وسعت اللہ خان
یہ بات ہے 1789 کے فرانسیسی موسمِ گرما کی۔ کسانوں کی ہڈیوں کو نچوڑ دینے والے محصولات اور خشک سالی کے سبب ملک میں اناج کی قلت پیدا ہو گئی۔ قلت نے بے چینی کو جنم دیا مگر شہنشاہِ مطلق لوئی شانزدہم کے مشیرانِ کرام نے اپنی نوکریاں بچانے کے لیے بے چینی کی اطلاعاتی تصویر کی شاہی محل تک رسائی دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ محلاتی رونقوں میں کوئی فرق نہ آیا جبکہ فرانس محرومی کی دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ روٹی کے لالے پڑ چکے تھے۔
اردگرد سے بے خبر بادشاہ نے اسٹیٹ کونسل ( نامزد مجلسِ شوری ) کا اجلاس بلایا۔ باہر جمع عوام کسی اچھی خبر کے منتظر تھے۔ اندر مہم جوئی اور جنگوں کے شوقین مقروض بادشاہ کی فرمائش تھی کہ ریاستی اخراجات پورے کرنے کے لیے مزید ٹیکس لگائے جائیں۔ اس شاہی سادگی پر مجلسِ شوری کے کچھ ارکان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے باآوازِ بلند ظلِ الہی کو حقیقی صورتِ حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر جی حضوروں کے جھرمٹ نے اختلافی آوازوں کو دبانے اور بٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ اجلاس بلانتیجہ ملتوی ہو گیا۔
انقلاب سے پہلے کا فرانس ٹیکسوں کے بوجھ سے جوجنے والا سرکردہ یورپی ملک تھا۔ اندھے اسراف اور بے اعتدالیوں کے شکار ریاستی ڈھانچے کی اصلاحات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کے بجائے بار بار خالی ہو جانے والے خزانے کو بھرنے کے لیے بادشاہ امرا اور زمینداروں پر دباؤ ڈالتا اور بے تحاشا مراعات کے قیدی امرا محکوم مزارعوں کے حلق سے پیسے نکلوانے کی کوشش کرتے۔
ریاست نے ٹیکس جمع کرنے کے لیے پرائیویٹ ٹھیکیدار رکھے ہوئے تھے جو اپنا ہدف پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے اور انسانی وقار کو کچلنے کے لیے بدنام تھے۔ جو مٹھی گرم کرتا اسے چھوٹ مل جاتی اور جو اس قابل نہ ہوتا اس کی پیٹھ درے مار مار کے گرم کر دی جاتی۔ ملکی خزانے میں نصف سے زیادہ پیسے بلاواسطہ ٹیکسوں سے جمع ہوتے جبکہ براہِ راست ٹیکس سے لگ بھگ 30 فیصد رقم مل پاتی کیونکہ بارسوخ امرا ان براہِ راست ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیے گئے تھے۔
ان ٹیکسوں میں ٹیلی یعنی پرسنل ٹیکس اور انکم ٹیکس شامل تھے۔ بلاواسطہ ٹیکسوں میں نمک پر محصول سے ریاست کو10 فیصد آمدنی ہوتی۔ جبکہ لوہاروں، وائن اور تمباکو کی فصل سے وابستہ کسانوں کے خام مال سے لے کے تیار شدہ مصنوعات تک بھاری ٹیکس دینے پڑتے۔ جبکہ کل آمدنی پر چرچ کو دیا جانے والا ایک فیصد ٹیکس الگ سے تھا۔
امرا اپنی جاگیر سے گزر کے جانے والے راہگیروں سے پگڈنڈی ٹیکس بھی لیتے تھے۔ جبکہ مال کی نقل و حرکت کے لیے چونگی محصول نجی ٹھیکیدار الگ سے وصول کرتے تھے۔ہر ٹھیکیدار اپنی مرضی سے چونگی کے ریٹ مقرر کرنے میں آزاد تھا۔
خیر جب 4 جولائی 1789 کو اسٹیٹ کونسل کے اجلاس کے التوا کی خبر باہر نکلی تو بھوکے عوام نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور ہجوم شاہی استبداد کی علامت باستیل کے قید خانے کی جانب چل پڑا اور صدر دروازہ توڑ کے اندر گھس گیا۔ قید خانہ خالی تھا بمشکل چار پانچ قیدی وہاں پائے گئے۔ مشتعل ہجوم نے در و دیوار کو آگ لگا دی اور پھر اس دور کا آغاز ہوا جسے تاریخ انقلابِ فرانس کے نام سے جانتی ہے ۔اور جس کا نعرہ تھا آزادی ، برابری ، جمہوریت ۔
سنہ 1881 میں اسی فرانس نے بحیرہ روم کے دوسرے کنارے پر واقع قدیم تہذیبی ملک تیونس کو خلافِ عثمانیہ سے چھین لیا۔ 3 سو سالہ عثمانی تسلط اگلے 75 برس کے لیے یورپی قبضے سے بدل گیا اور پھر مارچ 1956 میں حبیب بو رقیبہ نئے تیونس کے قائدِ اعظم تو بنے مگر تیونس عملاً مغرب پسند اشرافیہ کی یک جماعتی آمریت تلے ہی رہا۔
حبیب بورقیبہ کا سنہ 2000 میں انتقال ہوا۔ جب تک زندہ رہے ہر صدارتی انتخاب جیتتے رہے۔ ان کے جانشین زین العابدین بن علی نے بھی یہ روایت برقرار رکھی۔
اس گھٹن زدہ ماحول میں سدی بو زید کے قصبے میں 17 دسمبر 2010 کو ایک سبزی فروش محمد بو عزیزی کا ٹھیلہ بلدیہ والوں نے لائسنس کی معیاد ختم ہونے کی پاداش میں ضبط کر لیا۔ بو عزیزی نے بلدیہ کے دفتر کے سامنے بہت دہائیاں دیں مگر کس نے نہیں سنا۔ چنانچہ بو عزیزی نے خود پر تیل چھڑک کے آگ لگا لی۔ وہ 4 جنوری 2011 کو 18 دن زندگی کے لیے لڑتا ہوا اسپتال میں مر گیا۔
بوعزیزی نے یہ تیل دراصل خود پر نہیں بلکہ تیونس میں مسلسل جمع ہونے والی سماجی ، سیاسی و اقتصادی گھٹن پر چھڑکا تھا۔ ہنگامے پھوٹ پڑے اور بو عزیزی کی موت کے صرف 10 دن بعد 23 برس سے ملک پر مسلط آمرِ مطلق زید بن علی اپنے خاندان اور تام توبڑے سمیت جدہ روانہ ہو گئے۔
یہ آگ تیونس تک نہیں رکی۔ اس نے آناً فاناً مصر ، لیبیا ، شام ، بحرین اور یمن تک کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم سب اس تحریک کو عرب اسپرنگ کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک ٹھیلے والے کی آہ نے احتیاط سے مرتب سارا نظام توڑ تاڑ کے رکھ دیا۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ عرب اسپرنگ بالاخر ناکام کیوں ہو گئی ؟
وہ جو کہتے ہیں کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
( قابل اجمیری )
مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