پرویز خٹک اور محمود خان

پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کا قیام: پاکستان میں سیاسی جماعتیں قائم کرنے کا منفرد انداز

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

پاکستان میں گزشتہ ایک عرصہ سے سیاسی جماعتیں عجب انداز میں قائم ہوتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں۔

انیس سو بانوے کا ورلڈ کپ جیتنے والے جناب عمران خان نے چار برس بعد انیس سو چھیانوے میں پاکستان تحریک انصاف قائم کی۔ حالانکہ اس سے قبل وہ واضح طور پر کہا کرتے تھے ‘ میں سیاست دان نہیں بننا چاہتا۔ سیاست بہت مہنگی ہوچکی، پارٹی بازی نے قوم کو تقسیم کردیا۔’ پھر انھوں نے یوٹرن لیا اور پاکستان تحریک انصاف قائم کرلی۔

اگلے چودہ، پندرہ برس تک جناب عمران خان اکیلے ہی اپنی جماعت کو لے کر پھرتے رہے، کوئی انھیں پوچھتا نہ تھا۔ ہاں ! اس دوران 2002 میں ایک بار قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ ان کی جماعت میں کوئی دوسرا امیدوار نہ جیت سکا۔ پھر 2011 آگیا اور عمران خان کی تحریک انصاف اچانک ایک گیسی غبارے کی مانند پھولنا شروع ہوگئی، انھیں ایک کرشماتی شخصیت قرار دیا جانے لگا۔ ان کی اور تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی غیر معمولی مقبولیت کے اسباب بیان کرتے ہوئے نامور دانشور، تجزیہ نگار کہتے کہ عمران خان نے ورلڈ کپ جیتا، شوکت خانم جیسا عظیم پراجیکٹ کھڑا کیا۔

یہ دانشور اور تجزیہ نگار اس سوال کا جواب دینے سے قاصر دکھائی دیتے تھے کہ ورلڈکپ 1992 میں جیتا، شوکت خانم ہسپتال 1994 میں بنایا، اس کے بعد عمران خان کی کرشماتی شخصیت اگلے پندرہ سولہ برس تک لوگوں کو متاثر کیوں نہ کرسکی، اچانک 2011 میں کرشمہ کیوں ابھر کر سامنے آیا؟ اس سوال کا جواب دینے کے بجائے وہ بغلیں جھانکنے لگتے تھے، تاہم وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھری گئی ہے، اور پھر 2018 آگیا، اور وہ ملک میں عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں لے کر ایوان اقتدار میں داخل ہوگئی۔

جب تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھری جارہی تھی، ہر طرف ہانکا لگایا جارہا تھا۔ نادیدہ قوتیں مختلف جماعتوں سے الیکٹیبلز کو دھونس دھمکی سے، گھیر کر تحریک انصاف میں شامل کرتی تھیں تاہم عمران خان کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ میرے نظریے سے متاثر ہوکر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ سوال مگر پھر وہی کہ عمران خان کا نظریہ گزشتہ ڈھائی عشروں تک لوگوں کو سمجھ کیوں نہ آیا؟ یہ اچانک لوگوں کے اذہان و قلوب کیسے مسخر ہوگئے؟

بعدازاں عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی اعتراف کرلیا کہ وہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک صفحہ پر تھے اور دونوں نے اکٹھے جینے مرنے کا عہد کر رکھا تھا۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ اپنے وعدوں سے پھر گئی، اس نے بے وفائی کی اور پی ڈی ایم والوں کے ساتھ پینگیں بڑھالیں۔

شاید تحریک انصاف آج بھی ایک بڑی جماعت کے طور پر موجود ہوتی ، اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر بے وفائی کا الزام عائد کرکے اس سے لڑائی جھگڑا شروع نہ کرتے، خاموشی سے ایوان اقتدار سے بے دخلی کو قبول کرلیتے، اسمبلیوں میں بیٹھے رہتے، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں چلاتے۔ تاہم انھوں نے وہ راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں ان کی تحریک انصاف کے حصے بخرے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

جس انداز میں تحریک انصاف قائم کی گئی تھی، اسے پروان چڑھایا گیا تھا، اسی انداز میں جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی قیادت میں جماعتیں قائم کی گئی ہیں۔ آج ایک بار پھر ہانکا لگایا گیا۔ جن لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کرایا گیا تھا، ان میں سے کچھ لوگوں کو پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی کی صورت منظم کیا گیا، اس کے سربراہ جہانگیر خان ترین ہیں جبکہ  خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی صورت میں ایک نئی طرح دی گئی ہے۔ اس کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرینز کے قیام کا دلچسپ منظر

پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینزکیسے قائم ہوئی؟ بی بی سی سے وابستہ صحافی عزیز اللہ خان بتاتے ہیں:

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور کے ساتھ جی ٹی روڈ پر ایک شادی ہال کے باہر پولیس کی بھاری نفری دور دور تک تعینات تھی اور گیٹ پر سادہ لباس میں لوگ فہرستیں دیکھ کر لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دے رہے تھے لیکن یہاں کسی کی شادی نہیں ہو رہی تھی۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اندر کیا ہونے جا رہا ہے ، کوئی انتہائی وی وی آئی پی شخصیت آ رہی ہے، یا کچھ بہت بڑا ہونے جا رہا ہے۔

ایک صحافی نے بتایا کہ انھیں ایسا لگا جیسے وزیر اعظم یہاں آ رہے ہیں اس لیے اتنے غیر معمولی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ جن گاڑیوں نے وہاں پہنچنا تھا وہ گاڑیاں سیدھا شادی ہال میں پہنچ رہی تھیں اور ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی جبکہ میڈیا کے لوگوں کو تو قریب بھی نہیں آنے دیا جا رہا تھا۔

یہ دراصل خیبر پختونخوا کی ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کی تقریب تھی۔ یہ جماعت پی ٹی آئی کے سابق رہنما پرویز خٹک کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے اور وہاں سے آمدہ ٹکرز اور خبروں کے مطابق پرویز خٹک کی حمایت 56 سابق اراکین اسمبلی نے کی ہے۔

پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے اجلاس میں شریک خواتین ارکان

صحافیوں کو بھنک تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما اور سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک کچھ کرنے جا رہے ہیں اور صحافی تو خبر کے لیے کہیں بھی چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے اس تقریب میں بھی صحافی بن بلائے چلے گئے، لیکن چار مقامی صحافیوں کو سادہ لباس میں موجود اہلکاروں نے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور ان سے موبائل فون بھی لے لیے گئے۔

سینیئر صحافی فدا عدیل بھی وہاں گئے تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کے چار ساتھیوں کو تو ایک طرح سے حراست میں لے لیا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین اور ان کے ساتھی وہاں پہنچ گئے اور ساتھیوں کی رہائی کی بات کی جنھیں بعد میں چھوڑ دیا گیا، لیکن انھیں ان کے موبائل فون نہیں دیے گئے۔

صحافی چکمنی تھانے گئے اور وہاں بتایا گیا کہ موبائل فون انھیں بعد میں ملیں گے۔

پشاور کے ایک سینیئر صحافی سراج الدین نے بتایا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ پشاور کے جھگڑا سٹاپ سے آگے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔

’پولیس کافی چاک و چوبند نظر آرہی تھی۔ اس وقت دوپہر کا ایک بج رہا تھا اس لیے پولیس اہلکاروں کو کھانا بھی دیا جا رہا تھا۔‘

عام طور پر اس طرح پولیس اہلکاروں کو کھانا کم ہی دیا جاتا ہے صرف محرم کے دنوں میں یا کوئی غیر معمولی سرگرمی کے لیے تعیناتی ہو تو اس کے لیے پولیس اہلکاروں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔

یہ تقریب ایک شادی ہال میں ہو رہی تھی اور وہاں صحافی موجود تھے جنھیں بار بار یہی کہا جا رہا تھا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں کسی کو تصویر یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہے۔سینیئر صحافی فدا عدیل نے بتایا کہ ’جب وہ پہنچے تو انھوں سڑک پر کھڑی میڈیا کی گاڑیاں دیکھیں اور صحافی خود سخت گرمی میں اس انتظار میں تھے کہ انھیں کب موقع ملے کہ وہ کوئی خبر نکالیں یا تصویریں اور ویڈیو بنا سکیں۔‘

پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے پہلے اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ محمود خان بھی شریک

صحافیوں نے بتایا کہ انھیں کہا گیا کہ خبر ٹکرز تصویریں اور ویڈیوز آپ کو مل جائیں گی، آپ یہاں سے چلے جائیں لیکن کچھ صحافی اپنی ذمہ داری خود ادا کرنا پسند کرتے ہیں۔

