کنیز باھو
جہاں جہاں مومنین کی صفات کا ذکر ہے وہ خود میں سمجھ کر مطمٸن ہوجانا، خوشخبری پڑھ کر خود کو مستحق گردان لینا، خود کو تھپکی دے لینا، اہل سمجھ لینا اور رک کر غور کیے بغیر آگے بھاگنا۔ جہاں منافقین کا ذکر ہے، کافروں کا ذکر ہے، ان کی صفات کا ذکر ہے، وہاں خود کو جاٸزہ لیے بغیر بَری کردینا۔ عذاب کا ذکر آیا تو بھی بغیر رکے ڈرے، اندر جھانکے بغیر یہ سمجھنا کہ میں تو ٹھیک ہوں، یہ چودہ سوسال پہلے کے کافروں کا ذکر ہے۔
حقوق وفراٸض کا ذکر آیا تو سمجھ لینا کہ میں نے سارے ادا کیے ہوئے ہیں۔ اپنے اندھے پن کی وجہ سے خود پر مکمل ہونے کی مہر لگا دینا دراصل خود کو مزید داغدار کرنے کے مترادف ہے۔
خود کو مکمل سمجھ لینا ہی بڑی رکاوٹ ہے۔
جو اپنے نفس پر بھروسہ کرلینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔!!!
بچے کو بھی حد سے زیادہ تھپکی دی جائے تو اس کا پراگریس گراف گرنا شروع ہوجاتا ہے، چاہے وہ جتنا بھی محنتی ہو، ذہین ہو نکما اور سست ہوجائے گا۔
یہ شیطان کا بہت خطرناک وار ہوتا ہے، جس پر چل جائے وہ
*نہ اپنے عیب دیکھ سکتا ہے
* نہ سچی توبہ کرسکتا ہے
*نہ استقامت اختیار کرسکتا ہے
*اپنی ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کی وجہ سے خود کو نیکوکار سمجھ کر انعام واکرام کا مستحق سمجھ لیتا ہے۔
ایسے طرزعمل سے بچنے کے لیے خود سے نکلنا ضروری ہے۔
اپنے نفس کی پہچان ضروری ہے۔
پہچان سے پہلے غلطی کو قبول کرنے،
اور پہچان کے بعد قبول کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔
*پہچان سے پہلے ہم اپنی طرف سے خود کو مارجن دیتے رہتے ہیں۔
*پہچان کے بعد وہی مارجن دوسروں کو دیتے ہیں معاف کرکے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرکے اپنا حق چھوڑ کر، حساب سے نکل کر، انصاف سے بہت آگے قربانیوں سے تعلق نبھاتے ہیں۔
*پہچان سے پہلے کنویں کا مینڈک بنے رہنا پسند ہوتا ہے، رسک نہیں لیتے خود ساختہ خوف اور وہم میں مبتلا رہتے ہیں، جس چیز میں شک ہو اس کو اپنا کر رکھتے ہیں۔
*پہچان کے بعد اللہ پاک پر بھروسہ کرکے طوفان سے ٹکرا جانے کا حوصلہ اور یقین پیدا ہوجاتا ہے۔
*پہچان سے پہلے خود کو مظلوم سمجھتے ہیں۔
*پہچان کے بعد اپنے سے بڑا ظالم کوٸی نہیں لگتا۔
*پہچان سے پہلے ہم خود کو معاف نہیں کرتے۔
*پہچان کے بعد خود کو معاف کردیتے ہیں۔
*پہچان سے پہلے عمل کھوکھلے ہوتے ہیں، نیت کھوٹی اور اخلاص کی کمی ہوتی ہے۔
*پہچان کے بعد نیت خالص ہوجاتی ہے۔
*پہچان سے پہلے قول وعمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔
*پہچان کے بعد تضاد بوجھ بن جاتا ہے”قولو قولا سدیداً“ کے مصداق بن کروہی سیدھی بات کہتے ہیں جو کرتے ہو۔
اندھا بندہ کتاب پڑھے تو سر میں درد شروع ہوجاتا ہے، طبیعت بوجھل ہوتی ہے اور پھر اکتا کر کتاب بند کردی جاتی ہے۔
اندھا پن دو نقاٸض کی وجہ سے ہوتا ہے :
*قریب نظری
*بعید نظری
ڈاکٹر معاٸنہ کرنے بعد اسی لحاظ سے کنکیو اور کنویکس لینز سے بنی عینکیں لگواتا ہے۔
آنکھ وہی، منظر وہی ہوتا ہے، بس! عینک کے کمال سے ٹھیک نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔
ایک جگہ سنا تھا کہ ایک شخص نے کسی حکیم سے سوال کیا کہ اسے نیند نہیں آتی، کئی برسوں سے اس مرض کا شکار ہے، دواٸیوں سے تنگ آچکا ہے، کوٸی ایسا طریقہ بتاٸیں کہ اسے نیند آجائے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ رات کو سونے سے پندرہ منٹ پہلے اپنے اندر جھانکا کرو، جو خیال آئے اسے لکھ لیا کرو۔
ابھی اس نے ایک صفحہ ہی لکھا تھا کہ سر بھاری ہونا شروع ہوگیا۔ کاغذ، پنسل وہیں چھوڑ کر بے سدھ ہوکر سوگیا۔
