ویلنٹائن ڈے یوم محبت ، سرخ دل ، گلب کے پھول اور گفٹ

ویلنٹائن ڈے : یوم محبت کی حقیقت کیا ہے ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شبانہ ایاز

14 فروری کو منائے جانے والے یوم محبت یا ویلنٹائن ڈے کی ابتداء کہاں اور کیوں ہوئی اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ۔ اس کی جڑیں تاریخ کے دھندلکوں میں وہاں پیوست ہیں جہاں تاریخ میں روایات اور دیو مالائی کہانیاں یوں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں کہ حقیقت اور افسانے کا پتہ چلانا ممکن نہیں ہوتا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ
”سترہویں صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کی محبت میں مبتلا ہو گیا ، چوں کہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا، اس لیے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا کہ 14/فروری کا دن ایسا ہے کہ اس روز کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کر لیں تو انھیں گناہ نہیں ہوگا۔

راہبہ نے اس کی بات پر یقین کر لیا اور دونوں سب کچھ کر گزرے ۔ کلیسا کی روایات کی دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے۔ یعنی ان دونوں کو قتل کر دیا گیا۔

کچھ عرصے بعد چند لوگوں نے انہیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کر دیا۔

دوسرا وہ سینٹ ویلنٹائن جس نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کر دیا۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں، یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں، جو اپنی محبت کے زہر بُجھے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر انہیں گھائل کرتا تھا۔

تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ اور بعض نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جارہا ہے یا ویلنٹائن کارڈ بھیجنے کی جو نئی روایت چل پڑی ہے ، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق رومیوں کے دیوتا لو پرکالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار بارآوری یا پرندوں کے ایامِ اختلاط سے ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی وجوہات اس دن کے منانے کی بیان کی جاتی ہیں۔ ۔

مسیحی دنیا میں اس دن کی ابتداء کے حوالے سے دستیاب تمام ہی حوالہ جات غیر مستند ہیں۔ جہاں مذہب عیسوی کو رواج دینے کے لئے دیگر بدعتوں کو اپنا لیا گیا وہیں "پوپ گیلا سیس” نے498 عیسوی کے لگ بھگ ہر سال 14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن کی عید منانے کا اعلان کر دیا۔

یورپ نے ہوس پرستی پر مبنی اس دن کو عیسائیت میں داخل تو کر لیا لیکن اس کے لئے کسی قسم کی عبادات وضع نہیں کیں۔ جلد ہی اٹلی میں دین نصرانی کے عالموں نے اس روز سے وابستہ رسومات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے اِسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دے کر ناجائز قرار دے دیا۔

آزاد ہوس پرستی/ ویلنٹائن ڈے کا باقاعدہ آغاز

رائج الوقت ویلنٹائن ڈے کا آغاز پندرویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب یورپ "نشاہ ثانیہ” کے عمل سے گزر رہا تھا۔ کلیساء کے جامد اعتقادات کے بجائے سائنس کے جدید تصورات دلوں میں جاگزین ہو رہے تھے۔ پادریوں کے سخت گیر رویے کے باعث بالآخر وہ وقت آ پہنچا تھا کہ مذہب سے وابستہ ہر عمل اور رواج دقیانوسیت کی علامت بن کر رہ گیا تھا۔

ایسے میں لادینیت کے علمبرداروں نے شادی بیاہ کے روایتی تصور کو دھندلانے اور خاندانی نظام کو کمزور کرنے کی خاطر عہد قدیم کے ” آزاد ہوس پرستی ” کے تہوار کا احیاء ویلٹائن ڈے کے عنوان سے کیا۔

اسے ایک باقاعدہ تحریک کی شکل فرانس کی شہزادی "پرنسس آف ایزا بیل” نے سن 1400ء میں دی۔ جلد ہی یوم محبت مغربی یورپ میں مقبول ہو گیا۔
1797 میں یوم محبت کے عنوان سے "محبوب کو خطوط لکھنے” کی رسم کا آغاز ہوا۔ جس نے بعد میں ویلٹائن کارڈ کی شکل اختیار کرلی۔ جو موجودہ وقت میں کرسمس کے بعد سب سے زیادہ کارڈز دینے کا دن بن چکا ہے۔ کارڈرز کے علاوہ دیگر تحائف کے اعتبار سے یہ دن کمائی کا بھی ایک بہت بڑا زریعہ ہے۔

