عائشہ غازی، دفاعی تجزیہ نگار، ڈاکومنٹری فلم میکر، شاعرہ

غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے والوں کی لرزہ خیز کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عائشہ غازی

آپ ہمدردی ضرور کریں لیکن ہمدردی میں بھی توازن نہ رہے تو وہ ازخود ظلم بن جاتی ہے۔ ہر بات میں سارا قصور ریاست کا نہیں ہوتا ورنہ عدالت کا جواز نہیں رہتا۔ جرم اور ظلم کی سرکوبی ریاست کی ذمے داری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ افراد کو ان کی ذمے داری اور فرد جرم سے مبرا قرار دے دیا جائے۔

غربت کس حد پر جا کر جرم کا جواز پیش کرتی ہے اور پھر کون سے جرائم کا جواز، یہ بحث اور حد بندی بےحد اہم ہے۔ ورنہ آپ کے معاشرے میں چوری ڈکیتی سے لے کر دفتری کرپشن تک سب کا جواز ‘غربت’ میں ڈھونڈ کر الٹا مجرم کو مظلوم بنانے کا رواج چل پڑا تو علاوہ جرائم پیشہ افراد کے، یہاں کوئی باعزت نہیں رہے گا۔

پہلی بات یہ کہ ایسی اندوہناک موت سے تمام تر ہمدردی کے باوجود یونان کے قریب کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہونے والوں کو غریب کی فہرست میں ڈالنا زیادتی ہے۔ پاکستان سے کسی یورپی ملک تک سمگلنگ کا ریٹ 25سے 40لاکھ کے درمیان ہے۔ یہ ریٹ سمگلنگ کے راستے اور منزل کے حساب سے بھی بدلتا ہے۔ پھر اس کے علاوہ لوگ اپنے خرچے پانی کے پیسے بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

اگر کسی کے پاس اتنے پیسے موجود ہیں تو کم اس کم اسے غریب والی فہرست میں ڈال کر پاکستان کو مت روئیں۔ اتنے پیسوں میں اگر جان پر کھیل کر غیر قانونی شارٹ کٹ کا رسک لینا ممکن ہے تو عیاشی نہ سہی، اتنے میں پاکستان میں بھی باعزت روزی روٹی ممکن ہے۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ تیس چالیس لاکھ غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کے لیے خرچ کرنے والا غربت کی اس لکیر سے نیچے تھا کہ اسے بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر جان پر کھیلنا پڑا۔

دوسری بات یہ کہ جتنے بھی ہیومن سمگلنگ روٹ ہیں، سب کے سب اذیت ناک مشکلات سے بھرے ہیں جس میں زندگی موت ساتھ ساتھ چلتی ہے اور یہ لوگ مکمل طور پر سمگلرز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد یوں بھی نہیں کہ جہاں یہ غیر قانونی تارکین وطن پہنچتے ہیں وہاں پھولوں کے ہار اور جاب کے اپوائنٹمنٹ لیٹر کے ساتھ بارڈر گارڈ ان کے استقبال کے لیے موجود ہوتے ہیں۔

یونان کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی میں سے بچ جانے والے پاکستانی۔ تصویر: الجزیرہ

اگر یہ زمینی راستے سے پہنچیں اور بارڈر پولیس کے ہاتھ لگ جائیں تو ان کا مار مار کر وہ حال کرتی ہے کہ پہچاننا مشکل ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ سمندری راستے سے آئیں تو انہیں یونان کے جن کیمپوں میں رکھا جاتا ہے، پاکستان میں 25لاکھ تو کیا ایک لاکھ رکھنے والا بھی اس حال میں نہیں رہتا۔ پھر اس مہمان نوازی کے بعد ان پاکستانیوں کو واپس پاکستان بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ عالمی اصولوں کے مطابق پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں جن پر اسائلم کی درخواست بن سکے۔

اگر یہ بارڈر پر نہ پکڑے جائیں تو چوروں کی طرح وقت گزارتے رہتے ہیں۔ نہ تو انہیں ان ممالک میں کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے نہ رہنے کی اس لیے کہیں پولیس کا سایہ بھی نظر آ جائے تو انہیں بھاگنا پڑتا ہے اور انتہائی کم اجرت پر انتہائی محنت طلب کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یا تو پاکستان پر کوئی مکروہ الزام لگا کر انہیں اسائلم مل جائے یا پھر پندرہ بیس سال ایسے ہی چھپتے چھپاتے گزارنے کے بعد ان کو رہنے کے حقوق مل جائیں یا کوئی یورپی خاتون ان کے جال میں آ جائے جس کی بنیاد پر یہ شہریت کے لیے اپلائی کر سکیں۔

عام طور پر شہریت ملتے ہی یہ لوگ ایسی یورپی خواتین کو حیران و پریشان روتا چھوڑ کر اپنے ملک بھاگتے ہیں جہاں کوئی خالہ ماموں پھوپھی کی بیٹی کئی سالوں سے ان کی منتظر بوڑھی ہو رہی ہوتی ہے۔

