فرحان خان
میں پاکستان کی یونیورسٹیوں میں چلنے والے فراڈ سمسٹر سسٹم پر پہلے بھی سوال اُٹھا چکا ہوں۔
اس سسٹم کے تحت طلبہ کو امتحان میں کامیاب یا ناکام کرنے کا اختیار براہ راست استاد کے پاس ہوتا ہے۔
وہ استاد اگر چاہے تو آپ کو پاس کر دے، نہ چاہے تو آپ کا مستقبل برباد کر دے۔ یہ عجیب قسم کی ڈکٹیٹر شپ ہے۔
اس نظام کے تحت اگر کسی وجہ سے کسی طالب علم سے استاد خفا ہو جائے تو پھر وہ طالب علم بدترین انتقام کا نشانہ بن جاتا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اس وقت زیرِبحث ہے۔
اس معاملے کے اس وقت اٹھنے کی یقیناً کچھ اور وجوہات بھی ہوں گی۔ کچھ رنجشیں اور جھگڑے بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سکینڈل کی شدت اتنی زیادہ نہ ہو جتنی رپورٹ ہو رہی ہے۔
لیکن یونیورسٹیوں میں جی پی اے ’اچھے لانے‘ کی آڑ میں اساتذہ کی خوشامد اور بعض اوقات ان کے ناروا مطالبات ماننے کی شکایات عام ہیں۔
اسی طرح یونیورسٹیوں کے نام نہاد محقق اساتذہ کی طرف سے تحقیق کے نام پر کی جانے والی ’مقالہ سازی‘ میں بھی طلبہ سے بیگار لیا جاتا ہے۔ یعنی ان سے کام کروا کر اپنے نام سے مقالے شائع کروا کے اپنی پروفائل ’مستحکم‘ کی جاتی ہے۔
بھئی!
جب آپ کو علم ہو کہ جس ٹیچر نے مضمون پڑھانا ہے، اسی نے آپ کو پاس یا فیل کرنا ہے تو آپ کلاس میں خوشامد کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔
بارِدگر عرض ہے کہ یہ فراڈ سسٹم بند ہونا چاہیے۔
امتحانی پرچے تھرڈ پارٹی یعنی غیرجانبدار اتھارٹی کو چیک کرنے چاہییں۔ ایسی اتھارٹی جس سے طلبہ یا ٹیچرز کا کوئی لینا دینا نہ ہو۔ جیسا کہ کبھی سالانہ نطام امتحان میں ہوا کرتا تھا۔
اسی لیے کئی مرتبہ مجھے اس سسٹم کے تحت حاصل کیے گئے جی پی ایز جعلی لگتے ہیں۔ جعلی کہنے سے مقصود قابل طلبہ کی حوصلہ شکنی نہیں لیکن کچھ مشاہدات آنکھوں دیکھے ہیں، اس لیے میں یہ سب کہہ رہا ہوں۔
یہ خوشامدی کلچر وہاں نیچے سے اوپر تک چلتا ہے۔ وائس چانسلرز کے مالی اور انتظامی اختیارات کی لامحدود وسعت کے باعث اساتذہ کو وی سی کی خوشامد کرتے دیکھا ہے۔
اسی طرح بااثر پس منظر کے اساتذہ کی میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں اور ترقیاں بھی دیکھ رکھی ہیں۔ بااثر کا مطلب یہ ہے کہ ٹیچر کا کوئی رشتہ دار وزیر، بیوروکریٹ یا مشہور صحافی ہو۔ اس صورت میں وہ ٹیچر خود کو یونیورسٹی کا مالک سمجھتا ہے۔
یونیورسٹیوں کا بنیادی منصب اس سماج اور دنیا کے لیے اہل افراد پیدا کرنا ہے۔ ایسے افراد جو اپنی سوچ فکر میں آزاد ہوں اور علم کی بنیاد پر سماج کے مختلف شعبوں میں اپنا حصہ ڈالیں۔
اگر طلبہ کو بھاری فیسوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں ’ذلت آمیز‘ سمجھوتے بھی کرنے پڑیں تو پھر وہ بہتر مستقبل کا منظرنامہ کیسے تشکیل دے سکیں گے؟
ایسی یونیورسٹیوں سے صرف نوکری باز مخلوق نکل سکتی ہے جس کی اپنی کوئی رائے ہوتی ہے اور نہ اس کے اظہار کا ان کے پاس حوصلہ ہوتا ہے۔
میری رائے میں پاکستانی یونیورسٹیوں کے نظام کو بے رحم قسم کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ ان کے مالی معاملات میں مکمل شفافیت کا نظام لاگو ہونا چاہیے اور ہر ڈیپارٹمنٹ میں انسداد ہراسیت یونٹ قائم ہونے چاہییں۔