عاصم حفیظ، اسسٹنٹ پروفیسر، اردو کالم نگار

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سکینڈل: اندر نہیں, باہر جھانکیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عاصم حفیظ

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سکیورٹی آفیسر، ایک پروفیسر کی گرفتاری، اعترافی ویڈیو اور ایف آئی آر کے مندرجات اور مختلف آراء سامنے آنے کے بعد صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔ تعلیمی اداروں پر تنقید ہو رہی ہے اور بظاہر تاثر یہ دیا جارہا ہے جیسے سب یونیورسٹی کلاسز میں اساتذہ کی جانب سے کیا گیا ہو۔ لیکن اگر اسی شہر کی کچھ عرصہ قبل ہونے والی انکوائری رپورٹ کا مطالعہ کریں تو سمجھ یہی آتا ہے کہ یہ یونیورسٹی کے اندر کی بجائے باہر کا معاملہ زیادہ ہے۔

جو ایف آئی آر درج ہوئی یا اعترافی بیان سامنے آیا ہے اس میں کسی حد تک حقیقت بھی ہو تو یہ معاملہ یونیورسٹی سے باہر کی محافل، فارم ہاؤسز، پرائیویٹ ہاسٹلز، صحافت، پولیس افسران، ہسپتال اور دیگر اداروں اور مخصوص طبقے سے منسلک نظر آتا ہے جو کہ ہر علاقے میں ہی ہوتا ہے۔ یعنی منشیات، عیاشی، بے راہ روی سے منسلک ایک مخصوص طبقہ۔

ہو سکتا ہے کہ یونیورسٹی سے منسلک کچھ ملازمین بھی اس گینگ کا حصہ ہوں لیکن ان کی سرگرمیاں یونیورسٹی سے باہر ہی سرانجام پاتی ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ بھی بنائی گئی تھی جس پر کارروائی نہ ہو سکی۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سال قبل خفیہ ادارے نے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کرا کے آئی جی پنجاب اور وائس چانسلر کو ارسال کی تھی۔

اس رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ جنسی ہراسگی، منشیات کے استعمال و منشیات فروشی میں ملوث پولیس افسران، بہاولپور کے صحافی، یونیورسٹی پروفیسرز، سیاسی و سماجی شخصیات، ڈاکٹرز اور بڑے تاجروں کے نام درج تھے۔

اس کے علاوہ ایسی پارٹیاں منعقد کروانے والے فارم ہاوسز کا ڈیٹا بھی موجود تھا لیکن افسوس اس رپورٹ کو دبا دیا گیا کسی بھی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معاملہ یونیورسٹی سٹوڈنٹس سے کہیں زیادہ بیرونی افراد سے متعلقہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی یونیورسٹیوں میں جی پی اے اچھے لانے کی آڑ میں کیا ہورہا ہے؟

معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی فرسٹریشن، ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

مغرب میں عورت کی آزادی کے باوجود جنسی جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟

دراصل منشیات کے سوداگر، عیاش تاجر، بعض بدفطرت افسران اور بہت سے بگڑے رئیس اور نودولتیے ہر علاقے میں ایک گینگ اور مافیا بنا لیتے ہیں، پھر ہرکارے بھرتی کر لیتے ہیں جو تعلیمی اداروں، پرائیویٹ ہاسٹلز، نرسنگ اور دیگر اداروں حتی کہ بعض اوقات دارالامان تک سے اپنی ہوس بجھانے کا اہتمام کراتے ہیں۔

ان کے ہتھے وہی چڑھتا ہے، ان کے فریب میں وہی آتا ہے جو اس فطرت کا ہو۔ کسی لالچ کا شکار بنے۔ منشیات کی عادت ڈالے یا محض اسٹیٹس سمبل کے لیے۔ چند تحائف اور سوسائٹی کا حصہ بننے کی خاطر اس دلدل میں پھنستا چلا جائے۔

ایک بڑے شہر میں اس گروہ، مافیا اور طبقے سے منسلک تعداد کا جب جمع کرکے مجموعی تذکرہ کیا جائے تو کافی بڑی ۔تعداد لگتی ہے  لیکن دراصل یہ وہی تناسب ہوتا ہے جو معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کا ہوتا ہے

یونیورسٹی میں ہر کوئی ملوث نہیں ہوتا۔ بہت بڑی تعداد بھی نہیں البتہ چند طالبات ضرور ان کے جھانسے میں آ جاتی ہیں، ان میں زیادہ تر وہی ہوتی ہیں جنہیں یہ گروہ اور مافیا بعض اوقات خود داخلے کراتا ہے۔