فرانس کے ساحلی شہر "کیلے” کے نواحی جنگل میں ایسے ہی مہاجرین کی بڑی تعداد کئی سالوں سے ناقابلِ بیان حالت میں موجود ہے اور مجھے دو ہزار سولہ میں ان مہاجر کیمپوں میں کچھ دیر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔

وہاں شامی، عراقی، افغانی مہاجرین تو متوقع تھے مگر پاکستانیوں کو اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں موجود دیکھ کر مجھے کافی شرمندگی ہوئی۔ سب رفاہی اداروں کو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی یہاں بیٹھے صرف "اصل مہاجرین” کے حقوق کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر ڈھٹائی گویا ہمارا قومی کردار ہے۔ اس کی ایک جھلک اس تحریر کے ساتھ دئیے گئے ویڈیو لنک میں دیکھ سکتے ہیں ۔

تیسرا یہ کہ غیر قانونی طریقے سے جو پاکستانی جس معاشرے میں بھی جاتے ہیں، چونکہ ان کا مطمعِ نظر صرف کسی بھی طریقے سے پیسے کمانا ہوتا ہے اور ان کا ٹارگٹ ان ممالک کے سوشل بینیفٹ سسٹم تک رسائی ہوتا ہے، اس لئے یہ ہر ممکن ہیرا پھیری سے کمائی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر محنت کر کے اپنی تعلیم یا صلاحتیوں کی بنیاد پر یورپ آنے والے پاکستانی اتنی جلدی ترقی نہیں کر پاتے کیونکہ وہ جائز ناجائز کی تفریق بھی رکھتے ہیں اور بھاری ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں جبکہ دوسری کیٹیگری کا معاملہ مختلف ہے۔

چوتھا یہ ہے کہ ان میں سے وہ بھی ہیں جنہیں اتنا رسک لینے کے بعد بھی قسمت شارٹ کٹ آفر نہیں کرتی۔ ان کو نہ اسائلم ملتا ہے نہ کوئی لڑکی۔ یہ وہ ہیں جو پھر سالہا سال چکی میں گیہوں کی طرح پستے ہیں۔ گھر والوں کو بتا نہیں سکتے کہ کس حال میں ہیں کیونکہ گھر والوں نے پورے خاندان میں اپنی دھاک بٹھائی ہوتی ہے کہ بیٹا باہر ہے اور وارے نیارے ہیں اور اگر کبھی برے حالات میں گھر والوں سے ذکر کر بھی دیں تو واپس آنے کی اجازت نہیں ملتی۔ انہیں یہی بتایا جاتا ہے کہ تم آ گئے تو سب بھوکے مر جائیں گے کیونکہ گھر والوں کو فری مال کا نشہ لگ چکا ہوتا ہے۔

ایسے لوگوں کو میں نے لندن کی گلیوں میں دسمبر کی سخت سردی میں پُلوں کے نیچے یا بس سٹاپ کے بنچ پر سوئے دیکھا ہے جو لوگوں کی پھینکی ہوئی رضائیاں اٹھا کراپنی سردیاں گزارتے ہیں۔ کچھ وہ بھی ہیں جو انتہائی کم اجرت پر کسی دکاندار کے ہاتھ غلام بن جاتے ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنی دکانوں میں رات رہنے کا ٹھکانہ دے دیتے ہیں۔

یہ ایسا چنگل ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ یہاں تک کہ پولیس کے چھاپے میں پکڑے جائیں اور پولیس انہیں زبردستی ان کے ملک واپس بھیج دے، جہاں ان کی اب کوئی جگہ نہیں رہی۔

گھر والوں کو جن کی "باہر کی کمائی ” کی عادت پڑ جائے، پھر بغیر کمائی کے ان کا بوجھ کون اٹھانا چاہتا ہے۔ ان لوگوں کو ساری جوانی پردیس میں چکی پیس کر پیچھے والوں کو پالنے کے بعد اگر شہریت مل ہی جائے تو پہلا کام یہ پاکستان جانے کی ٹکٹ لینے کا کرتے ہیں اور جاتے ہی ملنے آنے والے ان سے پہلا سوال یہ کرتے ہیں "واپسی کب ہے؟”

اس معاملے میں حکومتوں کا کردار اور انسانی سمگلنگ کرنے والوں کی سیاسی طاقت پر دو دن سے بات ہو رہی ہے اس لیے اسے دہرانے کا فائدہ نہیں۔ البتہ اس کہانی کا ہر ورق دکھوں سے پُر ہے۔ خدا کے لیے اپنے عزیزوں کو ایسے فیصلے کرنے سے روکیں، چاہے جیسے بھی روکنا پڑے۔ پاکستان آئیڈیل نہ سہی ، لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے بدلے موت یا ذلت میں سے کسی ایک کو چنا جائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں