بادبان رپورٹ
کچھ عرصہ سے پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں دیکھا گیا ہے کہ جب بھی زیادہ بارش ہوتی ہے تو شہر کے کئی علاقوں میں سیلاب یا ’اربن فلڈنگ‘ ہو جاتی ہے۔ کیا یہ منصوبہ بندی کا مسئلہ ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے؟ بی بی سی نے لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے بارے میں ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔ جس میں ان تینوں بڑے شہروں میں سیلاب کے اسباب کے بارے میں بتایا گیا۔
لاہور، پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ اسے بھی گزشتہ دنوں مون سون بارشوں کے باعث اربن فلڈنگ کا سامنا رہا۔ لاہور کے درمیان میں بہنے والی طویل نہر جسے عام طور پر اچھرہ والی نہر کہتے ہیں، کا پانی بھی انہی مون سون بارشوں کے سبب کناروں سے باہر نکل آیا۔
گزشتہ چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تو اس نہر کے اس انداز میں اچھلنے کی مثال نہیں ملتی جبکہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ شہر میں بہترین نظام موجود ہے جو اربن فلڈنگ جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود لاہور شہر میں گزشتہ دنوں جو اربن فلڈنگ ہوئی، اس کی وجوہات کیا ہیں، اس پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔
اربن فلڈنگ سے نمٹنے کے لیے سول انتظامیہ سمیت دیگر ادارے مل جل کر کام کرتے ہیں۔ ان میں واسا، محکمہ موسمیات، ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ اور دیگر یہ کام کرتے ہیں۔ وہ وقت سے پہلے تیاریاں کرتے ہیں تاکہ شہر کے اندر سیلاب کی صورت حال نہ بن سکے۔
حالیہ اربن فلڈنگ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسے تمام اداروں کے درمیان کوارڈینیشن نہیں تھا۔ یہی اربن فلڈنگ کی وجہ بنی۔ بہت سی جگہیں ایسی تھیں کہ پانی کھڑا تھا لیکن گٹر کا ڈھکن اٹھانے والا کوئی شخص موجود نہیں تھا تاکہ وہاں سے پانی نکل سکتا۔ اسی طرح ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نہر کو وقت سے پہلے پیچھے سے بند نہیں کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں نہر کا پانی کناروں سے باہر نکل آیا۔
اداروں کے درمیان کوارڈینیشن نہ ہونا بھی ایک بنیادی وجہ تھی جو اس مرتبہ لاہور میں نظر آئی۔ لاہور میں بعض ایسے انڈرپاسز تھے جہاں حالیہ بارشوں کے دوران کئی فٹ پانی جمع ہوا تھا۔ بعض ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملیں جن میں گاڑیاں باقاعدہ پانی میں تیر رہی تھیں۔ سبب یہ تھا کہ ڈسپوزل سسٹم کام نہیں کر رہا تھا۔ یعنی نکاسی آب کا نظام نہیں چل رہا تھا۔
اربن فلڈنگ صرف لاہور شہر تک ہی محدود نہیں ہے۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی یہ مسئلہ ہے لیکن ان کی وجوہات کچھ مختلف ہیں۔
کراچی میں ایک گجر نالہ ہے۔ اس کے دونوں اطراف میں کنکریٹ کی دیوار بنائی گئی ہے۔ اور اسے وسعت بھی دی گئی ہے۔ اس سے پہلے اس کے دونوں اطراف میں گھر تعمیر تھے، پھر انہیں مسمار کیا گیا، یوں اس نالے کو وسعت ملی۔
گزشتہ چند برسوں تک شدید بارشوں کے سبب اس نالے کے آس پاس کا علاقہ زیر آب آجاتا تھا کیونکہ یہ نالہ تنگ ہوچکا تھا۔
