہ خلیق بھی تھے، شفیق بھی تھے، ملنساربھی تھے، ہمدرد بھی تھے، غمخوار بھی تھے، عالم بھی تھے، دیندار بھی تھے، مُدبر بھی تھے، مفکر بھی تھے، سیاستدان بھی تھے، دانشور بھی تھے، ادیب بھی تھے، کالم نگار بھی تھے، ہفت زبان بھی تھے، اقبال شناس بھی تھے، اور سب سے بڑھ کر سچّے مسلمان اور ایک عظیم انسان تھے۔
اس زیرنظر تحریر میں قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کے حوالے سے چند باتیں اور واقعات قارئین کی دلچسپی کے لیے ضرور لکھوں گا جن میں چند واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں اور باقی واقعات جو سینہ بہ سینہ مختلف ذرائع سے ہوتے ہوئے مجھ تک پہنچے ہیں۔
ایک دفعہ اسلامی جمعیت طلبہ کی صوبائی تربیت گاہ المرکز اسلامی سنگوٹہ سوات میں ہو رہی تھی۔ قاضی حسین احمد کا خطاب اس اجتماع کا حاصل اور آخری خطاب تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگ اور تحریک کے ساتھی بھی وہاں موجود تھے۔ موقع کی مناسبت سے قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کبھی اُردو اور کبھی پشتو میں مخاطب ہو رہے تھے۔
قاضی صاحب میڈیا کے لیے اُردو زبان کا سہارا لیتے تھے۔ اور مقامی لوگوں کے لیے پشتو زبان کا۔ یہ اُن کی بصیرت اور دوراندیشی تھی کہ وہ کوئی بات عام لوگوں کو سمجھا رہے ہوتے تو مقامی زبان پشتو میں سمجھاتے تھے۔ کوئی بات میڈیا کے نمائندوں کو سمجھاتے تو قومی زبان اُردو کا سہارا لیتے تھے۔
جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور ہمیشہ ملک و قوم کو مجتمع ہونے پر زور دیا کرتے تھے۔ انھوں نے اس کے لیے ہمیشہ کوشش اور جدوجہد بھی کی تھی۔ قومی یکجہتی قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی ہمیشہ سے مطمع نظر رہی تھی۔ اسی تناظر میں اُنھوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ساری قوم مجتمع ہو جائے تو پھر یہ چھوٹی بات ہو جائے گی کہ سنت کے بعد دعا کی جائے یا نہیں یعنی پھر یہ معمولی بات بھی خود بخود خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گی مگر پہلے تو ساری قوم مجتمع ہوجائے نا؟
جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ امیر جناب سراج الحق صاحب نے قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی یاد میں منعقدہ تعزیتی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ قاضی حسین احمد مرحوم پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ملک دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اس مقصد کی خاطر وہ تمام مسلکی اختلافات، علاقائی اور قومیتوں کے اختلافات سے بالاتر ہوکر اس ملک کو ایک دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ اس کے لیے منظم جدوجہد کیا کرتے تھے۔ جناب سراج الحق نے قاضی حسین احمد مرحوم کے حوالے سے یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ ہم قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ پشاور یونیورسٹی روڈ سے گزر رہے تھے کہ کہیں راستے میں قاضی حسین احمد مرحوم نے چند بچوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ قاضی صاحب نے ہم سے گاڑی روکنے کو کہا اور پھر بچوں کے پاس چلے گئے۔ ان سے پیار و شفقت کیا۔ اور انھیں گھر لے آئے، کھانا کھلایا اور کپڑے دیدیئے۔ پھر ہم سب سے دلی افسوس کے ساتھ اور دکھ درد میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہنے لگے کہ یہ ان بچوں کے اسکول جانے کا وقت ہے۔ یہ ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے مگر حکمرانوں کی ناکامی اور نا اہلی کے باعث اور اُن کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج یہ پھول سے بچے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔
ایک دفعہ قاضی حسین احمد کسی کا نکاح پڑھا رہے تھے۔ تو قاضی صاحب نے لڑکی کے والد سے لڑکی کا نام پوچھا۔ لڑکی کا والد بیٹی کے نام پہ آ کر خاموشی اختیار کرلیتا تھا۔ قاضی صاحب نے ایک دو دفعہ پھر اُن سے پوچھا۔ پختون معاشرے میں کوئی اپنی بہن، بیوی، بیٹی اور بہو کا نام برسر مجلس نہیں لیتا اور نہ ہی کسی اور کے منہ سے بہن، بیوی، بیٹی اور بہو کا نام برسر مجلس سننا گوارا کرتا ہے۔ قاضی صاحب نے بھرے مجمعے میں اُن سے بلکہ سب شرکائے محفل سے کہا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ مگر ہم اَب بھی لوگوں کے سامنے اپنی بہن، بیٹی اور بہو کا نام لینا اورسننا گوارا نہیں کرتے۔
