جویریہ خان
اگر آپ پاکستان کے کسی بھی شہر یا علاقے میں رہتے ہیں تو آپ کا بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ضرور واسطہ پڑتا ہوگا۔ پچھلے دنوں لاڑکانہ اور گردونواح میں بجلی کی فراہمی 7 روز تک بند رہی۔ بلوچستان میں 18 اٹھارہ گھنٹے بجلی بند رہنا معمول ہے۔ تاہم اس ملک کے عام لوگ محض اسی ایک عذاب میں گرفتار نہیں ہیں، انھیں بجلی ملے یا وہ بدترین گرم موسم میں گھنٹوں بجلی کے بغیر وقت گزاریں، انھیں ہر آنے والے مہینے پچھلے مہینے کی نسبت زیادہ بل ادا کرنا پڑتا ہے۔
جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں، حکومت پاکستان ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں ساڑھے 3 روپے فی یونٹ اضافہ کی تیاری مکمل کرچکی ہے۔ یہ کرامت ہے حکومت پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے درمیان نئے معاہدے کی۔ سلسلہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوگا بلکہ آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں بھی حکومت پاکستان بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتی چلی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس بجلی کی قیمتیں 8 روپے فی یونٹ بڑھائی گئی تھیں اور اس سال بھی 8 روپے فی یونٹ بڑھنے کا امکان ہے۔
سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف حکومت پاکستان سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کیوں کرتا ہے؟
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ آئی ایم ایف ایسا کوئی مطالبہ نہیں کرتا، وہ صرف توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلا آئی ایم ایف کہتا ہے کہ بجلی کی چوری روکی جائے، لوگوں سے بل پورے وصول کیے جائیں، ناقص ٹرانسمیشن لائن سے بجلی پیدا کرنے والی سرکاری کمپنیوں کو پہنچنے والا نقصان ختم کیا جائے۔ اور بجلی کو اس کی پیداواری لاگت سے کم میں فروخت نہ کیا جائے۔
آئی ایم ایف یہ مطالبات خواہ مخواہ نہیں کرتا بلکہ جب پاکستانی حکمران آئی ایم ایف سے قرضہ لینے جاتے ہیں، عالمی ادارہ کہتا ہے کہ آپ یہ قرض واپس کیسے کرو گے؟ تب پاکستان کے حکمران بغلیں جھانکنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ٹھیک ہے، ہم آپ کو کچھ تجاویز دیتے ہیں۔ تونائی کے شعبے میں اصلاحات انہی تجاویز میں سے ایک تجویز ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات حکومت کے لیے ایک مشکل ترین کام ہے۔
پاکستانی حکمران مشکل کام کرنے سے جی چراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچلی چوری نہیں روکتے، ناقص ٹرانسمیشن لائنوں کو ٹھیک نہیں کر تے۔ حکومت کے پاس ان سب مسئلوں کا آسان حل بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں وہ توانائی کے شعبے میں ہونے والا نقصان پورا کرتی ہے۔
بہ الفاظ دیگر جو لوگ بجلی کے بل دیتے ہیں، انہی کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بچلی چوروں کا بل بھی ادا کریں، ناقص ٹرانسمیشن لائنوں سے ہونے والا نقصان بھی وہی پورا کریں۔ اور بجلی چوری روکنا ، جن کی ذمہ داری ہے، وہ اپنی اربوں روپے کی تنخواہ انہی پاکستانی عوام سے بزور وصول کرتے ہیں، اور بجلی بھی مفت کی استعمال کرتے ہیں۔
حکمران ایک اور آسان کام کرتے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا سارا الزام آئی ایم ایف پر عائد کر دیتے ہیں اور خود کو مجبور محض قرار دیتے ہوئے ملک و قوم کے سب سے بڑے خیر خواہ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کا ایک حصہ انھیں مجبور تسلیم کرلیتا ہے، وہ یہ بھی مان لیتا ہے کہ یہ مہنگائی پچھلی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
ہر حکمران ایسی ہی باتیں کرتا ہے اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہر حکمران کی ایسی باتوں پر یقین کرلیتی ہے۔ اصل حقیقت کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔
سوال یہ ہے کہ یہ حقائق جان کر ، کیا آپ بھی آپ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا ذمہ دار آئی ایم ایف کو سمجھتے رہیں گے؟