ماہ رخ شہریـــار
زیر نظر کتاب ایک آپ بیتی ہے جس میں مصنفہ روبینہ قریشی صاحبہ نے اپنی یادداشتیں سمونے کی کوشش کی ہے۔ اگر ہم آپ بیتی کی تعریف دیکھیں تو وہ کچھ یوں ہے:
” خود نوشت آپ بیتی یک نثری ادبی صنف ہے۔ یہ صنف مصنف کی اپنی سوانح عمری یا پھر آپ بیتی ہوتی ہے، جسے انگریزی میں Autobiography کہہ سکتے ہیں۔ خود نوشت کا محور مصنف کی شخصیت ہوتی ہے۔“ اس حوالے سے فِلپ گیدلا کا ایک دلچسپ قول بھی حاضر خدمت ہے:
”سوانح نگاری ایسا علاقہ ہے جس کے شمال میں تاریخ، جنوب میں افسانہ طرازی، مشرق میں تعزیت نگاری اور مغرب میں کوفت اور ناگواری کے علاقے پائے جاتے ہیں۔“
وجاہت مسعود آپ بیتی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”ادب میں خود نوشت کی صنف دوہری دھار کا خنجر ہے۔ سب سچ لکھے نہیں جاسکتے اور سچ تو یہ ہے کہ پورا سچ جاننے کا دعویٰ کون راٹھور کرے گا۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ لکھنے والے کی آنکھ ذراسی چوک جائے تو خود نوشت خودستائی کی دلدل میں اتر جاتی ہے جہاں سے بیل گاڑی کو کندھا دے کر باہر نکالیں تو قلم کا ابلق منہ زور جعلی انکسار کے کھیت میں جا گھستا ہے۔ “
عموماً آپ بیتی لکھنے کا بنیادی مقصد لوگوں تک اپنے حالات زندگی کو پہنچانا ہوتا ہے جس کے مختلف مقاصد ہوسکتے ہیں۔ اکثر لکھاریوں کے پیش نظر یہ مقصد ہوتا ہے کہ لوگ ان کے حالاتِ زندگی کے بارے میں جانیں اور ان کے تجربات سے مستفید ہونے کی کوشش کریں۔ اسی لیے اردو ادب میں بے شمار آپ بیتیاں لکھی اور ترجمہ کی جاچکی ہیں تاکہ قارئین ان شخصیات کی جدوجہد کے بارے میں جان سکیں جس کےذریعے انہوں نے اپنے مشکل حالات پر قابو پایا ہوتا ہے۔
اردو کی اولین آپ بیتی ”کالاپانی“ کے نام سے مشہور ہے۔ مولانا جعفر تھانیسری کی کتاب تواریخ عجیب المعروف کالا پانی کا پہلا حصہ 1879 اور دوسرا 1884 میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے جزیرہ انڈمان پر اپنی قید کا حال بیان کیا ہے۔
روبینہ قریشی صاحبہ کی خودنوشت کچھ عرصہ قبل موصول ہوئی۔ پڑھنے کے باوجود تبصرہ کرنے کا وقت نہیں ملا سکا، اس لیے آج چند سطریں اس کتاب کے متعلق حاضر خدمت ہے۔
روبینہ صاحبہ کا تعلق شاہینوں کے شہر سرگودھا سے ہے۔ شادی سے پہلے ان کی رہائش خوشاب کے ایک گاؤں ٹبہ قائم دین میں تھی۔ شروع کے ابواب میں انہوں نے اپنے بچپن کا حال بیان کیا ہے اور بارہا جگہوں پر اس زمانے اور آج کےزمانے کا موازنے کرنے کی کوشش کی ہے۔ شادی کےبعد جب وہ سرگودھا شفٹ ہوگئیں تو انہوں نے وہاں گزرے ایام کے متعلق بیان کیا ہے کہ سسرال میں انہوں نے کیسے زندگی گزاری ہے؟
روبینہ قریشی صاحبہ کو تاریخ اور معلومات حاضرہ پر بھی خاصی گرفت حاصل ہے۔ یہ بات ان کی کتاب میں واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثلاً روبینہ قریشی سرگودھا کے بارے لکھتی ہیں:
”میرا شہر نگاراں میرا کوچہ یاراں میرا شہر دلبراں میرا پیارا سرگو دھا جس کو میری آنکھوں کے سامنے شاہینوں کے شہر کے نام سے نوازا گیا۔ جسے 1965 کی جنگ کے بعد نشان استقلال، اور صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یاد ر ہے کہ پاکستان میں ابھی تک لاہور اور سیالکوٹ کے علاوہ یہ اعزاز صرف سرگودھا کے حصے میں آیا ہے۔ ایم ایم عالم جنہوں نے تیس سیکنڈ میں دشمن کے 5 جہاز مار گرائے اور ان کا یہ ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ انہوں نے یہ کارنامہ بھی سرگودھا میں انجام دیا تھا۔ جنرل حمید گل جن سے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا، بھی سرگودھا کے فرزند تھے۔
1903 میں آباد ہونے والے شہر سرگودھا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک سادھو ، گودھا ، جو گول کھوہ والے مقام میں رہائش پذیر تھا، کے نام پہ اسے سرگودھا کہا جاتا ہے۔
یہ شہر پاکستان کے ان چند شہروں میں سے ہے جنہیں باقاعدہ نقشے اور پلاننگ کے ساتھ آباد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ فیصل آباد اور اسلام آباد کے ساتھ ساتھ سرگودھا کے قریبی شہر جوہر آباد کو بھی منصوبہ بندی کے ساتھ آباد کیا گیا تھا۔ سرگودھا کو پاکستان کا کیلیفورنیا بھی کہا جاتا ہے۔“
سرگودھا کی مقبول و معروف شخصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ:
” سرگودھا میں قریشی فیملی، ٹوانہ خاندان، نون فیملی ،مخدوم گھرانے، اعوان فیملی، رانجھا فیملی اور میلہ فیملی بہت شروع میں آباد ہونے والے خاندانوں میں سے ہیں۔
نون فیملی کے ملک فیروز خان اپنے وقت کے نہایت اعلی تعلیم یافتہ اور قابل انسان تھے جنہیں قائد اعظم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان بننے کے بعد انہیں وزیر اعلیٰ اس کے بعد وزیر خارجہ اور پھر پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم کی حیثیت سے مقرر کیا گیا۔
پیر کرم شاہ جو کہ مصر کی جامعہ الازہر کے تعلیم یافتہ تھے،اور جنہوں نے حفاظت ختم نبوت میں مؤثر کردار ادا کیا جس کی بناء پر انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، کا تعلق بھی سرگودھاکے علاقے بھیرہ سے تھا۔
خواجہ قمر الدین سیالوی جن کے والد صاحب کا کفن مسلم لیگ سے تھا اور انگریز انہیں سرکار کا باغی کہتے تھے کا تعلق بھی سرگودھا سے ہے۔
نواب محمد حیات قریشی مسلم لیگ کے ایک سرگرم کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کے قریبی ساتھی بھی تھے کا تعلق بھی سرگودھا سے تھا۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال بھی سرگودھا کے گاؤں بندیال سے تعلق رکھتے ہیں۔ بریگیڈیئر اسلم حیات قریشی چیف سیکریٹری پنجاب بھی سرگودھا کے مشہور قریشی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔“
بعض مقامات پر ان کی کتاب اس قدر دلچسپ ہے کہ جی چاہتا ہے کہ بس پڑھتے ہی چلے جائیں اور اس انداز بیاں میں ڈوبے ہی رہیں۔ روبینہ قریشی نے جدوجہد سے بھرپور زندگی گزاری ہے۔دور حاضر کی خواتین کو ان کے تجربات سےضرور مستفید ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کو مزید بہتر بنا سکیں اور آنے والی نسل کی بہترین تربیت کر سکیں۔
مصنفہ کی اس جدوجہد کے دور کو فیس بک کی مقبول لکھاری آصفہ عنبرین قاضی یوں بیان کرتی ہیں:
”یہ کتاب لچک کی طاقت اور اپنے خوابوں کو بھی ترک نہ کرنے کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ ان تمام صفحات میں آپ عاجزانہ شروعات، جدو جہد، کامیابیوں، تعلقات، ذاتی کشمکش اور الجھی گرہوں کے سلجھنے کے بارے میں پڑھتے جائیں گے۔ لکھاری کا اسلوب بیاں بہت سادہ لیکن انداز بیاں بہت گہرا ہے۔ مصنفہ نے زندگی میں پیش آنے والے خوبصورت تجربات اور تلخ مشاہدات کو بہت نپے تلے اور مؤثر انداز میں قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ واقعات کی کڑیاں یوں ایک دوسرے سے جڑی ہیں کہ آپ ایک باب پڑھ لینے کے بعد دوسرے کی طرف از خود چل پڑتے ہیں۔ کہیں بھی فضا بو جھل نہیں ہے۔“ کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے ہے۔ ملنے کا پتہ ہے: سرکار پبلشرز، ملتان ، رابطہ: 03004228864
مجھے پوری امید ہےکہ آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو آپ کو مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ان شاءاللہ۔ اللہ روبینہ صاحبہ کے قلم میں برکت دے اور ان کو مزید ڈھیروں خوشیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