پھر قاضی صاحب نے کہا کہ حضور ﷺکا فرمان ہے کہ جب آپ لوگ نکاح کریں تو عام پبلک مقامات یعنی مساجد میں کر لیا کرو۔ جہاں سب جمع ہوتے ہوں۔ اور لڑکے، لڑکی کے نام مع والدین بہ آوازِ بلند لیا کرو کہ فلاں کی بیٹی کا نکاح فلاں کے بیٹے سے ہو رہا ہے تاکہ دوسرے عام لوگوں کو بھی پتہ چلے، وہ بھی سن لیں۔
قاضی حسین احمد بڑے دل گردے کے مالک تھے۔ ہارٹ اٹیک اور بائی پاس آپریشن ہونے کے باوجود غیرمعمولی طور پر متحرک اور چاق و چوبند شخصیت کے مالک تھے۔ ایک بار کسی جلسے سے سیدھے بائی پاس آپریشن کے لیے ہسپتال پہنچے تھے۔ شدید بیمار ہونے کے باوجود جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ بالآخر صحت کے مسائل کی وجہ ہی سے جماعت اسلامی کی امارت سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ مگر پھربھی امارت کی دور سے زیادہ متحرک رہے۔ وہ خود بھی کہا کرتے تھے کہ اب مجھ پہ امارت سے بھی بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔
قاضی حسین احمد نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ایک اجتماع میں اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا:
آپ سے جُدا ہونے کو جی نہیں چاہتا عزیزو! آپ کا بھی جی نہیں چاہتا۔ میرا بھی جی نہیں چاہتا۔ ان شاء اللہ ،اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں، جنت میں آپ سب سے ملاقات ہوگی۔ (وآخردعوناالحمدللہ رب العالمین)
قاضی حسین احمدؒ کی نماز جنازہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا طیب طاہری نے کہا تھا کہ میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ کسی پروگرام کی صدارت قاضی حسین احمدؒ کر رہے تھے۔ ہم سب بھی شریک محفل تھے۔ کچھ دیر صدارت کرنے کے بعد قاضی حسین احمدؒ نے اُٹھ کر کہا کہ میں جارہا ہوں اور مجھے(مولانا طیب طاہری کو) اپنی جگہ مسندِ صدارت پہ بٹھاتے ہوئے کہا کہ باقی پروگرام کی صدارت آپ فرمائیں۔ جب میں رات کو نماز تہجد کے لیے اُٹھا تو اُس وقت مجھے قاضی حسین احمد کی وفات کی خبر میرے موبائل فون پر میسج کے ذریعے ملی۔(اناللہ وانا الیہ راجعون)۔
میں اپنے اس تحریر کا اختتام حافظ محمد ادریس صاحب کے تصنیف مُسافرانِ راہ وفا (حصہ اول) کے صفحہ ۸۲،۹۲ پر مولانا معین الدین خٹک مرحوم کے لیے لکھے گئے وہ الفاظ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفورکے لیے مستعار لے رہا ہوں کہ
قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی وفات سے علمی حلقوں، ملکی، عالمی، سیاسی و مذہبی حلقوں میں ایسا خلا پیدا ہوا ہے جس کا پاٹنا بہت مشکل ہے۔ قاضی
حسین احمد مرحوم نے اپنی ساری زندگی درس و تدریس، دعوتِ تبلیغ، مُلکی و بیرونی مسایئل سُلجھانے، ملک اور قوم کو مجتمع کرنے اور ملکِ خداداد کو ایک اِسلامی، فلاحی اور اِنقلابی ملک (ریاست) دیکھنے اور اس کے لیے ہر محاذ پر عملی جدوجہد میں گزاری۔ اللہ تعالی اُن کے درجات بلند فرمائے۔ اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔(آمین)۔
قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور جیسے قیمتی ہیرے ہر روز عالمِ رنگ و بُو سے گرتے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ حاصل کائنات اور پہاڑی کے چراغ ہوتے ہیں۔ یہی اِنسانیت کا نمونہ اور زمین کا نمک ہوتے ہیں۔
قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی یادیں، باتیں اور میٹھی شخصیت ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گی جس کو کسی شاعر نے الفاظ کے پیرہن یوں پہنائے ہیں:
جدھر جاتا ہوں میرے ساتھ جاتی ہے تمہاری خوشبو
مجھے اَب دل کے ویرانے سے آتی ہے تمہاری خوشبو
یہ میرے دل میں کیسا مُشک نافہ رکھ دیا تم نے
مجھے اَب اپنے پہلو سے بھی آتی ہے تمہاری خوشبو
سرِ محفل کبھی ہونٹوں پہ آکر مسکراتی ہے
کبھی تنہائی میں آکر رُلاتی ہے تمہاری خوشبو
کہ جیسے تم نے اپنا ہاتھ میرے دل پہ رکھا ہے
اچانک مجھ کو سوتے میں جگاتی ہے تمہاری خوشبو
کوئی رُت ہو تمہاری یادوں کے غُنچے کھلتے رہتے ہیں
کوئی موسم ہو دیوانہ بناتی ہے تمہاری خوشبو