بغیر کسی نیند کی گولی کے، ایسی گہری نیند میں چلے جانا حیران کن تھا۔ ڈاکٹر کو بتایا تو وہ ہنس پڑے اور کہا کہ
”سب سے مشکل کام اپنی کتاب پڑھنا ہے ۔“
بابا بلھے شاہ ؒ صاحب فرماتے ہیں:
لکھ ہزار کتاباں پڑھیاں کدی اپنے آپ نوں پڑھیا ای نٸیں
جا جا وڑ دا مندر مسیتی کدی من اپنے وچ وڑیا ای نٸیں
ایویں روز شیطان نال لڑنا ایں کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نٸیں
بلھے شاہ آسمانی اڑدیاں پھڑنا این جیہڑا گھر بیٹھا اوہنوں پھڑیا ای نٸیں ۔
*اپنے آپ کو پڑھنے کے لیے
*اپنی چوریاں پکڑنے کے لیے
*اپنے عیب دیکھنے کے لیے
*اپنے مکروفریب اورچالیں سمجھنے کے لیے
*اپنی قریب نظری بعید نظری دورکرنے کے لیے
بصارت نہیں بصیرت کی ضرورت ہے، پاک طیب دل کی ضرورت ہے جو مثل آٸینہ ہو۔
جس کے لیے علامہ اقبال نے فرمایا تھا
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
دل بینا بھی کر طلب خدا سے
حدیث پاک میں ارشاد نبویﷺ ہے
مومن کا دل رحمن کا آٸینہ ہے .
جب دل پاک اور صاف ہوگا تبھی یہ رحمن کا آٸینہ بنے گا۔ اور دل پاک و صاف کیسے ہوگا؟
حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا
ہر چیز کو صاف کرنے کا کوٸی نہ کوٸی آلہ ہوتا ہے، دل کو صاف کرنے کے لیے اللہ تعالی کا ذکر ہے”
جب دل صاف ہوتا ہے تو کثافتیں دھل جاتی ہیں، مطالعہ تاثیر رکھتا ہے، مشاہدہ شعور کے دریچے کھول دیتا ہے۔
قرآن کی آیات خود پر اترتی محسوس ہوتی ہیں، کتاب الہامی کی تفسیر بھی الہامی ہوجاتی ہے
بقول حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست ، چیزے دیگر است
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ و گویا است ایں
’’جو بات میرے دل میں چھپی ہوئی ہے وہ میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں یہ ﴿قرآن حکیم﴾ کتاب نہیں کوئی اور شئے ہے- چنانچہ یہ حق تعالیٰ کی ذات کی مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی ہے- نیز یہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا بھی ہے اور یہ کلام بھی کرتا ہے‘‘-
اور جب کوئی خوش قسمت کلام اللہ ﴿قرآن پاک﴾ ظاہر کے ساتھ اس کے باطن میں بھی جھانکتا ہے بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال :-
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود
’’یہ قرآن جب کسی کے باطن میں اترتا ہے تو اس کے اندر انقلاب برپا کر دیتا ہے اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لیے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آجاتی ہے ۔‘‘
جیسا کہ داناۓ راز حضرت علامہ اقبال نے فرمایا
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کُشا ہے نہ رازی ؔ نہ صاحبِ کشَاف
2 پر “قرآن پاک پڑھتے ہوئے ہمارا عمومی رویہ کیا ہوتا ہے؟” جوابات
بہت خوبصورتی کے ساتھ آئینہ دیکھایا گیا ہے واقعی ہی اگر ہم دوسروں سے زیادہ اپنی غلطیوں پر نظر ثانی کرنے لگ جائیں۔ تو معاشرے میں بہت بہتری آسکتی ہے۔ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر معاشرے میں ایک فرد اٹھے اور اسلامی تعلیمات پر قانون نافذ کردے۔یہی ہم اپنے بارے میں سوچنا شروع کردیں تو ہمارے گھر کا ہمارے معاشرے کا ماحول بہت بہتر ہو سکتا۔
بہت عمدہ تحریر۔ یہ ایک یاد دہانی ہے، کہ واقعی ہم اپنے آپ کو بہت مارجن دیتے ہیں۔ ہمیسہ ہر غلطی کے لیے تاویلات تیار ہوتی ہیں۔ اور قرآن پڑھتے ہوئے بھی ہمارا رویہ زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب منافقین کا ذکر آتا ہے تو ہم اپنے آپ کو بالکل بری سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہمارے لیے ہے ہی نہیں۔ اور خوشخبریاں پڑھ کر خود کو اس کا حقدار سمجھتے ہیں۔