کراچی میں مکان بنانا اس لیے مہنگا ہے کہ یہاں زمین مہنگی ہے۔ چنانچہ غریب لوگ ایسے ہی نالوں کے آس پاس پڑاؤ ڈالتے ہیں۔اور انہی نالوں پر مکان بنانا شروع کر دیتی ہے۔اس سے پہلے انھیں پانی، بجلی اور گیس کی سہولت فراہم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جب صورت حال سنگین ہوتی ہے تو انتظامیہ انھیں نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے۔یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔
یہ صورت حال صرف گجر نالے تک ہی محدود نہیں ہے۔ شہر میں ایک درجن کے قریب نالے ہیں جن پر ایسے ہی انداز میں آبادیاں بنتی رہیں۔ شہر میں پانی کی نکاسی اب بھی ایک مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ ڈیفنس میں کئی مقامات پر پانی نکالنے والی مشینیں لگائی گئی ہیں تاکہ بارش کا پانی نکل سکے۔ یہاں پانی کی نکاسی کا باضابطہ کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں جب بارشیں ہوئیں تو یہ سارا علاقہ زیر آب آگیا تھا۔
شہر میں جتنے بھی برساتی نالے ہیں، ان کی آخری منزل سمندر ہے۔ ڈیفنس میں ایک نالہ ’نہر خیام‘ کے نام سے گزرتا ہے۔اس پر بھی تجاوزات قائم ہوچکی ہیں۔ یوں اس کا سائز کم ہوچکا ہے۔ نتیجتا پانی کو یہاں سے نکلنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اسی لیے ڈیفنس کے مختلف علاقوں میں اب نالے بنائے گئے اور ان کے آگے پانی نکالنے والی مشینیں لگائی گئی ہیںتاکہ پانی کو کھینچ کر سمندر تک پہنچایا جائے۔
جب بارشیں ہوتی ہیں اور سمندر میں طغیانی ہوتی ہے تو پانی سمندر میں جانے کے بجائے واپس آتا ہے۔یوں نکاسی آب کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ایسے رہائشی منصوبے بنائے جاتے ہیں تو پہلے پانی کی نکاسی کا نظام بنانا ضروری ہے۔ صرف اسی صورت میں ایسے بحران سے بچا جاسکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں راولپنڈی کے مشہور نالہ لئی کی۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے گٹروں کا سارا پانی اسی نالہ لئی میں گرتا ہے۔ اس نالہ کے اندر دونوں شہروں کا کچرا بھی گرتا ہے۔ جب برسات کا موسم آتا ہے تو نالہ لئی سے کچرا نکال کر اس کے کناروں پر رکھ دیا جاتا ہے جو برسات کے دنوں میں یا برسات کے بعد اسی نالے میں پھر گر جاتا ہے۔ بلکہ اسے بذات خود نالہ میں پھینک کر یہاں پارکنگ کی جگہیں بنائی جاتی ہیں۔ انتظامیہ لوگوں سے اپیل کرتی ہے کہ اس نالہ میں کچرا نہ پھینکا جائے۔
اسلام آباد کے تقریبا 8 سیکٹرز کا پانی اس نالہ میں شامل ہوتا ہے۔ کچرا شامل ہونے سے یہ نالہ بھر جاتا ہے اور پانی کناروں سے باہر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ پچھلے سال راولپنڈی کے علاقہ ٹینچ بھاٹہ اور بوہڑ بازار میں بارشوں کی جو ویڈیوز سامنے آئیں، وہ سیلاب کے جس ریلے کو دکھا رہی تھیں، اس کا واحد سبب یہی تھا کہ نالہ لئی میں پانی کے لیے مزید جگہ نہیں تھی۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی ، دوسرے بڑے شہر لاہور اور چوتھے بڑے شہر راولپنڈی کی صورت حال اشارہ کرتی ہے کہ اس ملک میں باقی چھوٹے بڑے تمام میدانی شہروں میں نکاسی آب کی ایسی ہی صورت حال ہوگی یا پھر اس سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر آسان وجوہات شہروں ، قصبوں کی انتظامیہ کو سمجھ کیوں نہیں آتی؟ اگر نکاسی آب کے تمام راستوں کو باقاعدگی سے صاف کیا جائے تو سیلاب جیسی صورت حال کیوں پیدا ہو؟ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ نالہ لئی پہلے صاف کیا جائے اور پھر صفائی کے دوران نکالا ہوا کچرا ایک بار پھر اس میں پھینک دیا جائے؟؟؟