ایک صحافی نے بتایا کہ شادی ہال کے قریب تو کیا شادی ہال سے دور سے بھی تصویریں نہیں بنانے دی جا رہی تھیں، حیرانگی تھی کہ یہ کسی سیاسی جماعت کی تقریب ہے یا کچھ اور ہونے جا رہا ہے۔

صحافیوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس تقریب کا منتظم کون ہے کیونکہ پرویز خٹک اور ان کے صاحبزادے تو کافی دیر سے پہنچے تھے۔

وہاں آنے والے تین افراد تو ایسے تھے جو گرفتار تھے لیکن آج اس جماعت کے قیام کی تقریب میں شریک تھے۔ ان میں ارباب وسیم، واجد، اور شاہ فیصل کے نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں دو کی تصویریں گذشتہ روز جاری کی گئی تھیں جب انھیں ہتھکڑیاں لگا کے لے جایا جا رہا تھا۔ ایک رکن کے بارے میں بتایا گیا کہ انھیں آج صبح ہی حراست میں لیا گیا تھا۔

اس تقریب میں شریک سابق اراکین میں سے کچھ سے رابطے کی با رہا کوشش کی گئی لیکن ان کے نمبر بند آ رہے تھے۔ دیگر صحافیوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان اراکین سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا اور ان کے نمبر بند آ رہے تھے۔

اس تقریب کی اہم بات سابق وزیر اعلی محمود خان کی شرکت بتائی جا رہی ہے کیونکہ ان کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ عمران خان کو نہیں چھوڑیں گے اور ان کا اپنا گروپ بہت مضبوط ہے۔

پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے پہلے اجلاس میں شرکا

یہاں عام تاثر یہ بھی تھا کہ صرف چند ایک کے علاوہ اس تقریب میں ایسا کوئی رکن موجود نہیں تھا جو پاکستان تحریک انصاف کا وہ چہرہ ہو جسے میڈیا میں یا سامنے آنے پر لوگ پہچانتے ہوں۔سراج الدین نے بتایا کہ اس تقریب میں شرکت کے لیے اراکین گاڑیوں میں آتے اور سیدھا شادی ہال کے اندر چلے جاتے۔ لگ بھگ چالیس سے پچاس گاڑیاں شادی ہال کے اندر داخل ہوئی ہیں۔ صحافی اس انتظار میں تھے کہ ابھی پرویز خٹک پریس کانفرنس کرکے باقاعدہ اعلان کریں گے لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

حیران کن بات یہ تھی کہ تقریب تو سیاسی جماعت کے قیام کی تھی تو پھر اسے اتنا خفیہ کیوں رکھا جا رہا تھا کہ صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی تھی۔ پرویز خٹک اگر سیاسی جماعت کا اعلان کرنا چاہتے تھے تو وہ میڈیا کے سامنے باقاعدہ اعلان کر سکتے تھے، اس طرح کا اعلان بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔

ایک صحافی نے بتایا کہ سوچیں جب ایک سیاسی جماعت کے قیام کی تقریب میں صرف شادی ہال کی تصویر بنانے پر صحافیوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے تو اگر یہ جماعت اقتدار میں آ گئی تو پھر کیا حال ہو گا۔

سینیئر صحافی فدا عدیل نے بتایا کہ ’اگر صرف مل کر بیٹھنا ہی تھا تو یہ میٹنگ پرویز خٹک کے گھر میں بھی ہو سکتی تھی اس طرح کی تقریب تو اس نئی جماعت، اس کے قائدین اور اس کے منتظمین کے لیے بھی باعث شرمندگی ہی رہے گی۔‘

ایک صحافی نے بتایا کہ یہ شادی ہال جی ٹی روڈ پر واقع ہے اور کچھ لوگوں نے تو گاڑی میں گزرتے گزرتے بھی اس شادی ہال کی ویڈیو بنالی تھی۔

صحافیوں نے بتایا کہ دعوی تو 56 اراکین اسمبلی کی حمایت کا کیا گیا ہے لیکن وہاں موقع پر اراکین کی تعداد سے کافی کم تھی۔

بادبان ، عبید اللہ عابد


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کا قیام: پاکستان میں سیاسی جماعتیں قائم کرنے کا منفرد انداز”

  1. فروا حسن Avatar
    فروا حسن

    بہت خوب
    اللہ کرے. زورِ قلم اور زیادہ