فرائی-مچھلی

ذریعہ نجات (حکایت ہجویری)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

معروف صوفی بزرگ ابن عمر کو ایک بار مچھلی سے لطف اندوز ہونے کی خواہش ہوئی۔ حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں وہاں ہر جگہ مچھلی تلاش کر دیکھی لیکن کہیں سے دست یاب نہ ہو سکی۔ چند روز گزرے ہوں گے کہ میسر آ گئی۔ میں نے فوراً ہی خریدی اور گھر پہنچ کر ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ خوش ہوئے اور اسے ذوق و شوق کے ساتھ پکوایا۔ اس سے پہلے کہ پکوان کو دستر خوان پر لایا جاتا، سائل نے دروازے پر آواز لگائی کہ اللہ کے نام پر اسے کچھ دیا جائے۔ آپ نے فرمایا:

‘ ساری مچھلی اسے دے دی جائے ۔’

خادم نے عرض کیا کہ سیدی! کئی روز سے آپ کو اس کی خواہش تھی، اب میسر آئی ہے تو آپ اسے خیرات کرنا چاہتے ہیں؟

حضرت ابن عمر نے فرمایا:

‘ درست کہتے ہو، میں یہی چاہتا ہوں۔ ‘

خادم نے کہا:

‘ حضرت! سائل کو کچھ اور پیش کر دیتے ہیں۔’

حضرت نے فرمایا:

‘ اب یہ مچھلی مجھ پر حرام ہے۔ اس کی میں نے خواہش دل سے نکال دی۔’

‘ سیدی! کیوں، آخر کیوں؟’

‘ اس لیے کہ’

حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ میں نے حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سن رکھی ہے کہ جس کسی کے دل میں کسی چیز کی خواہش پیدا ہو، وہ اس پر قابو پا لے اور ایثار کرتے ہوئے کسی دوسرے کو پیش کر دے، اس کی مغفرت ہو گئی۔


اس حکایت میں سید علی ہجویری علیہ الرحمہ نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ایثار کی اہمیت واضح فرمائی ہے۔

ماخوذ از کشف المحجوب، انتخاب ، تہذیب و تحریر: فاروق عادل


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں