بادبان رپورٹ
بھارت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ہر مسئلے کی جڑ مسلمانوں کو قرار دیتا یے، بھینس دودھ نہ دے، مرغی انڈے نہ دے، ذمہ دار مسلمان۔
انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ہمنتا بسوا سرما نے پوری ریاست اور خصوصاً دارالحکومت گوہاٹی میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کے لیے ’میاں مسلم‘ تاجروں کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔
ان کے اس بیان کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسی بنا پر انھیں مختلف حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
آسام کی ایک اہم پارٹی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے سربراہ اور رکن پارلیمان بدرالدین اجمل نے اسے افسوسناک قرار دیا ہے جبکہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے بھی ہمنتا بسوا سرما کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
آسام کے وزیر اعلی نے کیا کہا تھا؟
صحافیوں کی طرف سے سبزیوں کی انتہائی زیادہ قیمتوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے کہا
‘اس وقت جن لوگوں نے سبزیوں کی اتنی زیادہ قیمت کر رکھی ہے وہ کون لوگ ہیں؟ میاں تاجر ہیں، جو زیادہ قیمت پر سبزیاں فروخت کر رہے ہیں۔’
آسام میں ‘میاں’ کا لفظ اکثر بنگالی نژاد مسلمانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ بہار، اترپردیش اور دیگر جگہ عام طور پر مسلمانوں کے لیے ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ وہ کھیتی باڑی کرتی ہے۔ سبزیوں اور مچھلیوں کا کاروبار کرتی ہے۔
اس سے پہلے آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر اور لوک سبھا کے رکن بدرالدین اجمل نے کہا تھا کہ آسام ‘میاں’ برادری کے بغیر نامکمل ہے۔
اجمل کے اس بیان پر وزیر اعلیٰ سرما نے کہا کہ اجمل نے اس طرح کے ریمارکس کرکے حقیقت میں آسامی برادری کی توہین کی ہے۔
وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے کہا: ‘میاں تاجر گوہاٹی میں آسامی لوگوں سے سبزیوں کے لیے زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں، جب کہ گاؤں میں سبزیوں کی قیمت کم ہے۔ اگر آسامی تاجر آج سبزیاں بیچ رہے ہوتے، تو وہ اپنے آسامی لوگوں سے کبھی زیادہ قیمت وصول نہ کرتے۔’
وزیر اعلیٰ نے آسام کے نوجوانوں سے کہا کہ وہ آگے آئیں اور ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
انھوں نے یقین دلایا کہ وہ ذاتی طور پر خالی کرائے گئے فلائی اوور کے نیچے بازار کی جگہ حاصل کریں گے، تاکہ آسامی لڑکوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں۔ اس وقت گوہاٹی کے فلائی اوور کے نیچے سبزیاں اور پھل بیچنے والے زیادہ تر لوگ میاں برادری کے مسلمان ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا: ‘ہم سب نے دیکھا ہے کہ عید کے دوران گوہاٹی شہر میں بسوں کی آمدورفت کیسے کم ہو جاتی ہے۔ بھیڑ کم دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر بس اور کیب ڈرائیور میاں برادری سے ہیں۔’
حزب اختلاف کی تنقید
حیدرآباد (دکن) سے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے بی بی سی ہندی کی خبر کے جواب میں لکھا کہ ‘ملک میں ایک ایسی منڈلی ہے جس کے گھر میں اگر بھینس دودھ دینا بند کر دے یا مرغی انڈا نہ دے تو اس کا الزام بھی میاں جی پر ہی لگا دیں گے۔ شاید اپنی ‘نجی’ ناکامیوں کا ٹھیکرا بھی میاں بھائی کے سر ہی پھوڑتے ہوں گے۔ آج کل مودی جی کی بیرون ملک کے مسلمانوں سے گہری یاری چل رہی ہے، انھی سے کچھ ٹماٹر، پالک، آلو وغیرہ مانگ کر کام چلا لیجیے۔’