یوم محبت اور اس سے وابستہ رسومات نے یورپ کے معاشرے پر بہت ہی سنگین اور دیرپا اثرات مرتب کیے، یورپ میں خاندانی نظام کی مکمل تباہی عمل میں آئی، آزاد جنسی تعلقات اور ہم جنس پرستی نے فروغ پایا اور شرم و حیا کا مکمل خاتمہ ہی ہو گیا۔ ویلنٹائن ڈے جسے دنیا یوم محبت کہتی ھے، وہ درحقیقت محبت جیسے پاکیزہ جذبے کی بد ترین توہین ہے۔

ویلنٹائن ڈے اسلام اور مغربی تہذیب کی جنگ کا ایک اہم ہتھیار ہے۔

ویلنٹائن ڈے کو مشرقی ممالک خصوصاً اسلامی دنیا میں بیسویں صدی کے آخری عشرے میں فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ جس کی بنیادی وجہ اسلامی دنیا میں بڑھتا ہوا اسلام پسندی کا رجحان تھا۔ کمیونزم کی شکست و ریخت کے بعد اب مغرب کے مدمقابل اسلامی تہذیب کا عفریت تھا جس کی روک تھام کے لئے دنیا میں تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کو جنم دیا گیا۔

اگر مغربی تہذیب کی اور اسلامی تہذہب کی ہئیت ترکیبی پر غور کیا جائے تو بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز عفت ، پاکدامنی ، حیا اور خاندانی نظام ہے جبکہ مغربی تہذیب مذہب بیزاری اور جدیدیت کی رو میں ان خصوصیات سے مکمل طور پر عاری ہو چکی ہے۔

بہرحال ویلینٹائن ڈے کی ابتداء کچھ بھی ہو اتنی بات تو طے ہے کہ یہ غیر قوموں کی ایجاد ہے اور اب بھی غیر قومیں بالخصوص ان کے یہاں ناجائز تعلقات رکھنے والے غیر شادی شدہ جوڑے بڑے اہتمام سے اس دن کو مناتے ہیں، شرم وحیاء کا جنازہ نکالا جاتا ہے اور بے حیائی ، فحاشی اور عریانیت کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔

غیر قوموں کی صورت حال یہ ہے کہ
لاس اینجلس(Los Angeles) کے ڈاکٹرجرمن میسونیٹ(Dr. German Maisonet) امریکی معاشرے کی حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

“اوسطاً ہر پانچ سیکنڈ میں ایک امریکی انتہائی خطرناک جنسی عمل میں مصروف ہوجاتا ہے۔

ایسے اخلاق باختگی کے عالم میں ہمیں صرف دین اسلام پر عمل کے ذریعے سے ہی پناہ مل سکتی ہے ۔
دین اسلام میں سراسر رحمت ہے ۔ اسلام اسی چیز کی ممانعت کرتا ہے جو انسان کے اخلاقِ کو بگاڑنے والی چیزیں ہیں۔
اسی لئے غیرمحرم مرد وعورت کا آپس میں ملنا ، بات چیت کرنا ایک دوسرے کو گلاب یا تحفہ تحائف دینا تو کسی بھی طور اسلام میں جائز نہیں ہے۔

شریعت مطہرہ میں اسے زنا سے تعبیر کیا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ آنکھیں ( زنا کرتی ہیں ) کہ ان کا زنا نامحرم کو دیکھنا ہے، اور کان ( زنا کرتے ہیں ) کہ ان کا زنا نامحرم کی بات سننا ہے، اور زبان ( زنا کرتی ہے) کہ اس کا زنا نامحرم کے ساتھ بولنا ہے، اور ہاتھ بھی ( زنا کرتے ہیں ) کہ ان کا زنا نامحرم کو چھونا ہے۔ (مسلم)
سچائی تو یہ ہے کہ جس سے محبت ہو ، اسے نکاح کرکے سرخرو کیا جاتا ہے” زنا ” کرکے شرمندہ نہیں کیا جاتا۔۔۔

لہٰذا اسلام میں تو ویلینٹائن ڈے/ یوم محبت منانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ سراسر ناجائز اور حرام کام ہے۔

اسی طرح میاں بیوی کا بھی آپس میں اس دن ویلینٹائن ڈے کے نام پر ایک دوسرے کو گلاب دینا یا تحفہ تحائف کا تبادلہ کرنا غیرقوموں کی مشابہت کی وجہ سے جائز نہیں ہے، جس پر حدیث شریف میں وعید آئی ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا قیامت کے دن اس کا حشر اسی کے ساتھ کیا جائے گا لہٰذا اس سے بچنا بےحد ضروری ہے۔کیونکہ یہ مغربی تہذیب کا ایک ایسا کاری وار ہے جس کا نتیجہ شرم و حیا ، عفت و عصمت اور خاندانی نظام کی سراسر تباہی ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں