انگبین عُروج۔کراچی
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
ارتقاۓ کائنات کے بعد تخلیقِ آدم اس وقت تک نامکمل رہی جب تک حوّا کو آدم کے لیے تخلیق نہ کیا گیا۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ خلقِ آدمیت کے بعد کائنات میں رہ جانے والی حُسن و خوبصورتی اور رنگ و بُو کی کمی ‘حوّا’ نے پُر کی اور بقائے کائنات کے لیےآدم و حّوا دونوں کا وجود لازم و ملزوم ٹھہرا۔۔۔
کائنات کا توازن برقرار رکھنے اور افزائشِ نسلِ انسانی کی ذمّہ داری خالقِ کائنات نے حوّا کے سپرد کی۔گویا بنتِ حوّا کی عزت و تکریم اور قدر شناسی کے لیے اِک یہی وجہ معتبر ٹھہرتی ہے کہ تخلیقِ آدم کے بعد دنیا میں آنے والا ہر مرد ‘عورت’ کے بطن سے گُزر کر آتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہوئی کہ عورت کی عزت و تکریم کماحقہ اس کے برخلاف رہی۔ زمانہ جاہلیت ہو یا فرعون کا قصرِ شاہی، بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنا یا ان کی گردنیں اُڑا دینے کا تصور کیونکر آدم زاد کے ذہنوں پر سوار ہوا؟؟
اسی جہالت و انسانی پستی کو تَلف کرنے کی خاطر خالقِ کائنات نے نبیوں اور پیغمبروں کے ذریعے ہدایت اتاری۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب ربِ کائنات نے نوعِ انسانی کی بقاء اور جاہلیت کے اندھیرے دور کرنے کے لیے پیغمبرِ آخر الزماںﷺ کو رشد و ہدایت کا نور دے کر بھیجا کہ جب تاریکی و ظلمت کے اندھیرے چھٹنے لگے اور آدم زاد نے اپنے ساتھ ساتھ بنتِ حوا کی تعظیم و تکریم اور قدر و منزلت پہچانی۔جب عورت کو ‘خوبصورت آبگینے’ سے تشبیہ دی گئی اور خالقِ کائنات نے اپنی کتاب میں ‘سورۃ النور’ اور ‘سورۃ النساء’ کا نزول فرمایا۔جس نے بنتِ حوّا کو ایک نئی شناخت دی، اُسے پاکیزہ، خوبصورت اور چھپا کر رکھنے والی عزت و تکریم کرنے کے لائق مخلوق ہونے کا شرف بخشا۔
قرآنِ کریم میں جب بھی انسان کو ‘اشرف المخلوقات’ کا درجہ دیا گیا کہیں بھی مرد و عورت کی تخصیص نہیں رکھی گئی۔
دینِ اسلام، پیدائشِ آدم کے بعد آنے والا وہ دینِ واحد ہے جس نے کہیں آدم کو حوّا پر افضل قرار دیا،تو کہیں حوّا کو ماں کے درجہ پر فائز فرما کر آدم کو جنّت اس کی خوشنودی کے ذریعے حاصل کرنے کا پابند کر دیا۔کہیں آدم کو حوّا پر قوّام بنایا، تو کہیں حوّا کو اس کا لباس اور اس کا نِصف دین کہہ کر اس کے برابر لا کھڑا کیا۔
سوال یہ ہے کہ ربِ کائنات کی بنائی ہوئی اس تقسیم میں عدم توازن کیسے اور کیونکر پیدا ہوا؟؟
اس بحث و تکرار کا وجود کب اور کیوں پیدا ہوا کہ آدم ہر لحاظ سے برتر اور حوّا کمتر مخلوق ہے؟؟آدم نے رب کے عطا کردہ حقوق بھی حوّا سے چھین لئے اور اپنی مرضی کی شریعت اور احکامات عائد کرتا چلا گیا۔دینِ اسلام نے حوّا کو جن جائز حقوق سے نوازا وہ بھی دورِ جاہلیت سے آدم زاد دباتا آ رہا ہے۔یہی نہیں آج بنتِ حوّا خود بھی اپنی مقصدِ تخلیق کی اصل روح سے ناآشنا نظر آتی ہے۔
ایک مخصوص طبقے کی بنتِ حوّا آج مغرب کی اندھی تقلید اور ‘آزادی اظہارِ رائے’ کے نام پر سڑکوں پر جن "حقوقِ نسواں” کی جنگ لڑ رہی ہے،دراصل وہ گاؤں دیہات کے کچے مکانوں،تنگ گلیوں، بَھٹّے پر کام کرنے والی اور وہیں دفن کر دی جانے والی بنتِ حوّا، اکیسویں صدی میں بھی غیرت کی بھینٹ چڑھائے جانے والی،وراثت کے حق سے محروم کر کے قرآنِ پاک سے بیاہ دی جانے والی اور وَنی کی جانے والی حوّا کی بیٹیوں کے حقوق کے حصول لیے لڑی جانے والی جنگ نہیں بلکہ مغربی تہذیب و لبرل ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔
بنتِ حوّا کی آواز دبانے میں اور اس کا استحصال کرنے میں فقط آدم زادے ہی نہیں بلکہ خود ‘بین الاقوامی یومِ خواتین’ منانے والا لبرل خواتین کا ایک مخصوص طبقہ بھی پیش پیش ہے جو اپنا کھانا خود گرم کرو، اپنی روٹی خود بناؤ، اپنے موزے خود دھوؤ اور میرا جسم میری مرضی جیسے عجیب الخلقت نعروں اور بنتِ حوّا کو شرم و حیا کے لبادے اتار پھینکنے کا درس دے کر سڑکوں پر نہ جانے عورت کے کس پِسے ہوئے اور مجبور طبقے کے لیے "عورت مارچ” کرتی نظر آتی ہیں۔
بنتِ حوّا چیخ چیخ کر یہ کہنا چاہتی ہے کہ ہم دین اور شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے، خالقِ کائنات کے عطا کردہ حقوق کی درست تقسیم چاہتے ہیں۔ہم وہ تعظیم و تکریم چاہتے ہیں جو پروردگار نے آدم زاد کو نو ماہ اپنے بَطن میں رکھنے کے بعد دردِ زہ سے گزر کر دنیا میں لانے کے بعد عطا کی ہے۔
ہمیں صنفِ نازک اور نازک آبگینوں سے تشبیہ ضرور دی گئی ہے لیکن بقائے انسانی اور موجبِ تخلیقِ آدمیت ہمیں ہی سونپی گئی ہے۔ بنتِ حوّا کی آواز سُنو! اُسے فقط افزائشِ نسل کا آلہ یا اپنی تجارت کا اشتہار نہ بناؤ بلکہ اُس کے حقوق کی حفاظت کرو! اُسے بھی کُھل کر جینے کا حق دو!!