رجب طیب اردوان ، صدر جمہوریہ ترکیہ

ترکیہ: رجب طیب اردوان دوسرے راؤنڈ میں جیت سکیں گے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شبانہ ایاز

14 مئی 2023 کو ہونے والے ترکیہ کے انتخابات سے پہلے مغربی طاقتوں نے سروے کمپنیوں کے ذریعے ترک صدر رجب طیب اردوان کے خلاف بھرپور پروپگنڈا کیا اور یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ اردوان عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں اور یہ کہ وہ اپنی عوام کی نظروں میں کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہیں۔

ان سروے کمپنیوں نے عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ درحقیقت ففتھ جنریشن وار کا حصہ تھا جس کے تحت انفارمیشن وار ان کے خلاف لڑی جا تی ہے جو مغربی طاقتوں کو پسند نہیں۔

ترکیہ میں طیب اردوان ایک مضبوط لیڈر کے طور پر موجود ہیں۔ یہ بات مغربی طاقتوں کو ناپسند ہے۔ اس کی بنیادی وجہ طیب اردوان کا ترکیہ کو بلندی اور ترقی کی جانب لے کر چلنا ہے۔ ترکیہ نے کچھ عرصہ پہلے ہونے والی آذربائیجان کی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے، جو کہ مغرب کے لیے قطعاً ناقابل قبول ہے۔

لہذا انفارمیشن وار کے تحت سروے کمپنیوں کو بیک ڈور فنڈنگ کی گئی تاکہ لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کیا جاسکے۔

سروے کمپنیوں نے پیش گوئیاں کی تھیں کہ کمال کلچدار اوغلو کو %56 ووٹ ملیں گے اور طیب اردوان کو %42 ووٹ ملیں گے ۔جس کی وجوہات مہنگائی، قدامت پسندی، غیر ملکیوں کی ترکیہ میں آبادکاری اور پچھلی 2 دہائیوں سے طیب اردوان کی مسلسل حکومت۔

سروے باقاعدہ ایجنڈا سیٹنگ کے تحت ان علاقوں میں ہوئے جہاں پر طیب اردوان کی مخالفت تھی۔ چند ہزار لوگ 7 کروڑ افراد کی نمائندگی نہیں کرتے۔ چند ہزار مخصوص لوگوں کی رائے سوشل میڈیا پر دکھانے سے صرف مغربی طاقتوں کا ایجنڈا سامنے آیا اور 14 مئی کے الیکشن میں ان سروے کمپنیوں نے منہ کی کھائی ہے۔

ترک حکومت کو چاہیے کہ وہ سروے کمپنیوں پر پابندی لگادے کیونکہ انہوں نے بیک چینل فنڈز لیے اور ملین ڈالرز کمائے ہیں۔

پوری دنیا میں جب مغربی طاقتیں کسی مسلمان ملک میں پروپیگنڈا کرتی ہیں تو عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جیسے عراق اور لیبیا میں دیکھا گیا لیکن ترکیہ میں اس کے برعکس ہوا۔ سروے کمپنیوں کی اردوان مخالف مہم کا اثر الٹا پڑا اور لوگوں نے اردوان کو لانے کے لیے بھرپور ووٹ ڈالا۔

شبانہ ایاز ، مضمون نگار

14 مئی کو ہونے والے انتخابات میں صدر اردوان صرف اعشاریہ 50 سے فتح کی لائن سے پیچھے رہ گئی تاہم انھوں نے اس کے باوجود اپنے مخالفین کو پچھاڑ دیا۔ دوسرے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کمال اوغلو 45 فیصد بھی ووٹ حاصل نہ کرسکے جبکہ جناب طیب اردوان کے 49 اعشاریہ 50 فیصد ووٹ تھے۔ اگر وہ پورے 50 فیصد ووٹ حاصل کرلیتے تو وہ تیسری بار بھی صدر منتخب ہوجاتے۔ تاہم اب چونکہ کوئی امیدوار بھی پچاس فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکا ، اس لیے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے بڑے دو امیدواروں کے درمیان 28 مئی کو مقابلہ ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے میں طیب اردوان کی جیت کے 80 فیصد امکانات ہیں۔

سنان اوعان کی اہمیت

اس وقت سنان اوعان کی حمایت کی طرف بین الاقوامی میڈیا کی آنکھیں لگی ہوئی ہیں۔ سنان اوعان کی سابقہ پارٹی ملی حرکت پارٹی (MHP) طیب اردوان کی اتحادی پارٹی ہے۔ سنان اوعان کی سوچ پاکستان کے حق میں ہے۔ جس وقت سعودی عرب میں ایک حادثہ پیش آیا تھا تو ترکیہ نے سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کیا تھا۔

سنان اوعان نے اس وقت اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں ایک ٹرین کے حادثے میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور پاکستان ہمارا سب سے قریبی اور ہر مشکل میں ساتھ دینے والا ملک ہے، میں طیب اردوان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کے لیے بھی سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کریں۔

سنان اوعان جنھوں نے ماسکو سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، اسلامی ممالک کے ساتھ الائنس کے حق میں ہیں۔ طیب اردوان بھی اسلامی ممالک سے اتحاد کے خواہاں ہیں۔ سنان اوعان نے آذربائیجان میں جا کر یہ بیان دیا تھا کہ ہم ایک قوم اور دو ملک ہیں۔(آذر بائیجان اور ترکیہ). اسی طرح انہوں نے طیب اردوان کے متعلق بھی یہ بیان دیا تھا کہ میں طیب اردوان کو بہت پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور میں کسی ایسے لیڈر کو پسند نہیں کرتا جو سب کی سنتا ہو۔

سنان اوعان کو کمال کلچداراوغلو کی جانب سے آٹھواں وائس پریزیڈنٹ بنانے کی پیشکش ہو رہی ہیں، سنان اوعان کے پاس بھی ایک موقع ہے کہ وہ کوئی اہم عہدہ حاصل کر سکتے ہیں۔

یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ کلچدار اولو کو سنان اوعان کی شدید ضرورت ہے جبکہ سنان اوعان کو طیب اردوان کی ضرورت ہے۔ طیب اردوان کی جیت بہت قریب ہے۔ انہیں 0.5% ووٹوں کی ضرورت ہے. اق پارٹی سنان اوعان کو زیادہ لفٹ نہیں کروا رہی جبکہ سنان اوعان نائب صدر کا عہدہ لینے کے ساتھ ساتھ امیگریشن کی منسٹری کے بھی خواہاں ہیں اور ان کے عزائم بہت واضح ہیں۔

انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں واضح طور پر عوام سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہمیں ترکیہ میں غیر ملکی منظور نہیں اسی لیے وہ امیگریشن کی منسٹری پر نگاہ لگائے ہوئے ہیں۔

اردوان کو جیت کے لیے صرف 3 لاکھ ووٹ درکار

طیب اردوان کو 0.5% ووٹ حاصل کرنے کا مطلب پونے 3 لاکھ مزید ووٹ لینا ہے اور جیت کے لیے یہ کوئی بہت بڑا ووٹ بینک نہیں ۔ جس بندے نے دو کروڑ 70 لاکھ ووٹ لے لیے اس کے لیے پونے 3 لاکھ ووٹ لینا کوئی مسئلہ نہیں۔

14مئی کو مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 13 لاکھ ہے۔ یہ اگر دوسرے راؤنڈ میں سارے کے سارے کلچدار اوغلو کو پڑ بھی جائیں تو بھی کلچدار اوغلو کے ووٹ %47 بنیں گے لہذا وہ پھر بھی نہیں جیتیں گے۔

سنان اوعان کے ووٹرز نے پہلے ہی طیب اردوان اور کلچدار اوغلو کو ووٹ نہ ڈال کر یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ ان دونوں میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے۔ 28 لاکھ سنان اوعان کو ووٹ ڈالے گئے تھے اور محرم انجے کو 4لاکھ۔ سنان اوعان کو چوتھے صدارتی امیدوار محرم انجے کا بھی سارا ووٹ پڑا تھا۔جو کہ کل ملا کر 5.17 تھا۔

سنان اوعان کے 5فیصد ووٹ میں سے 3سے 4فیصد لوگ مایوسی کے باعث ووٹ ہی نہیں ڈالیں گے اور جو 13 لاکھ ووٹ مسترد ہوئے ہیں اس میں سے بھی اگر 10 فیصد کلچداراوغلو کو مل بھی جائیں تو ان میں سے بھی 2سے 3فیصد ووٹ اردوان کو ملیں گے۔

اس وقت طیب اردوان کو جیت کے لیے صرف 0.5% ووٹ چاہئیں ، لہذا طیب اردوان تو پہلے ہی کامیابی کی دہلیز پر کھڑے ہیں، بس ان کا 28مئی کو اس دروازے سے ایوان صدر میں تیسری بار داخل ہونا باقی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں