کچھ عرصہ پہلے نیپال میں ’چھاپڑی‘ نام کی ایک عجیب و غریب رسم کے سبب ایک 16 سالہ لڑکی موت گھاٹ اتر گئی۔ اس رواج کے تحت حیض کی حالت میں خواتین کو گھروں سے باہر جھونپڑیوں میں رہنا پڑتا ہے۔
نیپال کے مغربی ضلع بیتاڈی سے تعلق رکھنے والی ’انیتا چند‘ کی موت سانپ کے کاٹنے سے اس وقت ہوئی جب وہ جھونپڑی میں سو رہی تھیں۔ اس کی موت 2019 کے بعد ’چھاپڑی‘ کے رواج سے جڑی پہلی ہلاکت ہے۔ اس رواج کے خلاف مہم چلانے والوں کو خدشہ ہے کہ اس رسم کے خاتمے کے لیے پیش رفت ختم ہو رہی ہے۔
’چھاپڑی‘ صدیوں پرانے عقیدے پر مبنی ہے کہ حیض کے دوران عورتیں اور لڑکیاں ناپاک اور اچھوت ہوتی ہیں۔ وہ کچن میں نہیں جاسکتیں، نہ کسی دوسرے فرد کو چھو سکتی ہیں حتیٰ کہ وہ مویشیوں، پھلوں اور سبزیوں کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتیں۔
انھیں بہت سی دیگر سرگرمیوں میں شامل ہونے بھی کی اجازت نہیں ہوتی، وہ پانی کے کنویں کے پاس بھی نہیں جاسکتیں حتیٰ کہ گھر میں پانی کے نلکوں کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتیں۔ اسی لیے انہیں اس مخصوص مدت کے لیے ’پیریڈ ہٹس‘ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس رواج کا ہندو مذہب سے تعلق ہے، اور یہ رواج مغربی نیپال میں بہت زیادہ سرایت کر چکا ہے۔ حکومت نیپال کے زیر اہتمام ایک جائزے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک خاتون اس رسم کی پیروی کرتی ہے۔
نیپال میں ’چھاپڑی‘ کو 2005 میں غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔اس جرم کی سزا تین ماہ کی قید اور 3,000 نیپالی روپے جرمانے کی صورت میں دی جا سکتی ہے۔ بیتاڈی ضلع پولیس نے کہا ہے کہ وہ انیتا کی موت کی تحقیقات کر رہی ہے۔ تاہم انتیا کے اہل خانہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جب اس کی موت ہوئی تو وہ ماہواری پر تھی۔
بیتاڈی میں پنچشور دیہی میونسپلٹی کی وائس چیئرپرسن، بینا بھٹا نے کہا، ’ہم اس رواج کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘۔
اس سے پہلے ’چھاپڑی‘ کے نتیجے میں ہونے موت 2019 میں ہوئی تھی۔ جب 21 سالہ پاروتی بدھا راوت تین راتیں ایک جھونپڑی میں گزارنے کے بعد چل بسیں۔ ان کی شادی کو محض ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ وہ اس ظالمانہ رسم کا شکار ہو گئیں۔ ان کا شوہر بھارت میں ملازمت کرتا ہے۔ اس سال جھونپڑی میں موت کا پانچواں کیس درج ہوا ہے۔
خواتین اور لڑکیاں جانوروں کے حملوں، جھونپڑیوں میں آگ کا دھواں بھر جانے سے دم گھٹنے سے ہلاک ہو چکی ہیں، کیونکہ جھونپڑی(پیریڈ ہٹ) میں کوئی کھڑکی بھی نہیں ہوتی۔ پاروتی کی موت کا سبب بھی دھویں سے دم گھٹنے کے سبب ہوئی۔ اس کیس میں پاروتی کے بہنوئی کو تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
پاروتی بدھا کی موت کے بعد اس رواج کو ختم کرنے کے لیے ملک گیر پروگرام اور مہمات شروع ہوگئیں جس کے نتیجے میں ایسی ہزاروں جھونپڑیاں تباہ ہو گئی تھیں، تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ان جھونپڑیوں کی دوبارہ تعمیر شروع ہو گئی ہے۔
’پاروتی کی موت کے بعد، ہم نے اس علاقے میں 7,000 سے زیادہ جھونپڑیوں کو تباہ کر دیا‘ یہ کہنا ہے ’پشوپتی کنور‘ کا، جو چھاپڑی کے خلاف 25 سالوں سے مہم چلا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ماہواری اور (قانون) کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے تھے کہ پھر اچانک کورونا وبا آگئی اور ساری توجہ کورونا وبا مرکوز کر دی گئی۔ اس کے بعد لوگوں نے دوبارہ جھونپڑیوں کی تعمیر شروع کر دی یا پھر کسی شیڈ میں رہنا شروع کر دیا۔ کورونا وبا کے بعد چھاپڑی پر کوئی پروگرام اور مہم نہیں چلائی گئی۔ لوگوں نے تقریباً اس کے بارے میں بات کرنا ہی چھوڑ دی۔
گلوبل ساؤتھ کولیشن فار ڈگنیفائیڈ مینسٹرویشن کی بانی رادھا پاوڈیل نے کہا کہ نیپال میں حکومت کو سکول کی طالبات میں مفت سینیٹری پیڈ تقسیم کرنے سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے، یہ سروس 2019 میں متعارف کرائی گئی تھی۔ اور پالیسیاں بھی موجود ہیں لیکن حکومت خود ان پر عمل درآمد نہیں کرتی۔