خیال رہے کہ ابھی حال ہی میں انڈین وزیرِ اعظم نے مصر کا دورہ کیا تھا جہاں انھیں وہاں کے اعلیٰ ترین اعزاز ‘آرڈر آف دی نائل’ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ جبکہ اس سے قبل انھیں سعودی عرب سے بھی اعلیٰ ترین شہری اعزاز دیا جا چکا ہے۔ فی الحال وہ فرانس کے دورے کے بعد ابھی متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں۔
دوسری جانب کانگریس پارٹی کی آسام یونٹ نے ریاست میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ پر آسام حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سبزیوں کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
انڈیا میں ان دنوں سبزیوں اور بطور خاص ٹماٹر کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور متعدد ریاستوں سے ٹماٹروں کی چوری کی بھی خبریں آ رہی ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں گزشتہ روز جب ہم نے ٹماٹر کے بھاؤ پوچھے تو وہ 60 روپے پاؤ تھے جبکہ اس سے دو دن قبل وہ 40 کے پاؤ تھے۔ دکاندار نے کہا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا مہنگا ٹماٹر نہ منڈی سے خریدا ہے اور نہ لوگوں کو فروخت کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے
صحافی عزیر رضوی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘انڈیا کی ایک شمال مشرقی ریاست کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا نے مبینہ طور پر ریاست میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا ہے۔
‘نازی جرمنی میں معاشی بحران اور افراط زر کا ذمہ دار یہودیوں کو ٹھہراتے تھے۔’
سبزیوں کی قیمت میں اضافے کا سبب بتاتنے ہوئے کیٹلیا نامی صارف نے لکھا کہ ’ماہرین کہتے ہیں کہ خراب موسم نے فصلوں کو تباہ کیا ہے جس کی وجہ سے بازار میں کمی ہے اور یہ مانگ اور فراہمی میں عدم مطابقت کے سبب ہے۔ لیکن ہمنتا کہتے ہیں کہ اس کا سبب ‘میاں مسلم’ ہیں۔‘
کوسٹا نامی صارف نے لکھا کہ ‘یہ غیر تعلیم یافتہ ہیمنتا ناکام وزیر اعظم مودی اور وزیر خزانہ سیتارمن کو تنقید کرنے کے بجائے مسلمانوں کی تنقید کر رہے ہیں۔’
شکیب شرافت نامی ایک صارف نے لکھا: ’واہ، بڑے مزے کی بات ہے کہ وزیر اعلی نے سبزیوں کی قمیت میں اضافے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا ہے۔ اگر سبزیوں کی قیمت گرنے لگیں تو وہ کیا کہیں گے؟‘
اس سے قبل رواں سال مئی کے مہینے میں ہمنتو بسوا سرما نے ‘فرٹیلائزر جہاد’ کے تحت مسلم کسانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
سرما نے گوہاٹی میں نیچر فارمنگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’جب ہم نے آسام پر حکومت کرنا شروع کی تو ہم نے عوام کو مطلع کیا کہ ریاست میں مختلف غذائی اشیاء میں کھادوں کے زیادہ استعمال کی وجہ سے دل، گردے کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ’کھاد کے جہاد کے خلاف‘ کام کر رہی ہے۔‘
ویب سائٹ سکرول نے اس بابت لکھا کہ ’اگرچہ ‘لو جہاد’ ہندو بالادستی کی خواہاں تنظیموں کی طرف سے پیش کیا گیا ایک سازشی نظریہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ یہ مسلمان مردوں کی طرف سے ہندو خواتین کو ورغلانے اور انھیں اسلام قبول کرنے کی ایک منظم سازش ہے۔
’اسی طرح ‘لینڈ جہاد’ سے مراد مسلمانوں کی طرف سے سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی ہے۔ اسی طرح پچھلے سال آسام کے سلچر میں آنے والے سیلاب کے بعد سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ‘فلڈ جہاد’ جہاد کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ دریا کے ایک پشتے کو تباہ کرنے کی وجہ سے ایسا ہوا۔‘
سکرول نے لکھا کہ ’آسام کے وزیر اعلیٰ کا چونکا دینے والا نئے ‘فرٹیلائزر جہاد’ کی اختراع بڑے پیمانے پر ریاست کے بنگالی مسلم سبزی کاشتکاروں کو ایک مذموم سازش سے جوڑتی دکھائی دیتی ہے۔‘