یہ ایک سکینڈل ہے، اس کے حقائق کھلیں گے لیکن حد سے زیادہ سنسنی خیزی سے گریز کرنا چاہیے ۔ یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس کی اکثریت ایسے گروہوں سے بچ کر ہی رہتی ہے۔ سب کچھ ہی خراب نہیں ہے بلکہ جو صرف پڑھائی کرنا ۔۔چاہیں ان کی جانب کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا۔ اکثریت ان خرافات سے محفوظ رہتی ہے

یہ بیرونی عناصر ہیں جو ایک مخصوص طبقے کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہر شہر میں ہر علاقے میں چند فیصد ہی ہوتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہر شہر میں ہر علاقے میں چند لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔ اکثریت پرامن اور صاف ستھری زندگی گزارتی ہے۔

کوئی ایک سال۔ ایک ماہ کا ٹریفک حادثات کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے تو تعداد ہزاروں میں چلی جاتی ہے۔ حتی کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والے ہزاروں ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی حادثے کا شکار بن گیا لیکن زندگی چلتی رہتی ہے۔ آپ اگلے ۔دن پھر سڑک پر نکلتے ہیں اور اکثریت محفوظ ہی گھر آتی ہے

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سکینڈل میں جس تعداد کا ذکر ہوا ہے وہ بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کی عکاسی ہے۔ اگر یہ اتنی بھی ہے تو کئی سالوں کی جمع کردہ ہے۔ شہر بھر کے مخصوص جرائم پیشہ، جنس زدہ اور عیش و عشرت میں پڑے بگڑوں کی تعداد جن میں سے چند کا تعلق یونیورسٹی سے بھی ہو سکتا ہے لیکن صرف چند جرائم پیشہ ذہنیت والوں کا۔

جیسے ہم معاشرے میں جیتے ہیں، حادثات کے باعث باہر نکلنا بند نہیں کرتے، قتل چوری ڈکیتی کے واقعات کو لے کر شہر نہیں چھوڑ جاتے۔ بالکل اسی طرح ایک بڑے شہر کے ایک جرائم پیشہ گروہ کے بے نقاب ہونے سے پورے کا پورا تعلیمی ادارہ متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ درسگاہ سے جڑے ہر کسی کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کر دینا چاہیے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے گروہوں، مافیا اور طبقے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ انہیں بے نقاب کیا جائے، ان کی عیاشی کے اڈے ختم کئے جائیں، یونیورسٹی کے طلبا و طالبات پوری توجہ سے پڑھنے آئیں اور آئندہ ایسے عناصر کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔

مکرر عرض ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی خاطر پورے ادارے اور ہر طالب علم و استاد کو مشکوک نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ وہی مخصوص گروہ ہیں جو قلیل تعداد میں ہر جگہ ہی ہوتے ہیں۔ ان کے وجود سے انکار نہیں لیکن یہ معاشرے کی ۔اکثریت نہیں اقلیت ہیں۔ اور سب کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے صرف انہیں ڈھونڈنا، بے نقاب اور ختم کرنا چاہیے

اپنی اولاد، قریبی نوجوانوں کو ایسے گروہوں سے بچانا چاہیے۔ انہیں بتایا جائے کہ لالچ، عیش پرستی اور منشیات کے باعث زندگیاں تباہ نہ کریں بلکہ تعلیمی اداروں میں اپنا توجہ تعلیم پر مرکوز رکھیں۔ آپ کو کوئی تنگ نہیں کر سکتا، کوئی آپ کو ملوث نہیں کر سکتا۔ خود کو دور رکھیں تو کوئی آپ کو کھینچ نہیں سکتا ہے۔ اور یقینا اکثریت ان خرافات سے محفوظ رہتی بھی ہے۔

اس لیے بہاولپور یونیورسٹی سکینڈل کے حوالے سے بھی زیادہ سنسنی نہ پھیلائی جائے بلکہ پروپیگنڈا کی بجائے حقائق کا انتظار کریں اور خود، اپنی اولادوں، فیملی کو ایسے گروہوں سے بچانے کا اہتمام کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سکینڈل: اندر نہیں, باہر جھانکیں”

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    You are absolutely right. Me and my friends graduated from university nut never heard anything…. it means there are certain groups, not everyone.