سنیہ عمران
ڈاکٹر عافیہ صدیقی ملک کی مظلوم ترین بہن ہونے کے ناتے اس وقت ہم سب کی طرف سے بھرپور اظہار یک جہتی کی مستحق ہے۔ اس وقت پوری قوم کو عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ایک آ واز ہو کر اپیل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان سے پہلی بار کوئی رکن سینیٹ( ایوان بالا) ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے پاس پہنچا ہے۔ سینیٹر مشتاق کی جرات، تدبر اور استقامت پر مبنی جدوجہد کو سلام! اللہ تعالیٰ انھیں فتح سے ہم کنار کرے اور اللّٰہ تعالیٰ مردہ ضمیروں کو بھی زندہ کر دے کیونکہ جو اب خاموش رہا شریکِ جرم ہی ہوگا۔
سینیٹر مشتاق احمد خان ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اپنی ملاقات کا جو احوال بتایا۔ اس کے مطابق انھوں نے آف وائٹ سکارف اوڑھ رکھا تھا، خاکی لباس میں ملبوس تھیں جو قیدیوں کا لباس ہوتا ہے، انھوں نے سفید جاگرز پہن رکھے تھے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی چھوٹے سے کمرے میں تھیں جس کے درمیان میں ایک شیشہ کے ذریعے پارٹیشن کی گئی تھی۔ اس پارٹیشن کے اس پار ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں اور اس پر سینیٹر مشتاق احمد خان تھے، دونوں کے درمیان بات کرنے کا ذریعہ ٹیلی فون تھا۔
اس انداز میں دونوں کی 3 گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ ان کی گفتگو مکمل طور پر ریکارڈ ہو رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق احمد خان بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت کمزور محسوس ہورہی تھی، بار بار ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، وہ جیل کی اذیت سے دکھی اور خوفزدہ تھی، سامنے کے اوپر کے4 دانت ٹوٹے ہوئے تھے، سر پر چوٹ کی وجہ سے سماعت میں مشکل پیش آ رہی تھی، وہ بار بار کہہ رہی تھی کہ مجھے اس جہنم سےنکالو، 3 گھنٹے طویل اس ملاقات میں ڈاکٹر فوزیہ اور وکیل کلائیو سمتھ بھی موجود تھے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا موڈ بدلنے کے لیے کتابوں پر گفتگو شروع کردی۔ بالخصوص ادب، شعر و شاعری کے موضوعات چھیڑ دئیے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھی غالب، اقبال اور حفیظ جالندھری اور فلسفیانہ، علمی گفتگو میں خوب قادرالکلامی کا مظاہرہ کیا۔ پھر جب انھیں اچانک اپنے بچے، امی، اور جیل کی اذیت اور جیل ہی میں خوفناک مستقبل کا خیال آتا تو وہ اداس ہو کر کہتیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالو۔ سینیٹر مشتاق سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ پیغام پاکستانی عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، حکومت، پارلیمنٹ، عوام، یوتھ اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس/میڈیا کے نام ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان بتاتے ہیں کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی سے ملاقات میں ان کے جیل معمولات، طعام، مطالعہ کےحوالے جب گفتگو شروع ہوئی تو انھوں نے اپنی پسندیدہ حمد اور نعت، شاہنامہ اسلام کے اشعار سنائے، اپنے ابو کی لاڈلی بیٹی، چھوٹی بیٹی ہونے کے ناتے اپنے والد کی محبت کے واقعات سنائے۔ یہ بھی بتایا کہ مجھےابو نے اپنا یہ پسندیدہ شعر یاد کرایا تھا:
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کےلیے
میں نے انھیں اقبال کی اپنی پسندیدہ 2نظمیں، نپولین کے مزار پر، سلطان ٹیپو کی وصیت سنائی۔ انھوں نےکہا کہ مجھےکلام اقبال لا کر دیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے دکھ کے ساتھ کہا کہ میں کتابیں نہیں منگواتی کہ جیل عملہ مجھےدکھ دینے کے لیے میری کتابوں کی توہین کرتا ہے۔
