طارق بٹ
اٹھارہویں آئینی ترمیم نے صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کے صدر کے اختیارات کو محدود کردیا ہے کیونکہ پارلیمان اور متعلقہ صوبائی اسمبلی کے پاس اسے محدود کرنے کے وسیع اختیار ا ت ہیں۔ مبینہ جعلی بینک اکاؤنٹس بشمول کئی ارب روپے، جس نے پاکستان پیپلزپارٹی کے مختار کل آصف علی زرداری، ان کے صاحبزادے بلاول اور ہمشیرہ فریال تالپور اور کئی دیگر افراد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع کرانے کے نتیجے میں سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی باتیں ہورہی ہیں جسے صدارتی راج بھی کہا جاتا ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ اور معروف آئینی ماہر میاں رضا ربانی نے وضاحت کی کہ اٹھارہویں ترمیم سے گورنر راج لگانا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے اپنے نکتے کی تفصیل میں جاتے ہوئے متعلقہ آئینی آرٹیکلز کا حوالہ دیا جس کے ذریعے ایمرجنسی کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ آرٹیکل 232 کی شق نمبر 1 کے مطابق پاکستان کی سلامتی یا کسی اور حصے کو جنگ کا خطرہ یا بیرونی جارحیت یا صوبائی حکومت کے اختیارات سے باہر اندرونی گڑبڑ ہو جسے قابو پانا ممکن نہ ہو تو صدر ایمرجنسی کا اعلان جاری کرسکتا ہے لیکن ایک شرط اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ صوبائی حکومت کے کنٹرول سے باہر اندرونی گڑ بڑ کے باعث ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے ایک قرار داد کی ضرورت ہوگی۔ فوری کیس میں سندھ اسمبلی اس طرح کے اعلان کی منظوری دیتی نظر نہیں آتی کیونکہ پی پی پی کی وہاں موثر اکثریت ہے۔
دوسری شرط یہ بتاتی ہے کہ اگر صدر ذاتی اقدام کرتا ہے تو ایمرجنسی کا اعلان دس دنوں کے اندر اندر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور ہر چیمبر سے اس کی منظوری لینا ہوگی۔ یہ قرار داد یقینی طور پر قومی اسمبلی سے تو منظور ہوجائے گی کیونکہ وہاں حکمران اتحاد کی اکثریت ہے لیکن یہ قرار داد یقینی طور پر حزب اختلاف کے زیر اثر سینیٹ سے مسترد ہوجائے گی اور اس قرار داد کی دونوں ایوانوں سے منظوری لازمی ہے۔
آرٹیکل 233 جو ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق وغیرہ معطل کرنے کا اختیار دیتا ہے کہ تحت جس دوران ایمرجنسی کا اعلان نافذالعمل ہو تو صدر حکم کے ذریعے اعلان کرسکتا ہے کہ اس طرح کے بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے کسی بھی عدالت جانے کا حق اور کسی بھی عدالت میں کوئی کارروائی جو نفاذ کیلئے ہو، یا خلاف ورزی سے متعلق کسی بھی سوال کا تعین شامل ہو، حقوق میں سے کوئی بھی جو مخصوص ہوں، نافذ العمل اعلان کے دوران معطل رہیں گے اور اس طرح کا کوئی بھی حکم پورے پاکستان یا کسی حصے کیلئے دیا جاسکتا ہے۔