بادبان رپورٹ
جب یہ سطور کی جارہی ہیں ، انٹرنیٹ کی دنیا میں میڈیا اور سوشل میڈیا سائٹس پر افغان گلوکارہ حسیبا نوری کے قتل کی خبریں جنگل میں آگ کی طرح ہر طرف پھیل رہی ہیں۔ تمام خبریں بھارتی میڈیا پر شائع ہوئی ہیں۔ 3 گھنٹے پہلے بھارتی اخبار ٹربیون انڈیا نے اپنی ویب سائٹ پر مشہور افغان گلوگارہ کے قتل کی خبر شائع کی، 7 گھنٹے پہلے دی سٹیٹس مین نے یہی خبر شائع کی۔ یہ اخبار بھی بھارت ہی کا ہے۔
4 گھنٹے قبل انڈیا ٹی وی نیوز نے افغان گلوکارہ کے قتل کی خبر نشر اور شائع کرتے ہوئے افغان گلوکارہ کی زندگی کے بارے میں کافی معلومات دینے کی کوشش کی۔ 4 گھنٹے قبل ہی دی وائر نے بھی حسیبا نوری کے قتل کی خبر شائع کی۔ 11 گھنٹے قبل فری پریس جرنل نے بھی یہی خبر شائع کی۔ یہ بھی بھارتی نیوز ویب سائٹ ہے۔
ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین یوسفزئی سمیت کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے بھی گزشتہ کئی گھنٹوں سے یہ خبر سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے کہ طالبان کی وجہ سے افغانستان چھوڑنے والی افغان گلوکارہ حسیبا نوری کو پشاور میں قتل کر دیا گیا۔
اس خبر پر تبصرہ کرنے والے افراد نے جہاں افغانستان چھوڑنے پر مجبور افراد سے اظہار ہمدری کیا وہیں پاکستانی حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی کے والد اور دیگر اکاؤنٹس نے حسیبا نوری کے پشاور میں مبینہ قتل کی خبر شیئر کی تو اسے ری شیئر کرنے والوں نے گلوکارہ کی زندگی سے متعلق دیگر تفصیلات بھی شیئر کیں۔
رادیش سنگھ ٹونی نے لکھا کہ ’کابل سے اپنی زندگی بچانے کے لیے فرار ہونے والی حسیبا نوری نہیں جانتی تھی کہ خیبرپختونخوا ان کے اپنے ملک سے زیادہ خطرناک ہے۔‘
اسی دوران کچھ افغان صحافیوں کی جانب سے بھی حسیبا نوری کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ان کے قتل کی اطلاع شیئر کی گئی۔
امریکا میں مقیم افغان صحافی مرضیہ حافضی نے بھی گلوکارہ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے خیبرپختونخوا میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں ان کے مبینہ قتل کا دعوی کیا۔
خود کو کینیڈا میں مقیم افغانوں کے جرگہ کے طور پر متعارف کرانے والے ایک ٹوئپر نے حسیبا نوری کی تصویر اور مبینہ قتل کی اطلاع شیئر کی تو ایک قدم آگے بڑھ کر اسے ریاستی سرپرستی میں کی گئی کارروائی کے طور پر پیش کیا۔
تقریبا 24 گھنٹے تک ٹائم لائنز پر مسلسل شیئر کی جانے والی خبر کا فوکس مبینہ قتل اور پشاور رہا۔
ضیاالدین یوسفزئی، امریکا وکینیڈا سے تعلق بتانے والے افغان اکاؤنٹس اور افغان صحافیوں کی جانب سے شیئر کی گئی خبر خود کو صحافت یا دیگر شعبوں سے وابستہ پاکستانی اکاؤنٹس نے بھی شیئر کرنا شروع کی تو خیبرپختونخوا کے افغانستان سے زیادہ خطرناک ہونے کا ذکر کیا۔
اسی دوران پشاور سے تعلق رکھنے والے کئی ٹوئپس نے استفسار کیا کہ یہ واقعہ کہاں ہوا ہے؟ لحاظ علی نے پوچھا کہ ’پشاور میں گلوکارہ کا قتل کہاں ہوا ہے؟‘
پاکستانی صحافیوں اور چند دیگر ٹویپس نے وضاحت کی کہ حسیبا نوری افغانستان چھوڑنے کے بعد سے پشاور میں نہیں بلکہ بلوچستان میں مقیم تھیں تو ان کا مبینہ قتل خیبرپختونخوا میں کیسے ہو سکتا ہے؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ٹیلی ویژن میزبان سید وقاص شاہ ترمذی نے خیبرپختونخوا پولیس سے ہونے والی اپنی گفتگو کا حوالہ دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’ایسا کوئی واقعہ حال میں نہیں ہوا، نہ ہی رجسٹرڈ ہوا ہے۔ میری معلومات کے مطابق کوئٹہ میں ایک افغان خاتون خواب آور دوا زیادہ مقدار میں لینے کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ وہ حسیبہ نوری تھی یا کوئی اور خاتون تھی۔‘
ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاالدین یوسفزئی کو مخاطب کرتے ہوئے کئی ٹویپس نے لکھا کہ ’لوگ آپ پر اعتبار کرتے ہیں، ایسی جھوٹی اطلاعات شیئر نہ کریں۔ بہتر ہے پہلے دیکھ لیا کریں۔‘
متعدد افراد کی نشاندہی کے باوجود افغان گلوکارہ کے مبینہ قتل کی اطلاعات شیئر کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔۔ اسی دوران ایک ویڈیو پیغام سامنے آیا جس میں حسیبا نوری نے وضاحت کی کہ وہ زندہ ہیں۔
ویڈیو پیغام میں افغان خاتون کا کہنا تھا کہ ان کی بیماری کے دوران کی تصویر شیئر کر کے ان کی موت کا تاثر دیا گیا۔
حسیبا نوری کی وضاحت سامنے آنے کے بعد متعدد ٹوئپس نے موقف اپنایا کہ جن افراد نے غلط پروپیگنڈہ کیا، کیا وہ اب اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے معذرت کریں گے۔
محمود جان بابر نے لکھا کہ جن جن لوگوں نے اس معاملے میں پاکستان کی بدنامی کے ٹویٹس کیے ان پر فرض ہے کہ وہ پوری قوم سے معافی مانگیں اور ہر بات کرنے سے پہلے سوچ سمجھ لیا کریں ایسے کاموں سے حکومت کے علاوہ عوام کی بھی دل آزاری ہوتی ہے۔
ایک تبصرہ برائے “افغان گلوکارہ حسیبا نوری کا قتل، اصل قصہ کیا نکلا؟”
Thanks for sharing