جب یہ ملاقات ختم ہوئی تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو زنجیروں میں جکڑ کر واپس لے جایا گیا۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی چابی واشنگٹن نہیں، اسلام آبادمیں پڑی ہے۔حکومت اگر چاہتی تو امریکی صدر جوبائیڈن کی صدارت سنبھالنے کے موقع پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اقدامات کر سکتی تھی، دوحہ پیس کے موقع پر بھی حکومت پاکستان نے یہ موقع گنوایا۔ حکومت جب مدعی بن جائے گی تو عافیہ ہفتوں اور دنوں میں واپس پاکستان آ سکتی ہے۔ حکومتی سطح پر کسی نے واشگنٹن سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں بات نہیں کی۔ میں زلمے خلیل زاد سے کہتا ہوں کہ آپ کا ایجنڈا نامکمل ہے جب تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی رہا نہیں ہوتیں کیوں کہ یہ معاملہ بھی دوحہ پیس ڈیل کا حصہ ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کہتے ہیں کہ جہنم کے گڑھے سے موسوم امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے جب ان کے بچوں سے متعلق بات ہوتی تھی، جنھیں 20سال سے انھوں نےنہیں دیکھا ہے تو ان کے چہرے کی بےبسی دیکھی نہیں جاتی تھی، ان کی آنکھیں آنسو سے بھر جاتی تھیں اور وہ اپنے بچوں کی حفاظت کی دعائیں مانگنا شروع کر دیتی تھیں۔
سینیٹر مشتاق احمد خان بتاتے ہیں کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی سےملاقات کے لیے جہنم کےگڑھے سے موسوم جیلFMC Carswellجاتے وقت بہت ہی عزیز ڈاکٹر محمد مشتاق کا واٹس ایپ میسج آیا، جس میں انھوں نےکہا تھا کہ میں شدید غم اور دکھ کی کیفیت کی وجہ سے آپ سے بات نہیں کرسکتا۔ بس! اللہ آپ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے مقصدمیں کامیاب کرے اور ساتھ لکھا کہ
"ہماری مظلوم بہن عافیہ صدیقی کےلیے پیغام
"اللہ تعالیٰ کڑی آزمائشیں اپنے خاص بندوں پر لاتا ہے جو جتنا اللہ کےقریب ہے اس کی آزمائش اتنی ہی کڑی ہے۔ آپ(عافیہ) نے اس گئے گزرے دور میں اس گئی گزری قوم کو دکھایا ہے کہ ایمان کی طاقت کیا ہوتی ہے۔
سیدنا یونس علیہ السلام کی دعا کا کثرت سے ورد کیجیے:
لا الٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
ممکن ہو تو99دفعہ یہ پڑھیں اور 100ویں دفعہ میں پڑھیں:
فاستجبنا لہ ونجّیناہ من الغمّ، وکذلک ننجی المؤمنین”
ترجمہ( پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے غم سے نجات دی، اور ہم ایمان داروں کو یونہی نجات دیا کرتے ہیں۔)
میں نےجب ڈاکٹر عافیہ کو یہ دعا پڑھانا شروع کی تو عافیہ نےمیرے منہ سے لے کر آگے آگے پڑھنا شروع کیا اور مجھے کہا کہ میں اس’ کااہتمام کرتی ہوں، جب میں یہ دعا پڑھ لیتی ہوں تو مجھے بے انتہا سکون ملتا ہے لیکن مجھے اس جہنم نما جیل سےرہائی تو نہیں ملی نا! اور اس کے ساتھ ہی ان کے چہرے پر جو کرب اور بے بسی کی کیفیت ہوتی تھی وہ ناقابل برداشت تھی۔ میں نے اپنی ہمت مجتمع کرتے ہوئے اس استقامت کے کوہ ہمالیہ سے کہا:
بہن! یہ اس دعا کی برکت ہے کہ آج 20سال بعد ہم تینوں( میں، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، کلائیو سمتھ ) آپ کے سامنے شیشے کے پار بیٹھے ہیں، ان شاءاللہ۔ اللہ اپنی قدرت کاملہ سے، قرآن کی برکت سے آپ کو اس جیل سے رہائی دلائےگا۔
سینیٹر مشتاق خان پوچھتے ہیں کہ کیا پی ڈی ایم حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا کے وقت ان کے بیٹے ، 6ماہ کےسلیمان کا پتہ چلا سکتی ہے کہ وہ زندہ ہے یا پھر قتل کر دیا گیا ہے؟؟؟
آج جب انھوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا بیڑہ اٹھایا ہے تو انھیں کامیابی کے اشارے ملنا شروع ہوچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا میں مقیم امریکی مسلمان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ایشو کو اٹھائیں میڈیا، امریکی پارلیمنٹ اور امریکی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ اور ان کی جسمانی اور نفسیاتی حالت کی بنیاد پر Humanitarian Grounds پر اپیل کریں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کیا جائے۔
الحمدللہ! آج مڑ کردیکھتا ہوں تو اللہ نےاس چھوٹے سے آغاز میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ جس کا مجھےتصور بھی نہیں’ تھا، 20 سال بعد ڈاکٹر عافیہ کی اپنی بہن سے ملاقات، امریکی مسلمانوں ( عوام، علما، کاروباری اور سیاسی شخصیات )کی عافیہ رہائی کے لیے بیداری اور تعاون اور پاکستان میں تمام طبقات کا عافیہ رہائی مشن پر اتفاق، یہ اللہ کی نصرت اور عافیہ کی رہائی کے اشارے ہیں۔ گزشتہ روز واشنگٹن میں پاکستان سفارت خانے، ترک سفارت خانے اور وائس آف امریکہ ہیڈکوارٹر کا عافیہ رہائی کوششوں کے سلسلے میں میرا دورہ ہوا اور میٹنگز ہوئیں۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا: میرے عزیزو، تیز ہو، تیز ہو، جدوجہد تیز ہو، عافیہ کی رہائی قریب ہے’۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ ‘عافیہ صدیقی سے 20 سال بعد پہلی دفعہ اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ملاقات اور اسی طرح ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوششیں عرصے بعد مثبت سمت میں چل رہی ہیں۔ یہ کوششیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کوتحریک/ کاز/ مشن کی صورت میں آگے بڑھائیں۔ اسی طرح ملک میں مسنگ پرسنز کا ایشو ایک المیہ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ابتدائی مسنگ پرسنز تھیں، جو 5 سال لاپتہ رکھنے کے بعد افغانستان میں دکھائی گئیں۔
عافیہ کی رہائی اورمسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے تحریک کی صورت میں 10 لاکھ افراد کو رجسٹر کرکے ساتھ لےکر حلف اور عہد اٹھا کر آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
یہ تحریک
(1) پرامن ہوگی، غیر متششدد ہوگی۔
(2) جمہوری انداز سےقانون کے دائرے میں ہوگی۔
(3) اس کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بے حس حکمرانوں کو مجبور کریں گے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور تمام مسنگ پرسنز کی بازیابی کے حوالے سے صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا کریں’۔
میں عوام کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس تحریک کا حصہ بننے کی دعوت دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس’ تحریک کا حصہ بن کر قانون، آئین کے دائر میں جمہوری طریقے سے بھرپور کردار ادا کریں گے’۔
‘یہ کردار۔۔۔۔۔۔
(1) اپنے علاقے میں، تعلیمی اداروں، مساجداور دوسرے پبلک مقامات پر ڈاکٹر عافیہ اور مسنگ پرسنز کا کیس پیش کرنا
(2) اس حوالے سے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کرنا۔
(3) اس مقصد کے لیے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا۔
(4) اور جب پاکستان کی سطح پر بڑے ایونٹ کی کال دی جائےتو اس میں ہر صورت شرکت کرنا۔’
ہماری یہ کوشش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی وطن واپس نہیں آ جاتیں اور تمام مسنگ’ پرسنز بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو نہیں پہنچ جاتے۔ اس تحریک کی رجسٹریشن کاطریقہ کار اور دیگر امور جلد وضع کیے جائیں گے اور آپ کے ساتھ شئیر کیے جائیں گے’۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی بہت دردناک ہے۔ 30مارچ 2024کو قوم کی اس بیٹی کو امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر فورتھ کی جیل ایف ایم سی میں تشدد سہتے ہوئے 17 سال ہو جائیں گے۔
میری حکومت پاکستان اور اعلیٰ حکام سے اپیل ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی جلد سے جلد کروائی جائے اور خاص طور پر پاکستانی عوام سے اپیل ہے کہ اپنی اس بہن کے لیے پر جوش ہو کر، نڈر ہو کر آ واز اٹھائیں اور پھر قوت نکلیں حکومت پر پریشر بڑھائیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ستم گروں کے ستم سہتے کتنے ہی برس گزار دیے، وہ اپنوں سے دور ہیں، بچوں کی آ نکھیں اپنی ماں کو دیکھنے کی آ س میں روز بھیگتی ہیں اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی آ واز روز چیخ چیخ کر اس کا درد و کرب بیان کرتی ہے اور کرب سے پکارتی ہے کہ ہے کوئی محمد بن قاسم جو اس بنت حوا کو آزاد کرا لے!
روز حشر بھی سوال ہو گا کہ کس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی جدوجہد میں کتنا حصہ ڈالا اور کون کون خاموش رہا۔ بے شک بہت ہی سخت دن ہوگا، یقینا اس روز اللہ تعالٰیٰ اپنے بندوں کے ساتھ بال برابر بھی ناانصافی نہیں کرے گا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوئی پنچھی نہیں، انسان ہے اور اس وطن پہ اس کا بھی حق ہے اس وطن میں اس کا بھی آشیانہ ہے۔
یا اللہ! تو آ ئندہ بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو غیر متزلزل صبرو استقامت برقرار فرما اور ان پتھر دل حکمرانوں کے دل پھیر دے۔ آ مین ثم آمین۔
بس بہت ہو چکے ستم اب کلیجے چھلنی ہیں
اب دو رہائی کے ڈاکٹر عافیہ صدیقی وطن کو لوٹے