جس وقت یہ سطور لکھنے لگا، ایک تصویر پر نظر پڑی، نگراں وزیر اعظم جناب انوار الحق کاکڑ روضہ رسول ﷺ میں سر جھکائے کھڑے ہیں، شاید آنکھوں سے آنسو بھی رواں تھے، وہ ایک خاص کیفیت میں مبتلا محسوس ہو رہے تھے۔ کیا کیفیت تھی؟ اللہ ہی جانتا ہے یا انوارالحق کاکڑ جانتے ہیں۔ یا پھر اس کیفیت کا اندازہ اس شخص کو ہوسکتا ہے جسے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ہو اور وہ اس کیفیت سے گزرا ہو۔
ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل ہوجائے اور اس کے سارے بگڑے کام بن جائیں۔ یقیناً جناب نگراں وزیر اعظم بھی اسی کیفیت میں ہوں گے اور حرمین شریفین میں یہی خوشنودی حاصل کرنے گئے ہوں گے۔
اس وقت جناب انوار الحق کاکڑ کی سب سے بڑی خواہش، سوائے اس کے کیا ہوسکتی ہے کہ انھیں جو ذمہ داری تفویض کی گئی ہے، وہ اس ذمہ داری سے اس انداز میں عہدہ برا ہوں کہ ایک دنیا اش اش کر اٹھے۔ سب سے بڑا چیلنج بدترین معاشی بحران میں پھنسی قوم کو باہر نکالنا ہے، اس کی زندگی میں آسودگی پیدا کرنا ہے۔
اگرچہ نگران سیٹ اپ کے مینڈیٹ میں محض عام انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے لیکن شہباز شریف حکومت نے قانون سازی کرکے نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا۔ انوار الحق کاکڑ بھی اسی اضافی مینڈیٹ کے ساتھ معاشی خرابیاں دور کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں اس قدر بڑی کامیابی نہیں مل رہی کہ قوم سکون کا سانس لے۔
یقیناً عمرہ کی ادائیگی کے دوران جناب انوار الحق کاکڑ کی بھرپور کوشش رہی ہوگی کہ حرمین شریفین سے کچھ ایسی بصیرت مل جائے جو ملکی معاشی استحکام کے لیے موثر حکمت عملی تیار کرنے میں ممد و معاون ہو۔
آج وفاقی وزارت مذہبی امور بھی ایک روزہ سیرت النبی کانفرنس میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ’ملکی معاشی استحکام کے لیے حکمت عملی سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں‘ کیا ہوسکتی ہے؟ یقیناً اسلامی اسکالرز اس سوال پر سیر حاصل بحث کریں گے۔
سچی بات یہ ہے کہ ایسے سوالات پر سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں غوروفکر بلند مرتبت اسکالرز ہی کو زیبا ہے۔ اگرچہ ہماری قوم کو بچپن ہی سے رسول اکرم ﷺ کے فرامین اور واقعات پڑھائے جاتے ہیں جو ایک طفل مکتب کو کامیاب اور خوش حال زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اس کے باوجود، حیرت ہے کہ انہی اطفال مکتب میں سے کچھ بڑے ہوکر جب حکمران بنتے ہیں تو سارے سبق بھول جاتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ ملکی معاشی استحکام کے لیے حکمت عملی کیا ہو؟
دنیا کے تمام معاشرے حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اپنے ہاں سود کو ختم کرتے جارہے ہیں، وہ شرح سود کو کم سے کم کرنے کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں، لیکن ایک ہم ہیں کہ ریاست اور شہریوں کو اس شکنجے میں مزید کس رہے ہیں۔
مزید ظلم یہ کہ سود کا سارا فائدہ مقتدر طبقہ خود اٹھاتا ہے جبکہ اس کا سارا بوجھ ٹوٹی ہوئی کمر والے عوام پر لاد دیتا ہے۔ بدقسمتی سے قوم کے عام طبقات نے بھی سودی نظام معیشت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا ہے، یہ جانتے بوجھتے بھی کہ سود انسان کو ہلاک کردیتا ہے۔ مزید بدقسمتی یہ کہ اب ہم اس سودی چنگل سے نکلنے کی خواہش ہی نہیں رکھتے۔ ایسے میں بھلا معیشت کیسے پھلے پھولے!
بچپن ہی سے ہمیں نصابی کتب میں احادیث نبوی ﷺ پڑھائی گئیں کہ فضول خرچ شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مقتدر طبقہ یعنی طبقہ اشرافیہ پوری بے رحمی کے ساتھ فضول خرچ واقع ہوا ہے۔ نہ صرف فضول خرچ بلکہ استحصالی بھی۔ بے چاری قوم دن رات ایک کرکے جو تھوڑا بہت کماتی ہے، وہ یہ ظالم طبقہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیتا ہے۔ کیا ایسے میں حرمین شریفین سے کوئی بصیرت عطا ہوسکتی ہے بھلا؟؟
یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ جب کوئی قوم فضول خرچی کے بجائے اپنا ہر اضافی پیسہ معاشرے کے غریب اور محروم افراد کو پاؤں پر کھڑا کرنے میں لگا دے تو پورا معاشرہ خوشحال اور طاقت ور ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی زندگی کو پسند کرتا ہے جس میں سود نہ ہو بلکہ صدقات ہوں۔ انہی صدقات کی بنیاد پر کمزور طبقات کے لیے تعلیمی ادارے، اسپتال اور دیگر رفاہ عامہ کے ادارے قائم ہوتے ہیں۔ ایسے ہی معاشرے ترقی یافتہ بنتے ہیں۔
کسی معاشرے میں اوپر والا طبقہ جب فضول خرچ ہوگا تو نیچے والے طبقات بھی اپنی اچھی بھلی معاشی زندگی کو بگاڑ لیتے ہیں۔
اگر ہم تمام تر حسن ظن سے کام لیتے ہوئے خیال کریں کہ ہمارے مقتدر لوگ استحصال بھی نہیں کرتے، حتیٰ کہ وہ فضول خرچ بھی نہیں ہیں، وہ اپنی سیاست کے بجائے ریاست کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں، ایسے میں ان کی تمام تر حکمت عملی کا نیوکلیس شہری نہیں بلکہ ریاست ہوتی ہے۔ یہ پالیسی بذات خود ایک بڑا ظلم ہے۔
اگرچہ ہم نبی مہربان ﷺ کی سیرت سے روشنی کے خواہاں ہیں، لیکن نبوی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کے مطابق پوری ریاست کو شہری کے گرد گھومنا ہوتا ہے، یعنی پوری ریاست اپنے شہری کی زیادہ سے زیادہ خدمت پر مامور ہوتی ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ الٹی گنگا بہانے میں لگے ہوئے ہیں، شہریوں کو ریاست کے گرد گھومنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر طبقہ اشرافیہ اپنے آپ کو ریاست کا نام دے کر پوری قوم کو اپنی خدمت پر مجبور کرتا ہے۔
اس سارے ظلم و زیادتی کا بوجھ کاندھوں پر لادے جب کوئی حکمران حرمین شریفین میں حاضری دے گا تو شرم کے مارے پانی پانی ہی ہوگا! جیسے ایک بے عمل بیٹا باپ کی خدمت میں حاضر ہوکر نادم اور شرمسار ہوتا ہے۔